عظیم لیڈر بننے کے لیے عمران خان کی جانب سے لیے جانیوالے یوٹرنز کی فہرست سامنے آگئی 

عظیم لیڈر بننے کے لیے عمران خان کی جانب سے لیے جانیوالے یوٹرنز کی فہرست سامنے ...
عظیم لیڈر بننے کے لیے عمران خان کی جانب سے لیے جانیوالے یوٹرنز کی فہرست سامنے آگئی 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد  (ڈیلی پاکستان آن لائن) گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے  میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جو لیڈر حالات کے مطابق یوٹرن نہ لے وہ لیڈر ہی نہیں ہوتا، کیونکہ ہٹلر اور نپولین نے یوٹرن نہ لے کر بڑی شکست کھائی،وزیراعظم نے اپنے کرکٹ کے دور کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہم ایک حکمت عملی بنا کر میدان میں اترتے تھے اگر اس کے خلاف ہماری مخالف ٹیم کوئی اور حکمت عملی بنالیتی تھی تو ہمیں ایک دم اپنی حکمت عملی بدلنا پڑتی ،جب ہم جارہے ہوں اور سامنے دیوار ہو تو آپ کو ادھر اُدھر راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ جو لیڈر حالات کے مطابق یوٹرن نہ لے وہ لیڈر ہی نہیں ہوتا، جو یوٹرن لینا نہیں جانتا اس سے بڑا کوئی بے وقوف نہیں ہوتا۔

ایسے میں جیو نیوز عمران خان کے یوٹرنز کی فہرست سامنے لے آیا ہے اور شاہزیب خانزادہ نے اپنے پروگرام میں گفتگو کرتے بتایا کہ 30اکتوبر کو سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو رہا کرنے کا حکم دیا، اس فیصلے کے خلاف احتجاج شروع ہوا، جس کے بعد وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں سخت پیغام دیا، عمران خان نے کہا کہ ریاست کی رٹ پر کو ئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔وزیراعظم کے اس بیان کو میڈیا،وزیراطلاعات فواد چوہدری  اور شیری مزاری نے بہت سنجیدہ لیا۔مگر وزیراعظم کے بیان کے دو دن بعد ہی حکومت نے احتجاج کرنے والوں کے ساتھ معاہدہ کرلیا۔ 
وزیراعظم عمران خان نے غیر ملکی قرضہ خاص طور پر آئی ایم ایف کے پاس جانے کے حوالے سے یوٹرن لیا۔ ماضی میں اقتدار میں آنے سے پہلے وزیراعظم عمران خان غیر ملکی قرضہ لینے کے حوالے سےکہہ چکے ہیں کہ  ’’یہ کبھی امید نہ کرنا کہ عمران خان آپ کا پرائم منسٹر ہو اور بھاگتا پھرے دنیا میں پیسے مانگتے ہوئے ، میں خود کشی کرلوں گا ،عمران خان مرجائے گا کبھی پیسے نہیں مانگے گا۔ سچ میں نے اپنے والد سے بھی کبھی پیسے نہیں مانگے،ہم نے کبھی نہ امریکہ، نہ آئی ایم ایف کسی سے بھکاریوں کی طرح قرضے نہیں لینے، ایڈ نہیں لینی‘‘۔
عمران خان کی ان باتوں کو سنجیدہ لیتے ہوئے پارٹی کے رہنما دعوے کرنے لگے کہ جیسے خان صاحب حکومت میں آئیں گے 200 ارب ڈالر ملک میں آئیں گے، 100 ارب ڈالر ادھار واپس کریں گے ، 100 ارب ڈالر پاکستان کی عوام پر لگائیں گے۔ مگر پھر عمران خان اقتدار میں آئے اور موقف بدلتے ہوئے کہاکہ ’’ جو قرضہ دیتا ہے، وہ آپ کی آزادی لے جاتا ہے،  آپ کو کتنا برا لگے گا، مجھے کتنا برا لگے گا کہ میں باہر جاکر لوگوں سے پیسے مانگوں، کبھی کسی ملک جارہا ہوں، کبھی کسی ملک جارہا ہوں،پھر اچانک حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ کرلیا، اس وقت  آئی ایم ایف کا وفد پاکستان میں ہے۔ اس کے علاوہ جب سعودی عرب سے امداد مل گئی تو وزیراعظم عمران خان نے اسے بڑی کامیابی قرار دیا۔ پھر چین گئے اور واپسی پر دعوے کئے کہ دورہ چین بہت کامیاب رہا وہاں سے امداد مل گئی۔
