جی بی الیکشن: مضمرات اور امیدیں!
گلگت۔ بلتستان کے الیکشن مکمل ہو چکے۔ پی ٹی آئی کی کامیابی پاکستان کے لئے ایک خوش آئند خبر ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مرکز کی حکومت اس پروویژنل صوبے کو مستقل صوبے کی حیثیت کب دیتی ہے۔ عوام کو بجلی، پانی، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں ماضی کے مقابلے میں اب اور مستقبل میں کیا ملتا ہے۔ وعدوں کا ایفا ہوتا ہے یا ماضی کی طرح زبانی جمع خرچ کرکے 5برس پورے کر لئے جاتے ہیں۔
میری نظر میں اس الیکشن کے چند درچند مضمرات تھے اور ان کی ایک زبردست سٹرٹیجک اہمیت بھی تھی۔ اس کا اجمالی تذکرہ ضروری ہے۔
اس الیکشن کی سٹرٹیجک اہمیت یہ تھی کہ اگر پی ٹی آئی ہار جاتی تو نہ صرف یہ کہ مرکز میں عمران خان کی اہمیت کسی نہ کسی سکیل پر گہنا جاتی بلکہ میاں نوازشریف کے فوج مخالف بیانئے کو بھی تقویت حاصل ہو جاتی اور آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کی وقعت و منزلت میں بھی ڈینٹ پڑ جاتا۔ یہی وجہ تھی کہ اپوزیشن کی دونوں مین سٹریم سیاسی پارٹیوں نے انتخابی مہم کے دوران ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ اس الیکشن میں پی ٹی آئی کامیاب نہ ہو۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس ’زور‘ میں دلائل و براہین کا وزن بہت کم تھا۔ ماضی میں اپوزیشن کی دونوں سیاسی پارٹیوں کو متعدد بار مواقع ملے لیکن موجودہ گلگت بلتستان اور ماضی کے شمالی علاقہ جات کی تقدیر وہی رہی کہ جو تھی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اپنے اپنے ادوار میں یہ دونوں پارٹیاں گلگت اور سکردو کے علاوہ دوسرے شہروں کی ڈویلپ منٹ میں بھی اسی شد و مد سے کام لیتیں جیسے لاہور، اسلام آباد، ملتان،فیصل آباد، کوئٹہ، پشاور، کراچی اور پاکستان کے باقی چاروں صوبوں کے بڑے بڑے شہروں میں لیا گیا تھا لیکن افسوس کہ اس علاقے کی اَپ لفٹ میں کوئی کوشش نہ کی گئی۔ آج اسلام آباد میں بھلے عمران خان کی حکومت تھی اگر چین نے 6برس قبل سی پیک کا آغاز نہ کیا ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ آج کے الیکشن بھی گزشتہ الیکشنوں کی طرح ’گمنام‘ ہوتے۔کوئی مریم نواز یہاں قدم رنجہ نہ فرماتی، کوئی بلاول زرداری یہاں تشریف نہ لاتا اور کوئی گنڈا پور اِدھر کا رخ نہ کرتا۔
آپ کو یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ سی پیک کا اعلان کرکے چین نے پاکستان کے دشمنوں کی شدتِ مخاصمت میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ پاکستان نے چین کا ساتھ دے کر ساری دنیا کی دشمنی مول لے لی۔ کہا جا سکتا ہے کہ سی پیک سے پہلے پاکستان کے لئے چین کی سپورٹ ٹیکٹیکل حجم کی حامل تھی لیکن اعلانِ سی پیک کے بعد یہ سائز سٹرٹیجک مقدار اور معیار کا حامل ہو گیا!
