سندھ پولیس کے سپاہی کا جذباتی کارنامہ
تبسم بیگم کراچی کے ہسپتال میں کام کرتی تھی،۔ وہیں اس کی ملاقات رفیق ملک نامی ایک بندے سے ہوئی جو خود کو سرکاری افسر ظاہر کر کے وارداتیں کرنے کا عادی تھا۔اس نے تبسم بیگم کو بھی کشمور میں نوکری کی پیشکش کی۔کام بس اتنا تھا کہ ایک ادارے میں آنے والی عورتوں کے پرس چیک کرنے تھے، جبکہ اس معمولی کام کی تنخواہ چالیس ہزار روپے ماہانہ تھی۔تبسم بیگم اس جھانسے میں آ کر اپنی چار سالہ بیٹی کے ہمراہ کشمور جا پہنچی، جہاں پہلے سے رفیق کے کچھ اور دوست بھی موجود تھے۔ وہ اسے اغوا کر کے ایک قریبی گاؤں لے گئے اور ایک گھر میں قید کر لیا، جہاں ہر روز اس کی عزت پامال ہوتی رہی۔جب ان کا دل بھر گیا تو انہوں نے اسے اس شرط پرچھوڑ دیا کہ وہ ان کے لیے شہر سے کوئی اور لڑکی پھنسا کر لائے گی۔حفظ ِ ماتقدم کے طور انہوں نے تبسم بیگم کی چارسالہ بیٹی کو بطور ضمانت اپنے پاس رکھ لیا۔تبسم بیگم بجائے کسی لڑکی کا انتظام کرنے کے، سیدھی تھانے جا پہنچی۔ہیڈ محرر نے اسے محمد بخش کے پاس بھیج دیا۔تبسم بیگم کے پاس ملزمان کا دیا ہوا ایک ہی نمبر تھا جو اس وقت بند جا رہا تھا۔محمد بخش نے اسے دو بجے کے بعد تھانے آنے کا کہا اور خود گشت پر شہر نکل گیا۔تبسم بیگم نے قریب کی مسجد میں کچھ دیر سونا چاہا، لیکن مسجد انتظا میہ نے اس کی اجازت نہ دی۔ وہ پاس ہی موجود ایک مدرسے میں بھی گئی، لیکن اسے یہ کہہ کر بھگا دیاگیا کہ یہ پولیس کیس ہے۔وہ دوبارہ تھانے آئی، جہاں سے اسے محمد بخش کے گھر بھجوا دیا گیا۔لیڈیز پولیس نہ ہونے کی وجہ سے اسے تقریباً دس دن وہیں رہنا پڑا۔
محمد بخش کی اہلیہ خود ایک ماں تھی اور اس ماں کا درد بہت اچھی طرح محسوس کر رہی تھی جس کی چار سالہ بچی درندہ صفت لوگوں کی قید میں تھی۔ ملزمان سے رابطہ ہوا تو انہوں نے تبسم بیگم سے کہا کہ جلد از جلد کوئی لڑکی ڈھونڈ کر لاؤ، ورنہ تمہاری بیٹی قتل کر دی جائے گی۔اس نے انہیں یقین دلایا کہ لڑکی کا انتظام ہو گیا ہے، ثبوت کے طور پر محمد بخش کی اہلیہ کی ان سے بات کرائی۔وہ کئی دن تک ان سے بات کرتی رہی۔ اس دوران محمد بخش انہیں کسی طرح گھیرنے کے منصوبے بناتا رہا جو مجرمان کی چالاکی وجہ سے ناکام ہوتے رہے۔ان کا اصرار تھا کہ تبسم بیگم لڑکی لے کر کشمور آئے۔ محمد بخش کی اہلیہ دل کی مریضہ تھی اور اس کے لئے اتنی دور جانا اور وہ بھی اتنے تناؤ میں جان لیوا ثابت ہو سکتا تھا،لیکن یہ مسئلہ اس وقت حل ہو گیا، جب محمد بخش کی بیٹی نے تبسم بیگم کے ساتھ جانے کی حامی بھرلی۔