رپورٹ کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ کے حوالے سے بھی بڑا یوٹرن لیا۔ اقتدار میں آنے سے پہلے وزیراعظم عمران خان نے واضح کیا تھا کہ ان کی کابینہ 20اراکین سے زیادہ نہیں ہوگی  مگر اقتدار میں آنے کے بعد اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کابینہ میں وفاقی وزراءکی تعداد 24 ہے۔ 6وزرا مملکت، 4مشیر، 5معاون خصوصی ہیں یعنی 39 رکنی کابینہ ہے۔
اس کے علاوہ حکومت میں آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے فیصلہ کیا کہ عاطف میاں حکومت کی اکنامک ایڈوائزری کاﺅنسل میں شامل ہوں گے، فواد چوہدری نے پھر عمران خان صاحب کو بہت زیادہ سنجیدہ لے لیا کہ فیصلہ خان صاحب کا ہے تو وہ اپنے فیصلے پر قائم بھی رہیں گے ، اس لئے فواد چوہدری صاحب لیڈ کرتے رہے، فیصلے کا دفاع کرتے رہے اور یہاں تک کہہ دیا کہ جو لوگ اعتراض کررہے ہیں وہ بنیادی طور پر ایکسٹریمسٹ اور ہم نے ایکسٹریمسٹوں کے سامنے بالکل نہیں جھکنا اور انشاءاللہ تعالیٰ پاکستان میں جو اقلیتیں ہیں ان کی حفاظت یقینی بنانا ہماری ذمہ داری ہے  مگر پھر حکومت دباﺅ میں آگئی۔ 7 ستمبر کو وزیراعظم نے یوٹرن لے لیا، عاطف میاں کی نامزدگی واپس لے لی گئی۔
یہ بھی بات قابل ذکر ہے کہ عمران خان ماضی میں شیخ رشید احمد کے حوالے سے مختلف رائے رکھتے تھے، اب ان کی رائے مختلف ہے ۔ وزیراعظم عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے شیخ رشید کے بارے میں کہا کہ اللہ انہیں شیخ رشید جیسا سیاست دان نہ بنائےاور کہاکہ ’’ ہم الیکشن لڑیں نواز شریف کے نام لے کر اور اس کے بعد لوٹا ہوکر دوسری طرف چلے جائیں، ایسی حرکت نہیں تھی۔ شیخ صاحب آپ کامیاب سیاستدان ہیں نا۔ میں ٹی وی پر کہتا ہوں کہ اللہ مجھے شیخ رشید جیسا کامیاب سیاستدان کبھی نہ کرے، اس سے بہتر ہے میں فیل ہی رہوں ہمیشہ، یہ کامیابی ہے کہ پہلے آپ نواز کے ووٹ اکٹھے کرتے ہیں اور لوٹا ہوکر ادھر چلے جاتے ہیں‘‘۔ مگر اب یہی شیخ رشید وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کا حصہ ہیں اور وزیر ریلوے ہیں۔
اسی طرح اقتدار میں آنے سے پہلے وزیراعظم عمران خان کی چوہدری پرویز الہٰی کے حوالے سے رائے ٹھیک نہیں تھی ، عمران خان پرویز الہٰی کو ڈاکو قرار دیتے تھے۔مگر اب وزیراعظم عمران خان نے پرویز الہٰی کی جماعت کے ساتھ مل کر الیکشن لڑا، ق لیگ کی پنجاب میں تحریک انصاف کی اتحادی ہے۔ پرویز الہٰی کو وزیراعظم عمران خان نے سپیکر پنجاب اسمبلی بنادیا ہے۔
