پاکستان سمیت دنیا بھر کے رہنماؤں کی ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارکباد اور توقعات!

Nov 17, 2024


امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی شاندار کامیابی پر دنیا بھر کے رہنماؤں کی طرف سے انہیں مبارکباد کے پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔ان کی فتح کو اس لحاظ سے تاریخی قرار دیا جا رہا ہے کہ انہوں نے اپنے اوپر لگائے جانے والے متعدد الزامات، قاتلانہ حملے اور کئی دیگر مشکلات کے باوجود اپنی حریف اور امریکی نائب صدر کملا ہیرس کے 224 الیکٹورل ووٹوں کے مقابلے میں 292 الیکٹوریل ووٹوں کیساتھ 7 کروڑ 19 لاکھ سے زائد پاپولر ووٹ حاصل کرکے سینٹ اور ایوانِ نمائندگان میں شاندار کامیابی حاصل کی۔ ٹرمپ نے تین بار صدارتی الیکشن لڑا اور دونوں کامیابیوں میں ان کی مد ِمقابل خواتین امیدوار (ہلیری کلنٹن 2016ء) اور کملا ہیرس 2024ء) رہیں۔ جبکہ تاریخ میں پہلی بار خلا سے بھی الیکٹرک بیلٹ کے ذریعے ووٹ ڈالے گئے۔ خلائی اسٹیشن میں بیٹھے خلا بازوں کا موقف تھا کہ ووٹ نہ دینے سے فرق پڑتا ہے، اس سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ کہاں ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ 40سالہ جے ڈی وینس اپنے حریف ٹم ویلز کو ہرا کر تیسرے کم عمر نائب صدر منتخب ہوئے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے47 ویں صدر ہوں گے، انہوں نے انتخابات میں ممکنہ 538 الیکٹورل ووٹوں میں سے کم از کم 292 الیکٹرول  ووٹ حاصل کیے،جس کے بعد وہ 1890ء کی دہائی میں گروور کلیولینڈ کے بعد، غیر متواتر ٹرمز جیتنے والے دوسرے امریکی رہنما بن گئے۔78 سالہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی فتح کا اعلان فلوریڈا میں ایک ریلی کے دوران اپنے حامیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کیا۔ڈونلڈ ٹرمپ اپنے خاندان کے نیو یارک رئیل اسٹیٹ گروپ کے ارب پتی سربراہ ہیں جو پہلی بار 2015ء  میں امریکہ کے سیاسی منظر نامے پر ابھرے تھے۔دوبارہ صدارت جیت کر، انہوں نے رکاوٹوں کے ایک ایسے سلسلے پر قابو پایا ہے جس میں ان کے کچھ قریبی مشیروں کی جانب سے سخت مذمت بھی شامل تھی جنہوں نے ان کے پہلے دورِ صدارت کے دوران خدمات انجام دیں تھیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی پہلے دورِ صدارت کے دوران ایوانِ نمائندگان کی جانب سے دوبار مواخذے کا سامنا کرنا پڑا جن میں بائیڈن سے 2020ء کی شکست کو بلاک کرنے کی کوشش میں یو ایس کیپیٹل میں ہنگامے کو ہوا دینے کی کارروائی بھی شامل تھی۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ دونوں بار ہی سینیٹ نے انہیں بری کردیا تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے پر پاکستان، برطانیہ، روس، چین، ترکیہ، بھارت، اسرائیل، یوکرین سمیت دنیا کے مختلف ممالک نے مبارکباد  دی ہے۔
 وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت پر انہیں مبارک باد دیتے ہوئے ایکس پر اپنے  پیغام میں ٹرمپ کے دوسری مرتبہ امریکی صدر منتخب ہونے کو ان کی تاریخی کامیابی قرار دیتے ہوئے لکھا کہ وہ مستقبل میں اگلی امریکی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام  کرنے اور پاک امریکی روابط کو مزید وسعت دینے کے لئے اپنی بھرپور کوششوں کا ارادہ رکھتے ہیں۔  اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی ٹرمپ کی فتح کو امن سے منسوب کیا اور اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا ''یہ جنگ کے خلاف ایک فتح ہے۔ اینٹی وار مینڈیٹ"۔ ہمیں امید ہے کہ" نئی امریکی انتظامیہ امن کو ترجیح دے گی اور عالمی تنازعات کے اب تک ختم نہ ہونے والے سلسلے کو ختم کرنے میں مدد کرے گی۔" جبکہ برطانیہ کے وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارک باد دیتے ہوئے، سوشل میڈیا پر اپنے ایک بیان میں کہاکہ آنے والے برسوں میں برطانیہ اور امریکہ آزادی، جمہوریت اور دیگر امور میں مشترکہ اقدار کے دفاع کے لئے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں گے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم  نیتن یاہو، ٹرمپ کو مبارکباد دینے والے پہلے اتحادیوں میں شامل تھے۔اپنے بیان میں اُن کا کہنا تھا کہ "وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو تاریخی واپسی پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔" چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے ٹرمپ کی کامیابی سے متعلق پوچھے گئے سوال پر کہا کہ امریکہ کے بارے میں چین کی پالیسی مستقل ہے۔ایک نیوز بریفنگ کے دوران ترجمان چینی وزارتِ خارجہ ماؤ ننگ نے کہا کہ ہم امریکہ کے ساتھ باہمی احترام اور امن کے ساتھ جینے کے اصول پر مبنی تعلقات کے خواہاں ہیں جس میں ہر فریق کی جیت ہو۔روس کی جانب سے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت پر ردِ عمل سامنے آیا۔خبر رساں ادارے "رائٹرز" کے مطابق کریملن ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ روس کے لئے اب بھی ایک حریف ریاست ہے۔لہٰذا یہ وقت ہی بتائے گا کہ یوکرین جنگ کے خاتمے کے بارے میں ٹرمپ کی بیان بازی حقیقت میں بدلتی ہے یا نہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ وہ اس حوالے سے کچھ نہیں جانتے کہ آیا صدر پوٹن، ٹرمپ کو مبارک باد کا فون کریں گے یا نہیں کیوں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات اس وقت انتہائی نچلی سطح پر ہیں۔
روس کا مقابلہ کرنے کے لئے امریکہ اور مغربی ممالک سے مزید تعاون کے خواہاں یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارک باد دی ہے۔زیلنسکی نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے "طاقت کے ذریعے امن" کے حصول کے بیان کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اس سے یوکرین میں امن کا قیام ممکن ہو سکے گا۔اُن کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کو عملی شکل دینے کے لئے امریکہ اور یوکرین مل کر کام کریں گے۔اسلامی ملک ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارک باد دیتے ہوئے سوشل میڈیا پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ "میں اپنے دوست ڈونلڈ ٹرمپ کو دوبارہ امریکہ کا صدر منتخب ہونے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔"انہوں نے امید ظاہر کی کہ نئے دور میں امریکہ اور ترکیہ کے تعلقات مضبوط ہوں گے۔افغانستان میں طالبان حکومت نے ٹرمپ کی کامیابی پر اپنے بیان میں امید ظاہر کی کہ نئی امریکی انتظامیہ حقیقت پسندانہ اقدامات کرے گی تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ٹھوس پیش رفت ہو۔طالبان وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ اماراتِ اسلامی اور امریکہ کے درمیان دوحہ معاہدہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ صدارت میں ہی ہوا تھا جس کے بعد 20 سالہ قبضے کا خاتمہ ہوا تھا۔"انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ امید ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ خطے اور دنیا میں جاری موجودہ جنگ بالخصوص غزہ اور لبنان میں جاری "ظلم و جارحیت" کے خاتمے میں تعمیری کردار ادا کریں گے۔

بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے امریکہ کے صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کو کامیاب ہونے پر مبارک باد دیتے ہوئے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں مودی کا کہنا تھا کہ "میں اپنے دوست ڈونلڈ ٹرمپ کو الیکشن میں تاریخی کامیابی پر مبارک باد دینا چاہتا ہوں۔"انہوں نے ٹرمپ کی صدارت کے گزشتہ دور کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ مستقبل میں امریکہ اور بھارت کے درمیان تعلقات کی مضبوطی کی امید رکھتے ہیں۔انہوں نے ٹرمپ کے ساتھ مل کر کام کرنے کی امید کا بھی اظہار کیا۔نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک روٹے نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کی قیادت میں نیٹو اتحاد کو مزید مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔ واضح ہو کہ اپنے سابقہ دورِ صدارت میں ڈونلڈ ٹرمپ نیٹو کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ اپنے بیانات میں ٹرمپ یہ کہتے رہے ہیں کہ یورپ کے دفاع کے لئے نیٹو اتحاد زیادہ کچھ کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون کا کہنا تھا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اسی عزم اور یقین کے ساتھ کام کرنے کے لئے پُرجوش ہیں جس طرح اُن کے پہلے چار سالہ دورِ صدارت میں کیا تھا۔یورپی یونین کمیشن کی سربراہ ارزولا فان ڈیئر لائن نے اپنے تہنیتی پیغام میں ٹرمپ کو مبارکباد دیتے ہوئے امریکہ اور یورپی یونین کی "حقیقی شراکت داری" کی تعریف کی۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں یورپی ممالک کی مصنوعات پر ٹیکس عائد کرنے پر امریکہ اور یورپی یونین کے تعلقات میں سرد مہری آئی تھی۔ہنگری کے وزیرِ اعظم وکٹر اوربان نے بھی ٹرمپ کو مبارک باد دیتے ہوئے اُن کی کامیابی کو امریکی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا "کم بیک" قرار دیا۔آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم انتھونی البانیز نے کہا کہ امریکہ اور آسٹریلیا عظیم دوست اور اتحادی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری2025ء کو یونائیٹڈ سٹیٹس کیپیٹل کمپلیکس کے میدان میں حلف اْٹھا کر امریکہ کے 47ویں صدر بن جائیں گے۔ واضح ہو کہ  ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے مابین کانٹے دار مقابلہ ہوا تاہم سات ”سوئنگ سٹیٹس“ کہلائے جانے والی ریاستوں کے 93 الیکٹورل ووٹس نے ٹرمپ کی جیت میں فیصلہ کُن کردار ادا کیا۔ ان میں ایریزونا، جارجیا، مشی گن، نیواڈا، نارتھ کیرولائنا، پینسلوینیا اور وسکونسن شامل ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق 50 ریاستوں میں سے 27 میں ڈونلڈ ٹرمپ اور 19 میں کملا ہیرس کامیاب ہوئی ہیں جبکہ دیگر ریاستوں میں انتخابی نتائج برابر رہے۔جیت کے بعد ٹرمپ کے حامیوں نے خوب جشن منایا۔ بعض لوگوں نے وائٹ ہاؤس کے سامنے نعرے لگائے جس کے بعد امریکی میڈیا کے مطابق صدارتی انتخابات اور تناؤ کے پیش ِ نظر وائٹ ہاؤس کے ارد گرد 8 فٹ اونچی لوہے کی باڑ لگائی گئی،واشنگٹن ڈی سی میں سکیورٹی سخت کر دی گئی، گلیوں میں پولیس اہلکار اور پولیس موبائلز گشت کرتی رہیں۔یہی نہیں بلکہ کیپیٹل کی عمارت کے گرد بھی باڑ اور رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں۔ اب امریکی سینیٹ میں ریپبلکن کی 51 اور ڈیمو کریٹس کی 43 نشستیں ہو گئی ہیں۔اِس سے قبل سینیٹ میں 38 نشستیں ریپبلکن جبکہ 28 ڈیمو کریٹس کے پاس تھیں۔ امریکی میڈیا کے مطابق 11 ریاستوں میں گورنروں کا انتخاب بھی ہو گا۔ کہا جا رہا ہے کہ امریکہ کی 50 میں سے 43 ریاستوں میں دونوں پارٹیوں کی پوزیشن پہلے ہی واضح تھی۔
 ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی جیت کے چند گھنٹوں بعد ہی فلوریڈا کے شہر پام بیچ میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اْنہوں نے تاریخ رقم کر دی ہے، سنہری دور کا آغاز ہونے والا ہے، وہ تمام ملکی معاملات کو ٹھیک کر دیں گے،امریکہ اب نئی بلندیوں کو چھوئے گا اور دوبارہ عظیم بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت نے سینیٹ میں بھی کامیابی حاصل کر لی ہے جو کہ غیر معمولی ہے۔ اپنے خطاب میں نو منتخب امریکی صدر نے ”سپیس ایکس“ کے مالک ایلون مسک کو خصوصی خراجِ تحسین پیش کیا۔ ایلون مسک نے اُن کی صدارتی مہم کے لئے نمایاں مالی مدد کی اور دو ہفتے تک فلاڈیلفیا اور پینسلوینیا سمیت سوئنگ ریاستوں میں اُن کی انتخابی مہم بھی چلائی۔یاد رہے کہ ایلون مسک دنیا کی امیر ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ اُنہوں نے ٹرمپ کی صدارتی مہم کے لئے تقریباً 132 ملین ڈالرز عطیہ کیے تھے اور ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی مہم کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیا اور ”ایکس“ پر اپنی پوسٹ میں اُن کی جیت کو ”کرسٹل کلیئر“ قرار دیا تھا۔عالمی میڈیا کے مطابق ٹرمپ کی کامیابی کے بعد عالمی منڈی میں سونے اور خام تیل کی قیمتیں کم ہو گئیں جبکہ سٹاک مارکیٹوں میں تیزی کا رجحان دیکھنے میں آیا۔ 
اِس میں تو کئی شک نہیں کہ امریکی عوام نے اُن کا بھرپور ساتھ دیا۔ اب اُمید کی جا رہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جو وعدے کیے، وہ بھی پورے کریں گے۔اُنہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ وہ ٹیکسوں میں کمی کریں گے، قرض ادا کریں گے، سرحدوں کو سیل کریں گے تاکہ جو بھی آئے وہ قانونی طور پر آئے۔اُنہوں نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ وہ کوئی نئی جنگ شروع نہیں کریں گے بلکہ انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی ایک دن میں یوکرین اور چند گھنٹوں میں فلسطین میں جنگ بندی کرانے کا اعلان کیا تھا،اب دیکھتے ہیں وہ اِس سلسلے میں کیا کرتے ہیں۔ حماس رہنما سمی ابو ذوہری نے بھی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اُن کے بیانات کے تناظر میں جانچنے کی بات کی ہے۔ یوکرین جنگ ایک روز میں بند کرانے کی بات کا روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے خیرمقدم کیا تھا، تاہم بین الاقوامی ماہرین کے امور کا کہنا ہے کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا ٹرمپ سمجھتے ہیں یا کہتے ہیں۔یہ درست ہے کہ وہ یوکرین کے لئے امریکی امداد پر سوال اُٹھاتے ہیں تاہم اُن کے کسی جارحانہ اقدام سے نہ صرف نیٹو کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے بلکہ یورپ سے امریکہ کی تعلقات میں بڑی تبدیلی بھی آ سکتی ہے۔ اِسی طرح اسرائیل -فلسطین جنگ میں امریکہ کا پیچھے ہٹنا خصوصاً مالی لحاظ سے اسرائیل کو  ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
صدر ٹرمپ کے گزشتہ دورِ حکومت کو دیکھا جائے تو انتخابی مہم کے دوران کیے گئے بہت سے وعدے انہوں نے پورے نہیں کیے تھے؛ تاہم افغانستان سے فوجیوں کی واپسی اور شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات میں جارحانہ انداز اپنایا تھا، اُن کے مشرقِ وسطیٰ کے شاہی خاندانوں خصوصاً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اچھے مراسم ہیں۔انتخابی مہم کے دوران اُن کا زیادہ انحصار معیشت پر تھا کیونکہ ایک عام امریکی موجودہ معاشی حالات سے خوش نہیں ہے اور اُسے مستقبل کی کوئی اچھی تصویر نظر نہیں آ رہی۔ کھربوں ڈالر کے خرچ کے باعث امریکہ میں معیشت کے حوالے سے بداعتمادی کی فضاپائی جاتی ہے، مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھر مار نے امریکی عوام کو بھی زچ کیا ہوا ہے۔بعض ماہرین کے نزدیک کملا ہیرس کے ہارنے کی ایک بڑی وجہ اُن کا امریکی نائب صدر ہونا بھی تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ بائیڈن انتظامیہ کا حصہ ہونے کی وجہ سے اُن کے کندھوں پر یوکرین  - روس اور اسرائیل -فلسطین جنگ کا بوجھ بھی تھا۔

امریکہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے حوالے سے صدر بائیڈن پر بہت تنقید کی گئی تھی، مظاہرے بھی ہوئے، یونیورسٹیوں میں طلبہ نے کافی روز تک مہم بھی چلائی۔ اسرائیل کی حمایت کی وجہ سے مسلمان ووٹروں نے ڈیمو کریٹس کا ساتھ نہ دینے کا عندیہ بھی دیا تھا۔برطانوی انتخابات کے نتائج پر بھی گزشتہ حکومت کی اسرائیلی حمایت کے اثرات صاف دکھائی دیتے تھے۔بہر حال اب ڈونلڈ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر صدر منتخب ہو چکے ہیں، کس کے حق میں وہ بہتر ثابت ہوتے ہیں، کیا کرتے ہیں اور کیا نہیں، یہ تو آنے والے وقت میں ہی بتائے گا؟ البتہ ماہرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد یوکرین، ایران اور اسرائیل سمیت اُن ممالک کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں جو کسی بھی وجہ سے امریکی امداد پر انحصار کر رہی ہیں کیونکہ ٹرمپ امریکی ٹیکس پیئرز کا پیسہ کسی کو دینے کے حق میں نہیں ہیں، اِسی لئے وہ جنگوں کے خلاف ہیں۔صدر ٹرمپ کا سفر یقینا آسان نہیں رہا۔ عدالتی کٹہرے میں کھڑے ہوئے، بیس منٹ کے لیے جیل بھی گئے۔ انہوں نے خود اپنی انتخابی مہم کے دوران تسلیم کیا   کہ اُن سے گزشتہ دورِ حکومت میں کچھ غلطیاں ہوئی ہیں جنہیں وہ اب نہیں دہرائیں گے، کم از کم انہوں نے یہ تو مانا کہ غلطیاں ہوئی تھیں،ہو سکتا ہے اب وہ انہیں سدھار لیں۔
واضح ہو کہ ڈونلڈ ٹرمپ اب ایک طاقتور صدر کے طور پر ابھریں گے تاہم امریکہ کا انتظامی سیٹ اپ اس نوع کا ہے کہ صدر جتنا بھی طاقتور ہو، اسے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ، پینٹاگون اور دیگر اداروں کے ساتھ مل کر چلنا پڑتا ہے۔ مبصرین کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کو انتظامی اختیارات، سینٹ اور کانگریس میں اکثریت کے علاوہ کئی دیگر عوامل نے بھی ایک بہترین ماحول فراہم کیا ہے۔ اس منظر نامے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے انتخابی ہیڈ کوارٹر (فلوریڈا) اور ہاورڈ یونیورسٹی میں اپنے حامیوں سے خطاب میں جو باتیں کہیں، ان سے ظاہر ہے کہ وہ ماضی کی طرح”سب سے پہلے امریکہ“ کی پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے۔ جنگیں ختم کرنے کے اعلان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کوئی جنگ شروع نہیں کی بلکہ جنگیں ختم کی ہیں اور اب بھی دنیا میں جاری تنازعات ختم کریں گے۔ عالمی امن کے حوالے سے یہ بیان  خوش کن ہے لیکن یہ بات قابلِ غور ہے کہ جب یوکرین میں جنگ بند کرنے سمیت کئی اقدامات کئے جائیں گے تو امریکی اتحادیوں،خاص طور پر یورپ کا کیا ردِعمل ہوگا۔ مشرق وسطیٰ میں پچھلی دفعہ انہوں نے ”معاہدہ ابراہیمی“ کرایا تھا جس سے کشیدگی کے امکانات کم ہوتے محسوس ہوئے مگر اب وہاں کشیدگی سنگین صورت اختیار کر چکی ہے۔ غزہ میں اسرائیلی بہیمیت عروج پر ہے۔ جنگ کے سائے فلسطین، لبنان، یمن سے ایران کی طرف بڑھتے محسوس ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار سنبھالنے کے بعد غزہ میں بہیمیت رکوا دیں گے اور مشرق وسطیٰ پر چھائے جنگ کے خطرات دور کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ امریکہ اور چین کی کشیدگی میں اضافے کی ایک وجہ بھاری برآمدی ٹیکس بھی تھے۔ جبکہ خطے کی مخصوص صورتِ حال میں چین سے امریکہ کی کشیدگی اور بھارت سے دوستی نمایاں ہے۔ 
افغانستان میں ایک نئی صورتِ حال ہے جس سے نبردآزما ہونا پاکستان کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ سوال اہم ہے کہ کیا اس باب میں امریکہ پاکستان کی مدد کرے گا؟ نیز یہ کہ اپنے پہلے دورِ صدارت میں ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر بطور ثالث کردار ادا کرنے کا اعلان کیا تھا، دیکھنا یہ ہے کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اس بیان پر قائم رہتے ہوئے مسئلہ کشمیر کا کوئی ایسا حل نکال پائیں گے جو پاکستان، کشمیری عوام اور بھارت تینوں کو قابلِ قبول ہو۔ اگر ایسا ہو گیا تو یقینا یہ بہت بڑی بات ہو گی اور اس طرح ڈونلڈ ٹرمپ تاریخ میں ہمیشہ کے لئے امر ہو جائیں گے۔
                ٭٭٭

مزیدخبریں