امریکہ کا قومی کردار (1)

امریکہ کا قومی کردار (1)
امریکہ کا قومی کردار (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کہا جاتا ہے کہ جو بچہ9ماہ سے پہلے پیدا ہوتاہے وہ یا تو زندہ نہیں بچتا یا غیر معمولی جسمانی، روحانی اور نفسیاتی عوارض کا شکار رہتا ہے۔ مطلب یہ کہ اس کے طور اطوار اور زندگی کے دوسرے معمولات نارمل نہیں رہتے۔ اس سلسلے میں مَیں نے کسی مستند لیڈی ڈاکٹر یا کسی حکیم ِ حاذق سے استفسار نہیں کیا۔ شائد زبان ِ خلق نقارہ ¿ خدا ہو۔ ارادہ ہے کسی دن کسی ماہر امراضِ زچہ و بچہ سے رجوع کروں اور حقیقت ِ حال معلوم کروں۔.... آپ پوچھیں گے کہ اس کالم کی ”کتاب“ سے اس ”پیش ِ لفظ“ کا کیا تعلق ہے، تو عرض یہ ہے کہ آج کے کالم کا موضوع یہی ہے کہ امریکی قوم ایک ایسی قوم ہے جو بطن ِ گیتی سے قبل از وقت پیدا ہو گئی تھی.... اس لئے ابنارمل ہے۔
اس کی ابنارمل پیدائش کے شواہد ڈھونڈنے کے لئے کسی گہری تحقیق کی ضرورت نہیں۔ امریکہ کو دریافت ہوئے ابھی 500 سال ہی تو گزرے ہیں۔ پانچ صدیوںکا یہ عرصہ، تاریخ ِ عالم میں کوئی زیادہ طویل عرصہ نہیں۔ جب ظہیر الدین بابر افغانستان میں شیبانی خان کی وفات کے بعد تخت ِ کابل پر جلوہ افروز ہو رہا تھا تو کولمبس امریکہ کو انڈیا اور وہاں کے باشندوں کو سرخ انڈین سمجھ رہا تھا۔ کولمبس کے بحری جہاز، بھاپ سے نہیںچلتے تھے کہ تب تک بھاپ کی قوت ہی دریافت نہیں ہوئی تھی۔ اس کے سمندری جہاز، بادبانی جہاز تھے جن کے لٹےروں(Pirates)کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ بحری قزاقوں کی برادری کو اگر کسی زمینی قزاقوں سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے تو وہ چنگیز اور ہلاکو ہیں جو کولمبس سے 300سال پہلے بربریت اور وحشت کے وہی ریکارڈ قائم کر رہے تھے، جو امریکیوں نے ان سے 700برس بعد قائم کئے۔ تاریخ کے اوراق کھنگال لیں۔ تاتاریوں نے علوم و فنون و ثقافت کے جس مرکز یعنی بغداد کو تیرھویں صدی میں برباد کر دیا تھا، اس کو ان امریکیوں نے بیسویں صدی میںتاخت و تاراج کیا۔ آج کے بغداد کے گلی کوچے، بازار، مدرسے، شاہراہیں، محلات اور چمکتی دمکتی تہذیب کو یا تو منگولوں نے خاک و خون میں ملایا یا پھر ان امریکیوں نے ابھی حال ہی میں ایک بار نہیں ،دو بار اس عروس البلاد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی.... وہی عروس البلاد جس کے بارے میں اقبال ؒ نے کہا تھا:
جس کے غنچے تھے چمن ساماں و ہ گلشن ہے یہی
کانپتا تھا جن سے روما، ان کا مدفن ہے یہی
ہم منگولوں کو تو قلہ میناروں کے بانی قرار دیتے ہیں، ان کو اسلامی تہذیب و تمدن کو پامال کرنے کا ذمہ دار گردانتے ہیں اور اسلامی ممالک کے عظیم کتب خانوں کے غارت گر تو سمجھتے ہیں، لیکن ان امریکیوں کو جنہوں نے ہرات، قندھار، بغداد، بصرہ اور طرابلس جیسے اسلامی تہذیب و ثقافت کے گہواروںکو ملیامیٹ کر کے رکھ دیا ہے، جدید تہذیب کے بانی کہتے ہیں!
