’’یوٹرن ویژن ‘‘

Nov 17, 2018 | 04:38 PM

شاہد نذیر چودھری

وزیر اعظم عمران خان کے ’’یوٹرن ویژن ‘‘ نے زیادہ تر سیاستدانوں اور دانشوروں کو گھما کر رکھ دیا ہے۔بہت سے عوامی طبقے بھی حیران وپریشان ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان اگر اپنے فیصلوں اور بیانوں پر یوٹرن لیتے رہے تو ان سے کئے ہوئے وعدوں کا کیا ہوگا ؟ اگر تو ان کے یوٹرن سے قومی مقاصد پورے ہوتے اور اسکے ثمرات سے ملک و قوم بہرہ مند ہوتی ہے تو قوم کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوگی کہ وزیر اعظم عمران خان بار بار یوٹرن کیوں لیتے ہیں ۔اسکے برعکس عوام کی توقعات پوری نہیں ہوتیں تو ان کے بارے میں انکے چاہنے والوں کے بھی خیالات بدل جائیں گے ۔ 
تازہ بیانئے کی روشنی میں وزیر اعظم عمران خان نے ثابت کردیا ہے کہ وہ تاریخ کے دو بڑے جرنیلوں اور حکمرانوں نپولین اور ہٹلر سے زیادہ زیرک اور قوم پرست واقع ہوئے ہیں کیونکہ ان میں بے مثال لچک ہے جو انہیں فیصلوں کو نظر ثانی کرنے کے بعد انہیں بدلنے کی جرات وہمت دیتی ہے ۔وہ اڑیل نہیں ہیں نہ وہ ذاتی مفاد و انتقام پر یقین رکھتے ہیں ،انکی اوّلین ترجیح ملک و قوم کے لئے بہتر اقدامات ا ٹھانا ہے جس کے لئے انہیں ایک سے زیادہ بار بھی فیصلے بدلنا پڑیں تو وہ بدلیں گے ۔اگر کوئی یوٹرن پالیسی پر کوئی ان کا مذاق اڑاتا ہے تو انہیں اسکی پرواہ نہیں ہے۔
اس سے زیادہ کسی لیڈر کی کوالٹی اور کیا ہونی چاہئے کہ وہ قومی مفادات کے لئے نظر ثانی پر یقین وجرات رکھتا ہو مگر وزیر اعظم عمران خان کا یہ رویہ اپوزیشن اور معاندانہ سوچ رکھنے و الے دانشوروں اور میڈیاپرسنز کی نظر میں غیر مستقل مزاجی سے زیادہ کچھ نہیں ۔ان کی متلون مزاجی کی بنا پر انہیں یوٹرن خان کہا جاتا ہے ۔انکی یوٹرن پالیسی اور وژن کو غیر دانشمندی اور ناتجربہ کاری قرار دیا جاتا ہے ۔لیکن وزیر اعظم عمران خان کو اسکی مطلق پراہ نہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ نپولین اور ہٹلر کی طرح احمق نہیں کہ جو یوٹرن نہ لے سکے اور اپنی قوم اور ملک کو تباہ کردیا ۔گویا وزیر اعظم عمران خان ذات سے بالا تر ہوکر قومی مفادات کی بات کرتے ہیں اور یہی مقصد انکی پالیسیوں کا محور ہے ۔وہ حالات کے تغیرات کا جائزہ لیکر یوٹرن لیتے ہیں ۔ تاہم ان کے بدلتے فیصلوں کو دیکھ کر اہل فکر کہتے ہیں کہ ملکی و غیر ملکی فنانسرز اور اتحادی بھی پریشان ہو نا شروع ہورہے ہیں کہ جس وزیر اعظم کی کوئی’’ زبان ‘‘ نہیں وہ وفا و ایفا کے تقاضے کیسے پورے کرے گا ؟یہ بہر حال ایسا خدشہ ہے جس کی بنا پر وزیر اعظم عمران خان کے خلاف رائے عامہ ہموار کی جارہی ہے کہ داخلی اور خارجی معاملات میں وعدوں کی پاسداری کا عمل پورا نہ کئے جانے پر ملک کی عزت اور ساکھ داو پر لگ سکتی ہے ۔