 انتخابی مہم کے دوران تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آزاد امیدواروں کے حوالے سے بہت سے دعوے کئےاور اعلان کیاتھاکہ  آزاد امیدواروں کو پارٹی میں کوئی گنجائش نہیں ملے گی، آزاد امیدواروں کو ووٹ نہ دینے کی کارکنان کو ہدایت کرتے ہوئے ان کا کہناتھاکہ  تحریک انصاف میں آنے کی کوشش نہ کرنا آپ کی جگہ نہیں ہوگی تحریک انصاف میں، اگر آپ جیت بھی گئے لیکن  پنجاب میں حکومت بنانے کے لئے آزاد امیدواروں کی ضرورت پڑی ، رابطے کئے گئے، بڑی تعداد میں آزاد امیدواروں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی بلکہ انتخابات کے بعد ن لیگ پنجاب کی بڑی جماعت تھی مگر آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد تحریک انصاف بڑی جماعت بن گئی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ زیادہ تر وزارتیں بھی آزاد امیدواروں کو دی گئیں۔ 
اقتدار میں آنے سے پہلے وزیراعظم عمران خان پنجاب حکومت کی میٹرو بس منصوبوں پر تنقید کرتے رہےاور کہاکہ میٹرو پر نہیں، انسانوں پر پیسہ خرچ کرنا ہے، یہ تک کہتے رہے کہ اگر خیبرپختونخوا میں میٹرو بس بنائی تو میں خود جاکر احتجاج کروں گا مگر پھر بعد میں میٹرو بس بنی، خیبرپختونخوا کے میٹرو کے بارے میں عمران خان نے بتایا کہ ان کی میٹرو پنجاب حکومت کی میٹروبس سے مختلف ہے۔رپورٹ کے مطابقاب حال یہ ہے کہ پشاور میٹرو ابھی تک نہ تو بن سکی ہے اس کا خرچہ بھی سب سے زیادہ ہے، سڑسٹھ ارب کی لاگت سے زیادہ ہوچکا ہے اور بار بار کی ڈیڈ لائنز وہ میٹ نہیں کرسکی اور اب تک چل نہیں سکی۔
شاہزیب خانزادہ کے مطابق اسی طرح عمران خان نے جہانگیر ترین کی نااہلی کے حوالے سے موقف میں بدلتے رہے، جہانگیر ترین کی نااہلی سے پہلے انہوں نے کہا کہ نااہلی جس کی بھی ہوئی وہ گھر جائے گا۔پھر جب سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد جہانگیر ترین نااہل ہوگئے تو عمران خان نے کہا کہ جہانگیر ترین کو ٹیکنیکل گراﺅنڈ پر نکالا گیا۔ اسی طریقے سے انسائیڈڈ ٹریننگ کا جو معاملہ تھا اس کا دفاع کرتے رہے، پھر ریویو پٹیشن کا انتظار تحریک انصاف کرتی رہی اس میں بھی نااہل ہوگئے تو اب بھی جہانگیر ترین پارٹی کے اجلاسوں میں جاتے ہیں۔
اسی طرح ماضی میں عمران خان نے دھرنے کے دنوں میں پارلیمنٹ کو بھی جعلی قرار دیا اور کہا کہ وہ اس جعلی پارلیمنٹ کا حصہ نہیں بن سکتے۔مگر بعد میں عمران خان اور پوری تحریک انصاف پارلیمنٹ کا دوبارہ حصہ بن گئی۔ جب پارلیمنٹ میں آئے اس وقت کے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے کہا کہ ’’آٹھ مہینے کنٹینر پر گالیاں دیتے رہے ہو اور پھر آکر بیٹھے ہو۔ خدا کا خوف کرو کوئی اخلاقیات بھی ہوتی ہے، کوئی ایتھکس ہوتی ہے، کوئی شرم بھی ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کی شکلیں کیوں دیکھتے ہو ، کوئی شرم کرو‘۔
وزیراعظم عمران خان کا آئین کے آرٹیکل 62,63کے حوالے سے بھی موقف تبدیل ہوا ۔ ماضی میں آرٹیکل 62,63 کا معاملہ خود عمران خان صاحب کے حوالے سے آیا تو اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ ’’ آٹیکل 62,63 امپلیمنٹ ایبل نہیں ہے، یا تو آپ فرشتے بٹھا دیں اسمبلی میں تو وہ شاید ہوجائیں، انسانوں کے اوپر وہ امپلیمنٹ نہیں ہوتی۔ پھر جب یہی آرٹیکل 62,63 نواز شریف پر لگنے کی بات آئی تو کیسے موقف بدلا اور کہاکہ ’’ آرٹیکل 62,63 بنیادی چیز ہے لیڈر شپ کے اندر صادق اور امین، ایک لیڈر کے لئے یہ بنیادی ضروریات ہیں۔الیکشن 2013ءمیں دھاندلی کا الزام لگایا، عمران خان صاحب نے 35پنکچر کی بات کی بعد میں ان 35پنکچرز کو بھی سیاسی بیان قرار دے دیا۔