میرا ڈاکو اچھا ہے،تیرا ڈاکو گندا ہے
ایک ایسے وقت میں جب ایم کیو ایم پاکستان میں توڑ پھوڑ کی کوشش کی گئی، پیپلز پارٹی میں شروع ہوچکی ہے اورمسلم لیگ (ن) میں کی جا رہی ہے آخر تحریک انصاف میں ہی یہ توڑ پھوڑ کیوں نہیں ہو رہی ہے اور ایسی کسی ہنگامی صورت حال کا عمران خان کو سامنا کیوں نہیں ہے؟
اس سوال کا ایک سیدھا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ پی ٹی آئی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی مقبولیت میں دراڑ ڈال کر آگے بڑھی ہے اور اس کے پاس کھونے کو کچھ نہیں جبکہ پانے کو اگلے انتخابات میں جیت کر حکومت بھی پاسکتی ہے، لہٰذا ایک طرف اگر ووٹر اس کو ٹرائی کرناچاہتا ہے تو الیکٹ ایبلز بھی اس سے جڑ کر قسمت آزمائی کرنا چاہتے ہیں، اس لئے پی ٹی آئی میں آنے والوں کا رش تو ہے جانے والوں کا نہیں!
یوں بھی پی ٹی آئی سے جانے والوں میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے، خواہ وہ فوزیہ قصوری ہوں، صنم بلوچ ہوں یا پھر عائشہ گلا لئی۔ ویسے آج کل ڈاکٹر شیریں مزاری بھی خاموش ہیں، خدا خیر کرے!
عام انتخابات سے چار چھے ماہ پہلے سیاسی جماعتوں میں الیکٹ ایبلز کی آمدورفت روٹین کی بات ہوتی ہے۔ جو سیاسی جماعت اندر سے جتنی مضبوط ہوتی ہے اس میں ایسی آمدورفت اتنی ہی کم ہوتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے ابھی تک اس اندرونی مضبوطی کا مظاہرہ کیا ہے۔ کبھی پیپلز پارٹی بھی اندر سے ایسی ہی مضبوط سیاسی جماعت تھی لیکن اسٹیبلشمنٹ نے گزشتہ تیس پینتیس برس کی مسلسل ٹھوکا ٹھاکی سے بالآخر اس کو اندر سے اتنا کھوکھلا کردیا ہے کہ اب وہ پہلے جیسی خطرناک جماعت نہیں رہی ہے۔ پیپلز پارٹی انٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت نہیں رہی ہے۔ اس کے ووٹر نے اس سے منہ تو موڑ لیا ہے لیکن بھٹو سے اپنی نسبت نبھانے کے لئے نواز شریف کو جنرل ضیاء کی باقیات تصور کرکے عمران خان کے بلے پہ ٹھپا لگانے کو بے تاب ہے۔ ان کے نزدیک آصف علی زرداری کی محبت سے نواز شریف کی نفرت زیادہ اہم ہے جس کے اظہار کے لئے وہ عمران خان کو جتوانے کے لئے بھی تیار ہیں کیونکہ گزشتہ پانچ برسوں میں جب جب انہوں نے اردگرد دیکھا ہے آصف علی زرداری کہیں نظر نہیں آئے ہیں اور ان کی جگہ عمران خان نواز شریف کے لتے لیتے نظر آئے ہیں۔ اب ان کے لئے آصف علی زرداری کی ہار سے عمران خان کی جیت زیادہ اہم ہے جس کو یقینی بنانے کے لئے وہ ایک ہاری ہوئی جنگ کی آخری بازی بھی جم کر کھیلناچاہتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کبھی انٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت سمجھی جاتی تھی مگر اب اس کی جگہ مسلم لیگ(ن) نے لے لی ہے کیونکہ نوے کی دہائی میں نواز شریف نے ڈکٹیشن نہ لینے کا جملہ بول کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا، تب سے اب تک وہ اس ایک جملے کی کمائی کھا رہے ہیں مگر مصیبت یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کو بھی تیس سال ہونے کو ہیں اور پاکستان میں کوئی بھی مقبول سیاسی جماعت تیس پینتیس برس سے زیادہ اپنی مقبولیت قائم نہیں رکھ سکی ہے یا پھر یوں کہئے کہ ہمارے ہاں اسٹیٹس کو کی فورسز اس سے زیادہ کی اجازت نہیں دیتی ہیں۔