لیڈر کا اپنے وعدوں کی پاسداری کرنا سب سے اہم کام ہوتا ہے البتہ جہاں تک فیصلوں میں لچک کا سوال ہے ،ان کی اپنی اہمیت ہوتی ہے ۔وزیر اعظم عمران خان سے پہلے بھی کئی حکمرانوں نے قومی اور بین القوامی سطح کے کئی فیصلوں پر لچک دکھائی اور قومی مفادات کے تحت اس امر کو مجبوری قرار دیا کہ ’’سب سے پاکستان‘‘ کا نظریہ ہے پھر کوئی دوسری بات ۔
وزیر اعظم عمران خان پر ان کے یوٹرن وژن پر جو تنقید کی جارہی ہے اسکو بے اعتباری کا نام دیا جارہا ہے خاص طور پر اس تناظر میں کہ قوم انہیں سچااور کھرا لیڈر سمجھتی ہے ،انہیں دیانت دار سمجھا جاتا ہے لیکن اقتدار میں آنے سے پہلے انہوں نے قوم سے جو وعدے کئے ،اپنے ووٹرز کو یقین دلایا تھا ،ا سمیں سے زیادہ تر وعدوں پر وہ یوٹرن لے چکے ہیں ۔مثال کے طور پر آج ان کے ساتھ کھڑے سنگل پارٹی اتحادی شیخ رشید کے بارے میں وہ کہا کرتے تھے کہ وہ انہیں چپڑاسی کے طور پر بھی قبول نہیں ہوں گے مگر آج وہ ان کے قابل بھروسہ ساتھی ہیں ۔ق لیگ کے قائدین چودھری برادران کو وہ پنجاب کا ڈاکو چور کہتے رہے لیکن ان کی مدد سے پنجاب اور قومی اسمبلی میں حکومت بنانے پر مجبور ہوئے اوراب وہ ان کے سرکا تاج ہیں ۔وزیر اعظم عمران خان یہ بھی کہا کرتے تھے کہ وہ کسی لوٹے کو اپنی جماعت میں نہیں لیں گے نہ ٹکٹ دیں گے ،نہ وزیر بنائیں گے ۔مگر انتخابات میں انہیں الیکٹیبلز چاہئے تھے لہذا انہوں نے یوٹرن لیا اور ایسے لوٹوں کو ٹکٹ دے دئے جن کے کاندھوں پر انکی حکومت کھڑی ہے ۔کسی دور میں وہ میاں نواز شریف ،جنرل مشرف کو اپنا مہربان کہتے تھے مگر اب وہ ان کے سخت خلاف ہیں ۔آصف زرداری کے خلاف انہوں نے ہر طرح کی زبان استعمال کرلی ہے مگر ابھی تک وہ ان کے ساتھ بیٹھنے کا سوچنا بھی گناہ سمجھ رہے ہیں ۔گویا ابھی انہیں ایسی ضرورت نہیں پڑی کہ وہ آصف زرداری کو گلے لگا کر یوٹرن لینے پر مجبورہوں ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یوٹرن پالیسی بہت اچھا اقدام ہے اور زیادہ تر فیصلوں اور وعدوں کو پورا کرنے کی بجائے ان پر یوٹرن لینا جائز عمل ہے تو پھر کسی دوسرے سیاستدان کا یہی عمل ناگوار کیوں سمجھا جاتا ہے ۔اگر آج ان کے ساتھی اور حواری بوجوہ یوٹرن لیتے ہیں تو کیا انہیں یہ صائب عمل دکھائی دے گا ،وہ اس پریہ کہتے ہوئے تو برسیں گے نہیں کہ ضمیر اور زبان بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔بلاشبہ لیڈر باضمیر اور زبان کا پکا ہوتو قوم اور ملک ترقی کرتی ہے ،اے کاش کہ وزیر اعظم عمران خان کا ’’یوٹرن وژن‘‘ بھی ضمیر اور ترقی کی ضمانت بن جائے ۔

۔

یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

مزیدخبریں