تبسم بیگم، محمد بخش کی بچی کے ساتھ کشمور کے ایک ہوٹل میں پہنچی، لیکن مجرموں نے احتیاط کے پیش نظر اسے سٹی پارک آنے کو کہا۔ وہ وہاں سے سٹی پارک پہنچیں۔مجرم بھی وہاں آیا، ان سے بات چیت کی اور جب شک ہونے پر بھاگنے لگا تو محمد بخش کی بیٹی نے اسے پکڑ لیا،سول کپڑوں میں ملبوس پہلے سے موجود پولیس کے جوان بھی ان کی مدد کو آئے، یوں مجرم گرفتار ہو گیا۔مجرم کی نشاندہی پر محمد بخش نے ان کے ”اڈے“ پر چھاپا مارا،جہاں سے چار سالہ لڑکی کو نیم بے ہوشی کی حالت میں بازیاب کر لیا گیا۔سندھ حکومت نے محمد بخش کے لیے دس لاکھ روپے انعام، جبکہ اس کی بہادر بیٹی کے لیے تمام تر تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کا اعلان اور قائداعظم میڈل دینے کی سفارش بھی کی ہے……اس واقعہ نے جہاں ایک طرف معاشرے میں پھیلتی ہوئی درندگی کی نشاندہی کی ہے، وہیں یہاں پائے جانے والے بعض ٹرینڈز کی قلعی بھی خوب کھولی ہے۔سر فہرست تو اس تأثر کی نفی کی ہے کہ پولیس، بالخصوص سندھ کی پولیس تو بالکل نکمّی ہے۔پاکستانیوں کے لیے اس واقعہ میں غم و غصے کے علاوہ یہ اہم سبق اور سوال بھی موجود ہیں۔
ہمارے یہاں معاشرتی بلوغت ابھی اتنی کم سطح پر ہے کہ کوئی بھی مجرم سرکاری افسر بن کر کسی تبسم بیگم کو لوٹ سکتا ہے۔ غربت کا عالم یہ ہے کہ چند پیسوں کی خاطر کوئی بھی ماں اپنی چار سالہ بیٹی کے ساتھ کہیں بھی جانے کو تیار ہو جاتی ہے۔ فیس بک اور یو ٹیوب پر موویز دیکھنے کے علاوہ ہم نے انٹرنیٹ کا اتنا استعمال بھی نہیں سیکھا کہ رفیق کے ساتھ جانے سے پہلے کم از کم اس کے ادارے کی ویب سائیٹ دیکھ کر تصدیق ہی کر لیں …… کیا ہمارے یہاں خاندانی نظام اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ کوئی بھی تبسم اپنے کسی بھی رشتہ دار کو یہ بتانا تک پسند نہیں کرتی کہ وہ کیوں اور کہاں جا رہی ہے؟مسجد اگرچہ اللہ کا گھر ہے، لیکن وہاں ہم تبسم کے وجود کو چند گھنٹے برداشت کرنے کی بجائے واپس تھانے بھیج دیتے ہیں،حقوق اللہ کی یاد میں مست نمازی حقوق العباد سے اتنے بے خبر ہیں کہ کوئی بھی تبسّم بیگم کو سہارادینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مدرسہ اگرچہ حق کی صدا کے طور پر جانا جاتا ہے،لیکن ہمارے معاشرے میں اب وہاں نہ تو کسی کو پناہ ملتی ہے اور نہ ہی وہاں کا کوئی فرد کسی دکھیاری عورت کے ساتھ تھانے تک جانے کو تیار ہے۔ہمارے بعض تھانے ابھی تک لیڈیز پولیس کے بغیر ہیں۔ درندگی اتنی بڑھ چکی ہے کہ چارسالہ بچی تک کو نہیں بخشا جاتا،اس کے پیٹ کی آنتیں تک باہر نکال دی جاتی ہیں اور اسے بھی لیپروٹامی سرجری کرانا پڑاتی ہے، اور سب سے اہم یہ ہے کہ پاک پولیس میں بھی ایسے جذباتی جوان موجود ہیں کہ قوم کی بیٹی کے لیے اپنی ہی نہیں، بلکہ اپنی بیٹی کی جان بھی داؤ پر لگانے سے نہیں چوکتے۔