ہماری باتیں ہی رہیں سیدکام کرتا تھا
اردو ادب میں جس طرح مرزا غالبؒ سے بڑا ادیب اور شاعر نہیں ،اسی طرح مسلمانانِ عالم میں سرسیدؒ سے بڑا مسلح اور مذہبی مجتہد دکھائی نہیں دیا۔میں ان کی ’’تفسیرالقرآن‘‘ پڑھوں یا ’’تبئین الکلام‘‘،’’خطباتِ احمدیہ‘‘ سے مستفید ہوں یا ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے فکر انگیز مضامین سے ،نہ صرف یہ کہ سوچوں کے نئے دریچے کھلتے چلے جاتے ہیں، بلکہ نئے زاویے اور رنگارنگ شگوفے پھوٹتے اور ذہن و شعور کو جگمگاتے و مہکاتے ہیں۔ وہ خرد مندوں اور جدت پسندوں کے اتنے بڑے امام ہیں کہ گویا قائدؒ و اقبالؒ سے لے کر اتاترکؒ تک سبھی ان کے فکری پیروکار ہیں۔پیغمبر اسلام ؐ نے فرمایا تھا کہ ’’بلاشبہ میں تو پیغمبر بنا کر بھیجا ہی اس لئے گیاہوں کہ مکارمِ اخلاق(یعنی تہذیب) کی تکمیل کرسکوں‘‘۔تکمیل دین تو بس میں تھی، سو ہو گئی، لیکن تہذیب انسانی کے ارتقاء کا معاملہ نسل درنسل صدیوں پر محیط تھا،سونشیب و فراز کے ساتھ ارتقاء کا یہ سفر جاری ہے اور جاری رہے گا، لہٰذا پیغمبری عزم کے ساتھ اس کی آبیاری اور سربلندی و سرفرازی کا مشن بھی جاری و ساری رہنا چاہئے۔
سر سیدؒ نے اسی مشنری جذبے کے تحت ’’تہذیب الاخلاق‘‘کا اجراء کیا تھا،جو مابعد لفظوں سے بڑھ کر بالفعل ایک ارتقائی تحریک کی صورت اختیار کر گیا۔سرسیدؒ اس رنگین داستان کی تمہید کیا خوب بیان کرتے ہیں: ’’اس پرچے کے اجراء کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانانِ ہند کو کامل درجے کی سولاہئزیشن (Civilization) یعنی تہذیب اختیار کرنے پر راغب کیا جائے،تاکہ سولائزڈ یعنی مہذب اقوام انہیں جس حقارت سے دیکھتی ہیں،وہ رفع ہو اور مسلمان بھی دنیا میں معزز و مہذب قوم کہلائیں۔ سولائزیشن انگریزی لفظ ہے۔ہم نے اس کا ترجمہ کیا ہے ’’تہذیب‘‘، مگر اس کے معنی نہایت وسیع ہیں۔اس سے مراد ہے انسان کے تمام افعال ارادی، اخلاقیات و معاملات، معاشرت،تمدن اور علوم و فنون کو اعلیٰ درجے کی عمدگی (Excellence) پر پہنچانا ۔انہیں اس خوبی و خوش اسلوبی سے برتنا کہ جس سے سچی خوشی و خوبصورتی پیدا ہو،تمکن و وقار اور قدرومنزلت حاصل کرتے ہوئے وحشیانہ پن اور انسانیت میں تمیز نظر آئے۔یہ بات نہایت سچ ہے کہ کسی قوم کے مہذب ہونے میں اس قوم کے مذہب کا بھی بڑاعمل دخل ہوتا ہے۔ بلاشبہ بعض مذاہب ایسے ہیں کہ وہ تہذیب انسانی کے بڑے مانع(رکاوٹ) ہیں۔پس اب دیکھنا چاہئے کہ کیا مسلمانی مذہب بھی ایسا ہی ہے؟
