پنجاب کابینہ میں توسیع۔۔۔ لغاری نہیں عبدالعلیم شاہ

پنجاب کی کابینہ میں توسیع کی خبریں بہت گرم ہیں۔ کہاجا رہا ہے کہ یہ توسیع کسی بھی لمحہ ہو سکتی ہے ۔ بہت سے نام زیر گردش ہیں۔ بہت سے دوستوں نے شیروانیاں تیار کروا لی ہیں۔ مبارکبادوں کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ محکموں کی بند ربانٹ بھی شروع ہے۔ کچھ دوست تواس حد تک آگے جا چکے ہیں کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ وزارت تو پکی ہے بس میں اپنی پسند کا محکمہ لینا چاہتا ہوں۔ کچھ دوست تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان سے ان کا من پسند محکمہ بھی طے ہو گیا ہے۔ کابینہ میں توسیع کے لئے جو نام سامنے آرہے ہیں، ان میں ڈیرہ غازی خان سے جمال لغاری کا نام بھی سامنے آیا ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ سردار ذوالفقار کھوسہ کی بغاوت کے بعد ڈیرہ غازی خان سے مسلم لیگ (ن) کو لغاریوں کی ضرورت ہے، اس لئے جمال لغاری کو صوبائی کابینہ میں شامل کیاجائے۔ ڈیرہ غازی خان میں قبائلی نظام ہے۔ قبائلی سردارہی الیکشن لڑتے ہیں۔ غریب ورکر یہاں سے الیکشن لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ 1977ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے ڈاکٹر نذیر احمد نے سردار فاروق لغاری کے والد سردار جمال لغاری کو ہرا دیا تھا، لیکن اگر ڈیر غازی خان کے سیاسی پنڈتوں سے پوچھا جائے تو وہ اسے بھی کسی غریب سیاسی کارکن کی فتح نہیں قرار دیتے، بلکہ اس وقت کے مخصوص سیاسی حالات میں مزاری اور دریشک ڈاکٹر نذیر احمدکا ساتھ دے رہے تھے۔ اِسی لئے کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی بڑا پ سیٹ نہ ہو تو سب سردار اپنی اپنی سیٹیں جیت جاتے ہیں۔ یہ سردار چاہے مختلف جماعتوں میں ہوں، لیکن ایک دوسرے کے ساتھ یہ انڈر سٹینڈنگ بھی کر لیتے ہیں کہ ایک دوسرے کی سیٹ پر ایک دوسرے کو تنگ نہ کیا جائے۔ تا کہ سب جیت سکیں۔ اسے یہ سیاسی رواداری بھی کہتے ہیں۔ کھوسہ اور لغاریوں کی دیرینہ دشمنی بھی ہے۔ دونوں قبائل ایک دوسرے کے مخالف بھی ہیں۔ اسی لئے ایک دوسرے کے خلاف انتخاب بھی لڑتے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ سردار ذوالفقار کھوسہ کے جانے کے بعد میاں شہباز شریف لغاریوں کو ایڈجسٹ کرنے کی سوچ رہے ہیں، لیکن یہ ایک روایتی سوچ ہے۔ اس میں کوئی جدت نہیں اور نہ ہی یہ آج کی سیاست کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ اگر لغاریوں کو ایڈجسٹ کرنے کی واحد منطق یہی ہے کہ کھوسہ کو ڈیر غازی خان بھی ٹف ٹائم دینا ہے تو اس کے اور بھی بہتر طریقے موجود ہیں۔ سردار ذوالفقار کھوسہ کی آبائی نشست پی پی 244 ہے۔ لغاریوں نے ماضی میں سردار ذوالفقار کھوسہ کو اس نشست سے ہرانے کی کافی کوشش کی، مگر وہ ناکام ہوئے ۔ لغاریوں نے براہ راست خود بھی اس نشست سے کھوسہ کے مقابلے میں انتخاب لڑا لیکن وہ کھوسہ کو نہ ہرا سکے۔ کھوسہ اپنی یہ آبائی نشست ایک نوجوان مسلم لیگی کارکن عبد العلیم شاہ، جس نے اپنی زیادہ تر سیاست لاہور میں ایم ایس ایف کے پلیٹ فارم سے کی سے ہارے ہیں۔ عبد العلیم شاہ نے پہلی بار 2002ء کے انتخابات میں سردار ذوالفقار کھوسہ کے بیٹے سیف الدین کھوسہ کو شکست دی تھی۔ اس کے بعد اب 2013ء کے انتخابات میں عبد العلیم شاہ نے سردار حسام الدین کھوسہ کو شکست دی۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ عبد العلیم شاہ کے پاس نہیں تھا، وہ بے چارہ آزاد لڑ رہا تھا۔ پاکستان کی سیاست کے بدلتے ماحول کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ گیلانی اپنی نشست ہار گئے۔ شاہ محمود قریشی اپنی آبائی نشست ہار گئے۔ بڑے بڑے نام ہار رہے ہیں۔ اس لئے مسلم لیگ (ن) کو ڈیر غازی خان میں کھوسہ کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک نئی متحرک ٹیم بنانی چاہئے،جس کی پہچان مسلم لیگ (ن) ہو۔ جہاں تک لغاری سرداروں کا تعلق ہے، تو وہ تمام سیاسی جماعتوں سے آؤٹ ہو چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی میں وہ واپس جانہیں سکتے۔ تحریک انصاف کے گھاٹ کا پانی بھی پی چکے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ ان کی دال تحریک انصاف میں بھی نہیں گلے گی۔ گزشتہ انتخاب میں ان کے پاس کسی جماعت کا ٹکٹ نہیں تھا لیکن وہ اپنی آبائی نشستیں پھر بھی جیت گئے اور آزاد جیت کر غیر مشروط مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے، کیونکہ ان کو اندازہ تھا کہ وہ شرط رکھنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ جنوبی پنجاب میں سیاست کے رنگ بدل رہے ہیں۔ اگلے انتخابات میں ان سرداروں کو اپنی نشستیں بچانی مشکل ہو جائیں گی۔ ملک میں موجود سیاسی ہلچل نے عام آدمی کو جگا دیا ہے۔ اس لئے اب عام آدمی کو سامنے رکھ کر سیاسی فیصلے کرنا ہوں گے۔ نئے چہرے سامنے لانے ہو نگے لوگ پرانے چہروں سے تنگ آچکے ہیں۔ پنجاب کابینہ میں جتنے نئے پڑھے لکھے چہرے سامنے آئیں گے مسلم لیگ (ن) کی سیاسی ساکھ اس سے بہتر ہوگی۔