دین ِ اسلام کامل دین اور مکمل نظامِ حیات ہے، تمام شعبہ ہائے زندگی کے لئے اس میں راہنما ہدایات موجود ہیں،ایک انسان کے کامیاب زندگی بسر کرنے کے جو اصول و ضوابط ہو سکتے ہیں، اسلام نے کھول کھول کر بیان کر دیئے ہیں۔ عام طور سے اسلام کو سمجھنے میں غلطی کی جاتی ہے، اسلام کو محض چند عبادات کا مجموعہ سمجھ کر رسماََ ادا کر لینا کافی سمجھا جاتا ہے۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں عبادات کی بڑی اہمیت ہے،بلکہ یہی اس کی شناخت ہے، نماز اسلام کا اہم رکن ہے، روزہ ایک اہم رکن ہے، زکوٰۃ اسلام کا ایک اہم رکن ہے،بلکہ یہ اسلام کے عطا کردہ معاشی نظام کی بنیاد ہے، لیکن یاد رکھنا چاہئے اسلام محض نمازوں کے ادا کر لینے، روزہ رکھ لینے، اور زکوٰۃ ادا کر دینے کا نام نہیں، اسلام کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے، اسلام کا دائرہئ عمل اس سے کہیں زیادہ وسیع اور ہمہ گیر ہے۔
اسلام اللہ تعالیٰ کے عطاء کردہ فطری نظام کے تحت پوری زندگی گزارنے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ، یعنی مکمل طریقہ سے اسلام کے سانچے میں ڈھل جاؤ، معاشرتی زندگی کے اتار چڑھا ہوں، یا سیاسی زندگی کی پُر پیچ وادیاں،زندگی کے نشیب و فراز ہوں یا معاشی زندگی کی راہداریاں اور تاریک ترین گھاٹیاں، زندگی کے تمام شعبوں کے لئے اسلام نے ہمیں ایک بہترین نظام، ایک لائق ِ عمل دستور، اور بہترین لائحہ عمل عطاء کیا ہے اور ایسے اصول سکھائے ہیں، جن کے مطابق زندگی گزاری جائے تو تو زندگی نہایت پُرسکون اور نہایت آسان ہوجائے۔زندگی مشکل ہوتی ہی اس وقت ہے جب اسلامی اصول و قوانین اور نبوی زندگی کی قابلِ عمل ہدایات کو ترک کرکے غیر قوموں کے ناقابلِ عمل تمدن، گھٹیا تہذیب،اور مشکل ترین رسوم و رواج کو اپنایا جاتاہے اور غیروں کے کلچر کو گلے کا طوق بنا کر پہن لیا جاتا ہے۔آج گہرائی سے مسلمانوں کی زندگیوں کا جائزہ لے لیجیے سر تا سر غیروں کی تہذیب و تمدن کی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ شادی و نکاح کے مواقع جو عموماََ زندگی میں صرف ایک مرتبہ آتے ہیں پوری طرح ہندوانہ تہذیب و روایات کی کثیف بیڑیوں سے گرانبار ہوتے ہیں۔
اسلام میں جہیز اور بارات کا کوئی تصور نہیں، نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہمیں یہ لعنت نظر آتی ہے نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا کوئی عمل اس کی تصدیق کرتا ہے۔اسلام نکاح میں سادگی کا قائل ہے، اسلام نے تو ”فضل النکاح یسرہ معون“ کا مژدہ سنایا ہے۔ سب سے بہترین شادی وہ ہے جو معمولی خرچ میں انجام دی جائے۔ مسلم معاشرے میں شادی کے موقع پر جو ناقابلِ عمل رسم و رواج پیدا ہوگئے ہیں،اس کی وجہ سے نکاح مشکل سے مشکل تر بن گیا ہے۔اسی وجہ سے آج بیس بیس اور پچیس پچیس، اور تیس تیس سال کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جن کی شادیاں نہیں ہو رہیں،ان کی زندگی گناہوں میں بسر ہو رہی ہے اور جوانیاں داغدار ہو رہی ہیں۔ نفسانی خواہشات کے غلبے کی وجہ سے ان کی زندگیاں بے سمت رواں دواں ہیں اور پورا معاشرہ تباہی اور بربادی کے دہانے پر ہے۔یہ تمام رسوم و رواج، یہ زبردستی کے قائم کئے ہوئے اصول و روایات یہ سب غلط تہذیب کا حصہ ہیں۔ ان فضول خرچیوں اور بیجا اسراف کی اسلام بالکل اجازت نہیں دیتا۔ اسلام نے ہمیں جس طرزِ معاشرت کی تعلیم دی ہے، زندگی گزارنے کے جو اصول سکھائے ہیں،اسلام نے شادی و نکاح جیسا سادہ اور بے تکلف طریقہ بتایا ہے، اس پر عمل کرنا اور اس کو نافذ العمل بنانا ضروری ہے، ہمیں اپنے طرزِ معاشرت کو، اپنی سماجی اور سوشل زندگی کو، شادی بیاہ اور نکاح و طلاق کے معاملات کو رسوم و رواج کے بندھن سے، اور جہیز و بارات کی لعنت سے آزاد کرنا ضروری ہے، ورنہ معاشرے کو تباہی سے بچانا بہت مشکل ہے۔ہر شخص کے علم میں یہ بات ہے کہ مسلمانوں کی زندگیوں میں ان ناقابلِ عمل رسوم و رواج کے در آنے کی وجہ سے زندگی کتنی مشکل اور گرانبار ہو گئی ہے۔اگر ان سے آزادی حاصل نہ کی گئی، اور رسم و رواج کے بندھن کو نہ توڑا گیا، تو نہ تو ہماری زندگی ہلاکت اور تباہی سے بچائی جا سکتی ہے،نہ منکرات اور فواحش کا سدِباب کیا جاسکتا ہے، اور نہ ہی کبھی ہمارا معاشرہ ایک صالح معاشرہ بن سکتا ہے، اور اگر یہی حالت رہی تو وہ دن دور نہیں کہ مغربی تہذیب کے اثر سے نکاح کو ایک بوجھ تصور کر لیا جائے گا، پھر زنا کی گرم بازاری ہوگی اور غیر اخلاقی طریقہ نفسانی ہوس مٹانے کا ایک بہترین ذریعہ قرار پائے گا۔اس طرح دنیا بھی تباہ ہوگی اور آخرت بھی تباہ ہو جائے گی اور سوائے ذلت و رسوائی کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ ٭٭٭