اس باب میں مختلف آراء ہیں۔ایک متعصب مسیحی مورخ نے ترکی کی سیاحت کے بعد اپنے سفرنامے میں لکھا ہے کہ ’’ترک جب تک مذہب اسلام کو نہیں چھوڑیں گے، تب تک مہذب نہیں ہوں گے، کیونکہ مذہب اسلام انسانی تہذیب کا مانع قوی ہے‘‘۔ سلطان عبدالعزیز خاں سلطان روم(یعنی خلیفہ ترکی) کو، جو بالفصل بادشاہ ہے، اس بات کی تحقیقات مطلوب ہوئی کہ کیا درحقیقت مذہب اسلام مانع تہذیب انسانی ہے یا نہیں؟چند علماء، عقلاء اور وزراء کی کونسل اس امر کی نسبت رائے لکھنے کو مقرر کی گئی، جس کاافسر فواد پاشا تھا۔اس کونسل نے جو رپورٹ لکھی، اس کے دو فقروں کا ترجمہ یہاں تحریر کیا جاتا ہے: ’’اسلام میں وہ سب سچی باتیں موجود ہیں، جو دنیا کی ترقی کو حاصل کرنے والی،انسانی تہذیب اور رحم دلی کو درج�ۂ کمال پر پہنچانے والی ہیں، مگر ہمیں اپنی بہت سی ایسی رسوم و روایات کو چھوڑ دینا چاہئے،جوپچھلے زمانے میں تو مفید تھیں، مگر زمانہ ء حال میں نہایت مضر ہو گئی ہیں‘‘۔ان دونوں آراء میں سے کسی ایک رائے کو سچ کر دکھانا ہم مسلمانوں کے اختیار میں ہے، اگر وہ مہذب اقوام کی مانند اپنے طرزِ عمل سے خود کو مہذب کر دکھائیں، تو فواد پاشا کونسل کی تصدیق کریں گے۔ بصورت دیگر مسیحی مورخ کی تصدیق ہو گی۔
ایک اور انگریزی مورخ ہندوستانی مسلمانوں کی موجودہ حالت کے متعلق لکھتا ہے کہ ’’ہندوستان کے مسلمان ذلیل و خوار ہیں۔ قرآن کے مسئلوں اور ہندوستان کی تو ہم بت پرستی سے مل ملا کر ان کا مذہب ایک عجیب مجموعہ ہوگیا ہے‘‘۔۔۔ہمارے خیال میں فواد پاشا کی رائے اور اس آخرالذکر انگریز مورخ کا بیان دونوں درست ہیں۔ ہم مسلمانوں میں بہت سے پرانے قصے یہودیوں کے اور بہت سے اعتقادات و خیالات کیتھولک کے، جو ایک قدیم مسیحی فرقہ ہے اور جو عرصۂ دراز سے عرب میں بھی موجود تھا۔ بے انتہا رسومات و عادات ہندوؤں کی مل گئی ہیں۔ مزیدبرآں بہت سی باتیں ہماری اپنی طبائع یا غلط فہمیوں نے پیدا کر رکھی ہیں،جو درحقیقت مذہب اسلام میں نہیں ہیں، اسی سبب سے مسلمانوں کی عجیب حالت ہو گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ غیر اقوام ہماری اس ہیئت مجموعی پر قیاسکرتے ہوئے اس مجموعے کو مذہب اسلام قرار دیتی ہیں اور اس کی نسبت حقارت کی رائے رکھتی ہیں،جیسا کہ ایک برٹش مورخ نے لکھا ہے:
’’مسیحیت اس بڑی سے بڑی خوشی کے، جو قادرِ مطلق نے انسان کو بخشی ہے،صرف اس کے موافق و مطابق ہی نہیں ہے ،بلکہ اس کو ترقی دینے والی ہے، اس کے برعکس مسلمانوں کا مذہب اس کو خراب کرنے والا اور پستی میں ڈالنے والا ہے‘‘۔کیا یہ بے عزتی کی بات نہیں ہے کہ ہم غیر قوموں سے ایسے حقارت آمیز الفاظ اپنی نسبت یا اپنے روشن اور سچے مذہب کی نسبت سنیں، لیکن اپنی تہذیب و شائستگی کی طرف متوجہ نہ ہوں۔یہ تبھی ممکن ہے ،جب ہم فواد پاشا کی رائے کو جو علماء و فضلاء کے اتفاق سے لکھی گئی ہے ،اختیار کریں۔