سیاسی جماعتوں میں جاری ری سٹرکچرنگ اور انجنیئرنگ کی وجہ سے ملک کا سیاسی ماحول ابتر نظر آرہا ہے، ان جماعتوں کے رویے اور ان کے اندر موجود الیکٹ ایبلز کی پالیٹکس عوام کو پریشان کئے ہوئے ہے۔ لیکن ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو عام انتخابات کے قریب سیاسی جماعتوں میں ایسی پیش رفت ایک فطری عمل ہوتا ہے۔ عام انتخابات کے قریب قریب اسٹیبلشمنٹ بھی ایکٹو ہوجاتی ہے اور ایک ایسے انتخابی نتیجے کے لئے سرگرم ہوتی ہے جو اس کی رٹ کے لئے چیلنج نہ بن سکے ویسے اس کاوش کو پری پول رگنگ گرداننا بھی بالکل درست ہے۔
اگر صورت حال میں کوئی انہونی نہ ہوئی تو امکان ہے کہ مارچ سے پہلے پہلے سیاسی جماعتوں میں اڑنے والی گرد بیٹھ جائے گی اور ایک نئی امکانی صورت حال اظہر من الشمس ہوچکی ہوگی۔ تشویش کا عنصر تو تب بڑھے گا اگر مارچ کا مہینہ لانگ مارچ میں بدل گیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور دیگر اہم سیاسی جماعتیں اندرونی طور پر کس قدر مضبوط ہیں، جو جماعت اندرونی طور پر جنتی کمزور ہوگی وہ اسٹیبلشمنٹ کی چیرہ دستی کی اتنی ہی بڑی شکار ہوگی۔ جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے تو اس جماعت کو جس قدر جلد ہو اس تاثر کو زائل کرنا چاہئے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہوکر اقتدار میں آرہی ہے کیونکہ وہ میرا ڈاکو اچھا ہے، تیرا ڈاکو گندا ہے کی آڑ میں عوامی ہمدردی سمیٹنے سے قاصر رہے گی۔
مسلم لیگ(ن) عوام کو باور کروا رہی ہے کہ وہ ان کے حق حاکمیت کی بالادستی کی لڑائی لڑ رہی ہے اور جب تک یہ لڑائی شروع نہیں ہوئی تھی وہ ترقی کے ایجنڈنے پر عمل پیرا تھی۔ تاہم پانامہ سے شروع ہونے والی بدنامی نے مسلم لیگ(ن) کے اس فلسفے پر سوالیہ نشان کھڑے کردیئے ہیں اور لوگ برملا کہتے پائے جاتے ہیں کہ نواز شریف اپنی کرپشن عوام کے حق حاکمیت کی بالادستی کے نعرے میں لپیٹ کر پیش کر رہے ہیں۔ یہ تاثر آنے والے دنوں میں جتنا گہرا ہوگا مسلم لیگ(ن) اتنی ہی غیر مقبول ہوتی جائے گی۔ اس تاثر کو توڑنے کے لئے ہی مسلم لیگ(ن) نے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اپنے امیج کو اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سے لاحق خطرات کا پیشگی تدارک کیا جائے، عوام کو یقین دلا سکے کہ نواز شریف کو پانامہ نہیں اقامہ پر نکالا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نواز شریف کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ پر تنقید عوام میں پذیرائی پا رہی ہے کیونکہ وہ آصف علی زرداری کی طرح اسی طرح ڈس کریڈٹ نہیں ہوئے ہیں جس طرح بے نظیر بھٹو نہیں ہوئی تھیں، تب لوگ زرداری کے خلاف تھے اب عمران خان کے خلاف ہیں۔