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ انفرمیشن ٹیکنالوجی نے شمالی علاقہ جات کو بہت تیزی سے متاثر کیا۔ اطلاعات و معلومات کے اس ’وبائی دور‘ سے پہلے یہاں کے عوام کی حالت وہی تھی جو ماؤزے تنگ سے پہلے چینیوں کی تھی۔ یہاں کی پبلک جو صدیوں سے ان علاقوں میں رہ رہی تھی لیکن سیاسی اعتبار سے محوِ خواب تھی وہ انفرمیشن ٹیکنالوجی کی بھنک پا کر یکایک جاگ اٹھی اور حضرتِ اقبالؒ نے چینی عوام کے لئے ایک صدی پہلے جو کچھ کہا تھا وہ گلگت بلتستان کی پبلک پر بھی عین مین صادق آ گیا اور ان کا ساقی نامے والا ایک شعر اس صورت میں ڈھل گیا:
گراں خواب گلگت سنبھلنے لگا
ہمالہ کا چشمہ ابلنے لگا
میں 15نومبر کو انتخابی حلقوں میں مرد و زن کی قطاروں کو دیکھ کر اپنی ان 20،25سال پرانی یادوں کو تازہ کر رہا تھا کہ جب اس قسم کے منظم اجتماعات کا تصور تک محال تھا۔ یہ درست ہے کہ 24حلقوں میں سے صرف ایک آدھ خاتون امیدوار کھڑی تھی (اور اس کی جیت کے امکانات بھی تقریباً معدوم تھے) لیکن جس کثرت اور والہانہ جوش و خروش سے خواتین نے اس الیکشن میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا، وہ ایک حیران کن حقیقت ہے۔ ساڑھے سات لاکھ ووٹروں میں نصف تعداد (47%) خواتین کی تھی۔ جن ٹی وی اینکرز نے یہ الیکشن کور(Cover) کئے وہ قابلِ صد تحسین ہیں۔ شینا، بلتی اور بروشسکی ان علاقوں کی تین بڑی زبانیں ہیں لیکن جس روانی اور برجستگی سے یہاں کے لوگ اردو میں گفتگو کرتے دیکھے گئے اس کے لئے ہمارے یہ بھائی بہن اور بیٹے بیٹیاں مبارک باد کی مستحق ہیں۔ آپ نے شاید یہ بات نوٹ کی یا نہیں کہ یہاں کی خواتین میں سے بہت کم ایسی ہوں گی جن کو انڈرویٹ یا نحیف یا لاغر کہا جا سکتا ہے۔ ماشاء اللہ سب کی سب تنومند اور جسیم تھیں۔
یہ ’جسامت“ ان کی سماجی مجبوری بھی ہے کیونکہ گھر گرہستی کے سارے کام یہ خواتین ہی انجام دیتی ہیں۔ ہمارے ہاں باقی پاکستان میں بھی دیہی علاقوں کی خواتین، شہری خواتین کی نسبت زیادہ صحت مند ہیں۔ شہری خواتین کی دماغی صحت گاؤں میں بسنے والی خواتین کی جسمانی صحت پر لاکھ بھاری ہو گی لیکن نپولین نے جب یہ کہا تھا کہ ”مجھے صحت مند مائیں دو تو میں تمہیں صحت مند قوم دے سکوں گا“ تو اس کا اشارہ محض دماغی لحاظ سے صحت مند خواتین کی طرف نہ تھا بلکہ دماغی اور جسمانی صحت کے مشترک ملاپ کی طرف تھا۔
اس الیکشن میں زیادہ گہما گہمی اس لئے بھی تھی کہ اس میں انڈین انٹیلی جنس براہِ راست ملوث تھی۔تین دن پہلے ہمارے وزیر خارجہ اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے جن رازوں سے پردہ اٹھایا، وہ ایسے راز نہیں تھے جن کی خبر پاکستانیوں کو بالعموم اور اس خطے میں صف بند پاک فوج کو بالخصوص نہ تھی۔ اپنے یہاں تو ہر شہر میں ”را“ کے ”خوابیدہ سیل“ موجود رہے ہیں۔ آج کل فرق صرف یہ پڑا ہے کہ ان کی تعداد میں دگنا اضافہ ہو گیا ہے اور خوابیدہ کی جگہ ’نیم بیدار سیلوں‘ کی بھی ایک نئی فصل اُگ آئی ہے۔ جنرل افتخار بابر نے جن شخصیات کے نام گنوائے اور جن رقوم کا ذکر کیا، وہ شائد پہلی بار بیان کی گئی ہیں لیکن پاکستان کے ہر فرد و بشر کو معلوم ہے کہ پاکستان کے خلاف انڈیا کے عزائم کیا ہیں اور انڈیا اور مودی کے علاوہ اور کون کون سی دوسری اقوام و شخصیات ہیں جو پاکستان کی ’الفت‘ میں بُری طرح اسیر ہیں۔