ہوش مندی و نیک دلی سے اپنی حالت پر ازسر نوغور کریں۔ایسی رسوم و روایات جو آج ہم میں موجود ہیں اور وہ مانع تہذیب ہیں، ان کو پرکھیں کہ وہ کہاں سے آئی ہیں اور کیونکر ہم میں مل گئی ہیں۔یہ بُری باتیں ہم میں کیوں پیدا ہوئی ہیں؟ان میں سے جوجو باتیں ناقص، خراب اور مانع تہذیب ہیں،ہم انہیں ترک کردیں اور جو قابل اصلاح ہیں، ان کی اصلاح کریں۔ہر ایک ایسی بات کا ہم اپنے مذہبی مسائل کے ساتھ موازنہ کرتے جائیں کہ وہ ترک یا اصلاح موافق احکام شریعتِ بیضا ہیں یا نہیں؟تاکہ ہم اور ہمارا مذہب دونوں اقوام غیر کی حقارت و رسوائی سے بچیں کہ اس سے زیادہ ثواب کا کوئی کام اس زمانے میں نہیں ہے۔واللہ ولی التوفیق‘‘۔
اسی پس منظر میں اقبالؒ نے کہا تھا:
آئین نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
فکرِ سیدؒ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اقبالؒ اپنی نظم’’سیدؒ کی لوحِ تربت‘‘ میں رقمطراز ہیں:
مدعا تیرا اگر دنیا میں ہے
تعلیم دیں، ترک دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں
سر سیدؒ کی شعوری گہرائی و بلندی ایسی عظمت لئے ہوئے ہے،جو صدیوں طویل سرنگ کے پارکی روشنی دیکھتی ہے، اس لئے ان کے افکار نہ صرف یہ کہ عصرِ حاضر کے زیر بحث موضوعات ہیں، بلکہ صدیوں بعد کے عنوانات ہیں، جب روایتی مسلم شعور ان کے ہم پلہ ہو پائے گا، تب توہمات و روایات کے صدیوں پرانے دبیر پردے پھٹ جائیں گے۔روایتی تعصبات کی تہہ در تہہ بننے والی سنگلاخ دیواریں دیوارِ برلن کی طرح ٹوٹ پھوٹ جائیں گی۔اس وقت سینکڑوں ہزاروں ابدی سچائیاں مسلمہ حقائق بن کر اپنا آپ مسلم شعور سے منوائیں گی۔اگرچہ بہت سے مسلمان صاحبانِ دانش نے سرسیدؒ کی فکری عظمت کا اظہار و اعتراف عصرِ حاضر میں بھی کیا ہے اور تسلیم کیا ہے کہ : ’’مذہبی مصلح کی حیثیت سے سرسیدؒ سب سے پہلے مجتہد تھے،جنہوں نے جدید علم الکلام کی ضرورت کو محسوس کیا۔جب مغرب میں سائنسی و مادی ترقی زوروں پر تھی اوراہلِ یورپ مذہب و سائنس کو دو الگ خانوں میں رکھ چکے تھے ، تب خود مسلمانوں کے دلوں میں ایسے خیالات پیدا ہورہے تھے کہ اسلام خلاف عقل مذہب ہے ۔اس وقت سرسیدؒ نے قران کے تمام مندرجات کو عقل اور سائنس کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کی۔۔۔ (بحوالہ شاہکار انسائیکلو پیڈیا)
جناب انتظار حسین کے بقول:’’جتنی درشت تنقید سرسیدؒ پر ہوئی ہے،شاید ہی کسی دوسرے رہنما پر کی گئی ہو۔ اس حد تک کہ انہیں کافروزندیق بھی قرار دے دیا گیا، مگر جو تقاضا تھا کہ علمی سطح پر اس تصور کو پرکھ کر قبول یا رد کیا جائے، وہ مشکل ہی سے پورا کیا گیا‘‘۔
