زمانہ جاہلیت کا سفر تو جاری ہے۔ پہلے بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی مار دیتے تھے اب شادی کرکے بہو بنا کے مار دیتے ہیں۔ یہ عورت جس کا نام ساس ہے آخر کس مٹی سے بنی ہوئی ہے او ریہ نند جس نے خود بھی کسی گھر کی بہو بن کے جانا ہوتا ہے، اپنے بھائی کے گھر کو برباد کرنے میں اتنی ظالم ڈائن کیوں بن جاتی ہے؟ پھر یہ بہو کی ساس جس کی اپنی بھی بیٹیاں ہوتی ہیں یہ کیوں نہیں سوچتی جو وہ کسی دوسرے کی بیٹھی کے ساتھ کررہی ہے، اس کی بیٹی کے ساتھ ہو تو کتنا ناقابل برداشت ہوگا۔ دیکھنے میں یہی آیا ہے کبھی ساس کے ساتھ اس کا بیٹا مل جاتا ہے اور کبھی اس کی بیٹی، ہدف ایک ہی ہوتا ہے جسے ویرمیریا گھوڑی چڑھیا، اج نچے منڈے دی ماں جیسے گانوں کی گونج میں بیاہ کے لاتی ہیں، اس کے لئے گھر کے در و دیوار تنگ کر دیتی ہیں جب اس کے باوجود وہ گھر چھور کے نہ جائے، اپنے میاں کے گھر رہنے کی ضد کرے تو پھر اس کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو ملتان کی ثانی زہرہ اور ڈسکہ کی زارا کے ساتھ ہوا ہے۔ پاکستان میں قانون کا ڈر تو اب ہے ہی نہیں، اللہ کا ڈر بھی نہیں رہا۔ کہیں ایسے واقعات کو خودکشی کا رنگ دیا جاتا ہے اور کہیں کردار کشی کا راستہ اختیار کرکے قتل ہونے والی ہر آشنا کے ساتھ فرار کی کہانی گھڑی جاتی ہے لیکن خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔ خون چھپتا نہیں اور ایسے سفاک کردار پکڑے جاتے ہیں جیسے ملتان کی ثانی زہرا کو قتل کرکے پنکھے کے ساتھ لٹکانے والے شوہر اور اس کے والدین پکڑے گئے اور جیسے ڈسکہ کی زارا کو بے دردی سے قتل کرکے، اس کے چہرے کو جسم سے جدا کرکے جلانے اور جسم کو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے دریا میں بہانے والی سفاک ساس اور اس کی بیٹی ایک آشنا سمیت پکڑے جا چکے ہیں۔ مجھے ایک وکیل دوست نے بتایا روزانہ خلع کے درجنوں کیسز عدالتوں میں دائر ہو رہے ہیں،تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ ان کیسوں کی سب سے بڑی وجہ خانگی حالات ہیں جس عورت کا نام ساس ہے وہ ہر گھر میں موجود ہے۔ بدقسمتی سے یہی عورت ہر کہانی کے پیچھے ایک مرکزی کردار کے طور پر موجود ہے۔ اس کردار میں اگر خودغرضی اور سفاکی کم ہو جائے تو یہ ٹوٹتے رشتوں کو بھی بچا سکتی ہے۔ فیملی کیسوں کے ایک معروف وکیل سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا میں نے اکثر خلع کے لئے کیس دائر کرنے والی لڑکیوں سے انٹرویو کئے ہیں، ان میں اکثر علیحدہ گھر لینے کا مطالبہ اس لئے کرتی ہیں کہ ان کی ساس نے گھر کو قید خانہ بنا رکھا ہوتا ہے۔ میاں بیوی کو گھر میں کھل کر بات کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔ گھر سے اپنے ہی شوہر کے ساتھ باہر جانے کے لئے اجازت لینا پڑتی ہے جو اکثر نہیں ملتی۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت کم مائیں اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہیں کہ شادی کے بعد ان کے بیٹے کی ذمہ داری تقسیم ہو جاتی ہے۔ اس نے اپنی ماں اور بہنوں کے ساتھ اپنے بیوی کا بھی خیال رکھنا ہے مگر وہ میاں بیوی کے تعلق کو خونخوار نظروں سے دیکھتی ہیں، کبھی ہنس کر بات کرلیں تو بہو کی شامت آجاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا خود ہی بیٹے کا گھر آباد کرکے اسے برباد کرنے کی جو کہانی ہمارے معاشرے میں جابجا نظر آتی ہے وہ حیران کن بھی ہے اور سفاکانہ بھی۔