تاریخ سے مشورہ کریں کہ امریکہ میں جا کر آباد ہونے والے سب سے پہلے لوگ کون تھے.... سارے یورپ کے قید خانوں سے لوٹ مار اور قتل و غارت گری کے مرتکب قیدیوں کو نکال کر امریکہ بھیج دیا گیا تھا۔ انہوں نے وہاں جا کر اصل امریکی باشندوں (ریڈ انڈین) کی نسل برباد کر دی اور پھر چونکہ یہ سب خود لٹیرے تھے اس لئے افریقہ میں گئے اور وہاں سے کالے حبشیوں کو بحری جہازوں پر لاد لاد کر امریکہ لے آئے۔ ان سے جانوروں کا سا سلوک کیا اور جانوروں کے کام لئے۔آج امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں ہزاروں لاکھوں ایکڑ سر سبز اراضی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اس خاک کو گل و گلزار کرنے میں افریقہ کے سیاہ فام باشندوں کا خون پسینہ اور سفید فام امریکی آقاﺅں کی بربریت شامل ہے۔
تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ برطانوی سامراج نے یہاں بھی فتوحات کے جھنڈے گاڑے اور امریکہ بھی ایک مدت تک برطانوی سامراج کی نو آبادی رہا، لیکن چونکہ بغاوت اور مار دھاڑ امریکیوں کی فطرت میں شامل تھی، اس لئے انہوں نے برطانوی آقاﺅں کے خلاف بغاوت کر کے اُن کو امریکہ سے نکال دیا۔ امریکی آج بھی اپنی اس جنگ آزادی کو اپنے قومی افتخار کا ایک سنگ ِ میل قرار دیتے ہیں۔
امریکہ کے باسیوں کی فطری جنگ جوئی نے اُن کو ایک بار پھر ایک ایسی جنگ میں دھکیل دیا، جس کو وہ خانہ جنگی کہتے ہیں۔ جب1857ءمیں برصغیر ہندو پاک میں ہندوستانیوں نے اپنی آزادی کی پہلی جنگ لڑی تو عین اس دور میں امریکہ میں بھی (1861ءتا 1865ئ) یہ سول وار لڑی گئی۔ ہندوستان میں تو اپنے ہی ہم وطنوں کے ایک گروہ نے سامراجیوں کا ساتھ دیا اور آخری مغل تاجدار کو رنگون کے قلعے میں قیدی بن کر جانا پڑا،لیکن امریکہ میں شمالی اور جنوبی ریاستوںکے درمیان چار برس تک جو خانہ جنگی جاری رہی، اس میں طرفین نے قتل و غارت کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ شمالی ریاستوں کے مِل مالکان اور امراءنے جنوبی ریاستوں کے غلاموں اور کاشتکاروںکو (جن میں زیادہ تر افریقی غلام شامل تھے) گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔ ابراہم لنکن کو امریکہ کا پہلا جمہوری صدر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس نے1865ءمیں وفات پائی۔ اس وقت تک شمالی ریاستیں، جنوبی ریاستوں کو تہہ تیغ کر چکی تھیں اور امریکہ میں”ڈیمو کریسی“ کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ جنرل جے ایف سی فلر (JFC Fuller) نے اپنی مشہور تصنیف ”کنڈکٹ آف وار“ میں لکھا ہے:”امریکی قانون اور آئین کے نقطہ ¿ نگاہ سے دیکھا جائے تو لنکن بہت بڑا ڈکٹیٹر تھا۔ جونہی1861ءمیں جنگ کا آغاز ہوا اس نے آمریت کے اپنے سارے انداز منظر عام پر رکھ دیئے.... میری لینڈ کے ایک جج کو لنکن کے سپاہیوں کے ایک دستے نے گھیر لیا۔ کورٹ لگی ہوئی تھی اور مقدمات سنے جا رہے تھے۔ فوجیوں نے اس جج کو کرسی سے گھسیٹ کر زمین پر دے مارا اور پھر مار مار کر ادھ موا اور لہولہان کر دیا۔ اور جیل میں بند کر دیا۔“
