پنجاب سے سینٹ کی دونشستیں اور اب؟

پنجاب سے سینٹ کی دونشستیں اور اب؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مسلم لیگ (ن) کی سینٹ میں دو نشستیں اب کم ہوگئی ہیں جو پنجاب سے سینیٹر ہارون اختر اور سعدیہ عباسی کی نااہلیت کے باعث خالی ہوئی تھیں، ان دونشستوں کے لئے پنجاب میں براہ راست زبردست مقابلہ ہوا اور چشم فلک نے سیاست کے پرانے رنگ نئے انداز میں نئے پاکستان میں دیکھے، تحریک انصاف کے امیدوار ولید اقبال اور جہانگیر ترین کی ہمشیرہ سیمی ایزوی کامیاب ہوگئیں اور ان کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کے سعود مجید اور سائرہ افضل تارڑ ہار گئیں، یوں سینٹ میں برسر اقتدار جماعت کو مزید دو سینیٹر مل تو گئے تاہم اپوزیشن ہی کو برتری حاصل ہے، تاہم پارلیمانی نظام کی وجہ سے یہ سلسلہ چل رہا ہے کیونکہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کو انتخابات میں اگرچہ مسلم لیگ کی حمائت حاصل نہیں تھی اور وہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے مشترکہ امیدوار تھے، تب ان کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کھڑی تھی، اب صورت حال مختلف ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دونوں حزب اختلاف کا جزو ہیں اور سینٹ میں ڈپٹی چیئرمین کا تعلق بھی پیپلز پارٹی سے ہے، حالات حاضرہ میں اب ان دونوں جماعتوں کے درمیان متحدہ حزب اختلاف کے پلیٹ فارم پر اتفاق ہے، پنجاب میں سابقہ انتخابات کے موقع پر پیپلز پارٹی غیر جانبدار رہی اور قائد ایوان کے انتخاب میں بھی ووٹ نہیں ڈالے تھے، تاہم اس مرتبہ اس پارٹی کے سات ووٹ اعلانیہ طور پر مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو دیئے گئے۔دوسری طرف پولنگ سے قبل برسراقتدار اتحاد کو بڑے امتحان سے گزرنا پڑا چودھری برادران نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور گلے شکوؤں کی وڈیو وائرل ہونے کے بعد ہارجیت کے توازن کی پوزیشن میں آگئے، یوں بھی سپیکر کے انتخاب کے وقت چودھری پرویز الہٰی کو قائد ایوان سے بھی بارہ ووٹ زیادہ ملے تھے اور تب سے توازن ان کی طرف شمار کیا جاتا رہا اور اب ثابت بھی ہوگیا ہے۔پولنگ سے قبل واضح طور پر گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اور وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، وزیر اعظم عمران خان نے تینوں فریقوں(محمد سرور، عثمان بزدار،پرویز الہٰی) کو مل کر چلنے پر آمادہ کیا، گورنر سرور جو برطانوی پارلیمنٹ کے حوالے سے منجھے ہوئے پارلیمنٹیرین ہیں صورت حال کے مطابق ڈھل گئے اور دونوں نے مل کر پارلیمانی پارٹی کو اعتماد میں لیا یوں تینوں کا اعتماد کامیابی کی دلیل بنا۔جیت سے بڑی کوئی شے نہیں، تاہم اب یہ گنتی ہوگئی ہے کہ تحریک انصاف کو190 نہیں، 184 ووٹ ملے اور یوں ووٹ کم ہوئے، جبکہ 9اور 7ووٹ منسوخ بھی ہوئے اس لئے باغی گروپ کا تاثر تو موجود ہے اور پس پردہ کہا جارہا ہے کہ جنوبی پنجاب کے اس گروپ کو چودھری پرویز الہٰی نے سنبھالا ہوا ہے۔پارلیمانی جمہوریت میں اقتدار کا کھیل بندوں کو گنا کرتے ہیں کے اصول پر چلتا ہے اور جوڑ توڑ بھی ہوتے ہیں، اب برسراقتدار جماعت تحریک انصاف بلکہ خود چیئرمین پارٹی اور وزیر اعظم عمران خان کو چوکس رہنا ہوگا کہ اس کھیل میں حالات ایسے رہیں کہ جمہوریت مضبوط ہو، ابھی تک پارلیمنٹ کی بالادستی، سیاسی استحکام اور جمہوریت کی مضبوطی کا تاثر نہیں بن پا رہا جو ملک کے لئے لازم ہے کہ معاشی اوراقتصادی ترقی کے علاوہ بیرونی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی یہی امور لازم ہیں، وزیر اعظم عمران خان کو خود یہ سب دیکھناہوگا اور خلفشار کوختم یا کم کرنے کے لئے کردار ادا کرنا ہوگا۔

مزید :

رائے -اداریہ -