لیکن آپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ یہ ایام صبر و تحمل کے ایام ہیں۔ انڈیا ہمیں اکسا رہا ہے، لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کرنے والے ہتھیاروں کی اقسام اور ان کی سٹیٹ آف دی آرٹ ٹیکنالوجی کے ثبوت ہمارے شہدا کی روز افزوں تعداد سے مل رہے ہیں۔ انڈین آرمی اشتعال دلا رہی ہے کہ پاکستان بھی اپنی Ante بالا کرے تاکہ Skrimish، Battleمیں اور بیٹل کسی قسم کی war میں تبدیل ہو جائے۔ لیکن نجانے مجھے یہ یقین کیوں ہے کہ اگر ہندوستان اس سے بھی زیادہ ننگا ہو کر سامنے آ جائے تو پاکستان اس کو نہیں روکے گا اور ڈیفنس کو اوفینس میں تبدیل نہیں کرے گا۔ اگرچہ فوج نے برملا اشارہ دے دیا ہے کہ ہم اپنی پہلے والی دفاعی سٹرٹیجی کی جگہ جارحانہ سٹرٹیجی کو روبکار لائیں گے لیکن جیسا کہ اوپر کہہ آیا ہوں ابھی جارحانہ انداز (Posture) اپنانے کا وقت نہیں آیا۔ جب تک سی پیک کے ریل اینڈ روڈ انی شی ایٹو مکمل نہیں ہوں گے، تب تک پاکستان کو اپنی زبان دانتوں تلے دبا کر رکھنی پڑے گی۔ مجھے قومی امید ہے کہ وہ دن زیادہ دور نہیں جب پاکستان منہ کھول کر زبان کو آزاد کر دے گا۔
ابھی پاکستان ریلوے کا ML-1 منصوبہ شروع نہیں ہو سکا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر اور وزیرِ خارجہ کی مشترکہ کانفرنس ایک لحاظ سے بالکل انوکھی اور اقوامِ عالم کے لئے چشم کشا تھی۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ پاکستان، چین کو یہ بتا رہا ہو کہ آپ ایم ایل۔ ون کب شروع کریں گے؟…… کیا اس وقت جب چڑیاں کھیت چگ جائیں گی؟ میرے خیال میں ریل کا یہ منصوبہ چین کے لئے بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا پاکستان کے لئے ہے۔ ریل، روڈ اور گوادر پورٹ جب تک مکمل ہو کر فنکشنل نہیں ہو جائیں گے، تب تک انڈوپاک وار یا انڈو چائنا وار کے امکانات دھندلائے رہیں گے۔ ایم ایل۔ ون کی تکمیل کے لئے ساتھ آٹھ برس کا عرصہ پلان کیا جا رہا ہے لیکن اب چین کو یہ منصوبہ جلد از جلد مکمل کرنے کی طرف توجہ دینی پڑے گی۔ زیادہ سے زیادہ تین سال کے اندر اندر کراچی تا حویلیاں ٹریک نہ صرف بچھ جانا چاہیے بلکہ ان کا ٹرائل رن (Run) بھی مکمل ہو جانا چاہیے۔ یہ بات چین کے اپنے فائدے میں بھی ہے۔
خنجراب سے حویلیاں تک براستہ روڈ اور حویلیاں سے گوادر تک براستہ مین لائن وَن ایک متبادل آرٹری موجود ہونی چاہیے جو ہنگامی حالات میں انڈیا کی طرف سے آبنائے ملاکا کی بلاکیڈ کے بعد کھلی رہ سکے۔عمران خان کو ذاتی طور پر اگر صدرشی سے درخواست کرنی پڑے تو اس سے گریز نہ کیا جائے…… اب تک یہی بہانے بنائے جا رہے ہیں کہ اس 6.8ارب ڈالر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے آدھا حصہ (3.2ارب ڈالر)2024ء تک مکمل کیا جائے جو کراچی سے راولپنڈی (براستہ لاہور) تک ٹریک مکمل کرے اور دوسرا حصہ بعد کے تین برسوں میں (2027ء تک) مکمل کیا جائے جو حویلیاں تک ہو۔(راولپنڈی سے حویلیاں اتنا دور نہیں کہ اس کے لئے 3برس کی مدت درکار ہو گی)۔