”دوسری طرف جنوبی ریاستوں کا صدر جیفرسن ڈیویز تھا۔ وہ بھی لنکن ہی کی طرح کا ڈکٹیٹر تھا۔ اَنا پرست اور خود سر تھا۔ نہ کوئی دلیل مانتا تھا، نہ کسی کی بات سنتا تھا اور نہ کسی کی مخالفت برداشت کرتا تھا۔“
تو یہ تھے امریکی ڈیمو کریسی کے عظیم صدور جن پر امریکی قوم آج فخر کرتی نہیں تھکتی۔ میری نگاہ میں ہٹلر کا وزیر اطلاعات، گوئبلز جسے ان امریکیوں نے پراپیگنڈے کا امام قرار دے رکھا ہے ،وہ ان کے سامنے کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ امریکی پراپیگنڈہ مشین اتنی طاقتور اور ”ہمہ صفت موصوف“ ہے کہ اس نے قوت، کمزوری، اچھائی، برائی، نیکی اور بدی کے بالکل نئے معانی اور مفاہیم عام کر رکھے ہیں۔ اور ستم یہ ہے کہ دُنیا ان پر ایمان لاتی ہے۔
ان امریکیوں کا کوئی دین مذہب تو تھا نہیں۔ صرف نام کے کرسچین تھے۔ کام انہوں نے ایسے ایسے کئے کہ اپنی صرف500سالہ تاریخ میں اپنی سیاہی کو سفیدی بنا کر پیش کیا اور نہ صرف پیش کیا ، بلکہ دُنیا والوں سے اس کی توثیق اور تصدیق بھی کروائی۔
جس ایک چیز نے ان کو زمین سے اُٹھا کر آسمان پر بٹھایا وہ ان کی قوت ِ اختراع و ایجاد تھی۔ انہوں نے ایسے ایسے آلات ایجاد کئے جو احساس ِ مروت کو کچل دینے کے کام آئے (اور آ رہے ہیں) ان آلات کا ڈراپ سین ساری دُنیا نے ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی حملوںکی صورت میں دیکھا۔
جو پاکستانی بھی امریکہ جاتا ہے، اس کو اس حقیقت کا سراغ پانے میں ذرا دیر نہیں لگتی کہ وہاں انسانی اوصافِ شریفہ کا قحط اور اوصاف ِ رذیلہ کی فراوانی ہے۔ یورپ میں بسنے والی اقوام تو اب بھی کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی طرح کا،کسی نہ کسی سطح کا کوئی مثبت تہذیبی یا ثقافتی مظاہرہ کر ہی دیتی ہیں،لیکن یہ امریکی قوم ایسی ہے کہ اس کی سنگدلی اور انسانیت سے عاری اقدار کی کوئی انتہا نہیں۔ میرا ایمان ہے کہ خدا نے کائناتی فطرت کو ”مسلمان“ پیدا کیا ہے، فطرت ”کافرانہ عزائم“ کی علمبردار نہیں، اس لئے ایک دن ضرور آئے گا کہ ان امریکیوں کی تہذیب اپنے ہی خنجر سے خود کشی کرے گی۔ فرعونوں کی تاریخ دیکھ لیں اور ان کا انجام بھی دیکھ لیں۔ عصر حاضر کے یہ فرعون بھی اپنے اپنے کیفر کردار کو ضرور پہنچیں گے۔ مَیں اگلے روز ایک امریکی اخبار” دی نیو یارک ٹائمز“ میں ایک خبر دیکھ رہا تھا۔....   (جاری ہے) 

مزید :

کالم -