قارئین کی معلومات کے لئے عرض ہے کہ چند روز پہلے ڈسکہ کے نواحی گاؤں میں سات ماہ کی حاملہ زارا کے قتل کا انکشاف اس وقت ہوا جب اس کے والد کی اطلاع پر پولیس نے اس کی گمشدگی کا مقدمہ درج کرکے تفتیش کی۔ زارا کا والد اسے دو دن سے فون کر رہا تھا مگر فون بند مل رہا تھا۔ وہ اس کا پتہ کرنے کے لئے ڈسکہ پہنچا تو زارا کی ساس صغراں نے بتایا وہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے، فون بھی بند ہے، ہم نے بدنامی کے ڈر سے کسی کو بتایا نہیں، زارا کے والد کو ساری کہانی مشکوک لگی اس نے پولیس کو بتایا پہلے بھی زارا کی ساس اور ننداسے بہت اذیتیں دیتی تھیں۔ وہ دو ماہ پہلے اٹلی سے واپس آئی تھی،جہاں اس کا شوہر مقیم ہے۔ چونکہ شوہر سارے پیسے زارا کو بھیجتا تھا، اس لئے اس کی ساس کو تکلیف تھی۔ پولیس نے جب ساس صغراں، اس کی بیٹی اور نواسے کو حراست میں لے کر تفتیش کی تو انہوں نے جلد ہی ساری کہانی بتا دی۔ لاہور سے اپنے ایک رشتہ دار نوجوان نوید کو واردات کے بعد اٹلی بھجوانے کا لالچ دے کر ساتھ ملایا، سوئی ہوئی زارا کے منہ پر تکیہ رکھ کر اسے قتل کیا اس کے بعد چہرے کو جسم سے علیحدہ کرکے اسے چولہے پر مسخ کیا، باقی لاش کے پانچ ٹکڑے کرکے آدھے دریا میں بہا دیئے اور باقی قریب ہی ایک ویرانے میں دفن کر دیئے۔ یہ راز تو تب کھلا جب زارا کا بدنصیب والد اپنی بیٹی کی خیرخیریت معلوم کرنے ڈسکہ اس کے سسرال آیا،زارا کے والد کو اس کی ساس نے جو کہانی سنائی، اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی، وہ اپنی بیٹی کے کردار کو جانتا تھا۔ پھر اسے یہ بھی معلوم تھا، وہ سات ماہ کی حاملہ ہے، ایسی حرکت کیسے کر سکتی ہے، کیسے کسی آشنا کے ساتھ گھر چھوڑ کر جا سکتی ہے، جبکہ وہ صرف دو ماہ پہلے اپنے شوہر کے کہنے پر ڈسکہ آئی ہو کہ ماں کے پاس چلی جاؤ تاکہ زچگی کے مراحل آسانی سے طے ہو سکیں۔ زارا کے والد نے سارا احوال ڈسکہ پولیس کے ایس ایچ او کو سنایا، ایسے کیسوں میں پولیس والے تساہل سے کام لیتے ہیں اور انتظار کرنے کا کہتے ہیں کہ جانے والا واپس آ جائے گا مگر ڈسکہ پولیس نے ایسا نہیں کیا اس کیس پر فوری تفتیش شروع کی۔ موقع ملاحظہ کیا۔ حالات سنے تو ماں بیٹی کے بیانات میں واضح تضادات نظر آئے۔ دونوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ چند گھنٹوں کی روایتی پولیس تفتیش میں دونوں مان گئیں کہ زارا اب اس دنیا میں نہیں، انہوں نے اپنے ایک رشتہ دار نوجوان ندیم کے ساتھ مل کر قتل کر دیا ہے۔ پھر یہ بھی بتایا لاش کو کس بے دردی سے ٹھکانے لگایا جس میں نوجوان ندیم ان کے ساتھ تھا۔ زارا کو قتل کرنے کی ایک فوری وجہ یہ بھی تھی کہ وہ سات ماہ کی حاملہ تھی، بچے کی مان بن جاتی تو شوہر کی نظر میں اس کی اہمیت مزید بڑھ جانی تھی۔بیٹیوں کی مائیں جب تک اپنی سوچ نہیں بدلیں گی اور بیٹوں کو اپنی جاگیر سمجھ کر گھر آنے والی بہوکو غلام بنا کے رکھیں گی، اس وقت تک بیٹیوں کے لئے زمین تنگ رہے گی۔