پروفیسر عمرالدین کا کہنا ہے کہ ’’سرسیدؒ نے ایک نیا علم الکلام پیش کیا اور ایک نئے مذہبی فکر کی تشکیل کی۔ انہوں نے ثابت کیا کہ اسلام کی کوئی تعلیم ایسی نہیں جو عقل اور سائنس کے خلاف ہو یا جو ایک مہذب سوسائٹی میں عمل کئے جانے کے قابل نہ ہو‘‘۔ڈاکٹر ظفر حسن تمام ترمخالفت کے باوجود لکھتے ہیں کہ ’’مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ،جس پر انہوں نے دیرپا اثر نہ ڈالا ہو‘‘۔پاکستان بننے میں بھی ان کے سیاسی نظریات اور کاوشوں کا بڑا دخل ہے،بلکہ یہ کہا گیاہے کہ سب سے پہلے پاکستان کا خواب سرسیدؒ نے دیکھا۔ سرسیدؒ کی وفات کے 8سال بعد ان کے لائق شاگردوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی جو آگے چل کر پاکستان کی بانی جماعت ٹھہری۔ خود قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے تشکیل پاکستان کی جدوجہد میں سرسیدؒ کی علی گڑھ یونیورسٹی کو اپنا اسلحہ خانہ قرار دیا۔یہاں سے ایسے طلباء تربیت پا کر نکلے جو سیاسی میدان کے ماہر ثابت ہوئے۔ یہاں ’’حیات جاوید‘‘ کے ریفرنس سے بہت کچھ لکھنے کو جی چاہ رہا ہے، لیکن ’’تہذب الاخلاق‘‘ کے ذکر سے شروع کی گئی بحث کو نمٹانا ضروری ہے۔۔۔جس طرح اقبالؒ نے اپنے خطبات میں ترکوں کے حوالے سے جدت پسندی کی بحث اٹھائی ہے،ان سے قبل سرسیدؒ نے بھی ترک جدیدیت کو امید بھری نظروں سے دیکھا تھا۔ترک دانشور فواد پاشا کے حوالے سے سرسیدؒ کا پیش کردہ اقتباس معنویت سے لبریز ہے۔۔۔’’اسلام میں وہ سب سچی باتیں موجود ہیں جو دنیا کی ترقی کو حاصل کرنے والی انسانی تہذیب اور رحمدلی کو درجہ ء کمال پر پہنچانے والی ہیں، مگر ہمیں اپنی بہت سی ایسی رسوم و روایات کو چھوڑ دینا چاہے، جو پچھلے زمانے میں تو مفید تھیں، مگر زمانہ ء حال میں نہایت مضر ہوگئی ہیں‘‘۔
یہ اقتباس پڑھتے ہوئے ہمیں رسل کے وہ الفاظ یاد آئے جو انہوں نے مسیحیت کے متعلق بیان کئے تھے ۔۔۔ Miraculous Powers of Christ۔۔۔کا ذکر کرتے ہوئے وہ استدلال کرتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام کے جن معجزات اور مافوق الفطرت کہانیوں کی بدولت ایک زمانے میں مسیحیت دنیا میں عام ہوئی تھی۔ایک وقت آئے گا ،جب لوگ انہی قصے کہانیوں (Myth Dogmas)کی وجہ سے مسیحیت سے دستبردار ہو جائیں گے۔قرآن کے مطابق پیغمبر اسلامؐ نے اپنی پوری زندگی میں معجزات کا سہارا نہیں لیا،بلکہ اپنے آپ کو عام انسان کی حیثیت سے پیش کیا،جس کی بدولت اسلام دیگر مذاہب کے بالمقابل ماڈریٹ دکھائی دیتا ہے۔اسی طرح مسلمان ایک زمانے میں اپنے جن ضوابط پر اظہار تفاخر کر سکتے تھے،آج نہیں تو کل وہ ان سے راہِ فرار اختیار کرنے میں سلامتی و عافیت محسوس کریں گے۔اس وقت سوائے اسلام کے دیگر تمام مذاہب عالم کی اپنے پیروکاران پر مذہبی گرفت ڈھیلی پڑ چکی ہے۔ٹھیک یہی چیلنج بالآخر اسلام کو بھی درپیش ہوگا، اگراس نے اصولی ہدایات پر قانع رہنے کی بجائے ان رسوم و روایات پر اصرار جاری رکھا، جو پہلے زمانے میں تومفید تھیں، مگر زمان�ۂ حال میں نہایت مضر ہوگئی ہیں۔یہ شعوری ترقی و ارتقاء کا نتیجہ ہے۔