دربار حضرت امام صاحب کے حل طلب مسائل
مکرمی! برصغیر کی عظیم روحانی درگاہ حضرت سید امام علی الحق شہیدؒ المعروف حضرت امام صاحبؒ کے دربار کا انتظام و انصرام محکمہ اوقاف کی تحویل میں ہے، جہاں سے محکمہ کو سالانہ کروڑوں روپے آمدن ہوتی ہے، مگر افسوس کہ محکمہ اوقاف نے آج تک درگاہ کی تزئین کی طرف توجہ نہیں دی۔عقیدت مندوں اور نمازیوں کو گوناگوں مسائل ومشکلات کا سامنا ہے اور وہ محکمہ اوقاف سے سخت نالاں ہیں۔ زائرین کی تعداد میں غیر معمولی اضافے کے رجحان کی وجہ سے ایک عرصہ سے درگاہ اور ملحقہ جامع مسجد کی توسیع کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے اور بار بار توجہ مبذول کروانے کے باوجود محکمہ اوقاف کے ارباب اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ درگاہ اور ملحقہ جامع مسجد کو خاطر خواہ توسیع کی خاطر داتا دربار لاہور کی طرز کا نقشہ تیار کرکے اس پر خلوص نیت کے ساتھ عملدرآمد کرایا جائے اور اس ضمن میں حکومت کی جانب سے معقول مالی گرانٹ مختص کی جائے۔
اس منصوبہ پر عملدرآمد آسان اور موثر بنانے کی خاطر صاحبِ ثروت حضرات اور بزنس مینوں کا تعاون بھی حاصل کیا جائے، کیونکہ سیالکوٹ کے بزنس مینوں نے اپنی مدد آپ کے تحت سیالکوٹ انٹرنیشنل ائرپورٹ سمیت دیگر متعدد منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر تاریخ میں سنہرے حروف سے اپنا نام رقم کیا ہے۔ اس توسیعی منصوبے کا نقشہ تیار کرنے کی خاطر شہرت یافتہ آرکیٹیکچر کی خدمات حاصل کی جائیں، تاکہ یہ منصوبہ اپنی مثال آپ ثابت ہو۔ درگاہ پرپولیس چوکی میں لیڈیز پولیس بھی ضروری ہے۔ ملحقہ امام صاحبؒ گراؤنڈ جہاں عیدین اور جمعرات کے میلے کا انعقاد ہوتا ہے اور یہ میدان مختلف مذہبی و سیاسی جلسوں کے انعقاد کے ساتھ ساتھ صدیوں سے میدان کھیل کے طور پر استعمال ہوتا ہے، اس میں صفائی اور سیکیورٹی کا کوئی بندوبست نہیں اور یوں کسی وقت بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آنے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ محکمہ اوقاف نے اس گراؤنڈ کو سالانہ ٹھیکہ پر نیلام کرکے یہاں پر کھیل کود کی سہولت ختم کر دی ہے، جس سے کھلاڑیوں کا استحصال ہو رہا ہے اور شہری محکمہ اوقاف کے اس غیر مناسب طرز عمل پر شدید اضطراب کا شکار ہیں۔ درگاہ کے گردونواح میں منشیات کا دھندہ کرنے والے سماج دشمن عناصر زیارت کے لئے آنے والی سادہ لوح خواتین کو تبرک میں نشہ آور چیزیں ملا کر خواتین کو بے ہوش کرکے انہیں لوٹنے اور اغوا کرنے والے بدبخت اور بدکردار عناصر کی سرکوبی کے لئے حکومت کی جانب سے فوری اور موثر اقدامات اور گرینڈ آپریشن کی اشد ضرورت ہے۔ تبرک میں خواتین کو نشہ آور چیزیں کھلا کر ان سے زیورات اور نقدی چھیننے کی وارداتیں وقتاً فوقتاً ہوتی رہتی ہیں، جس سے درگاہ کا تقدس مجروح ہوتا ہے ۔ بیرونی اضلاع کے زائرین کے لئے لنگر خانے اور آرام گاہ کا فقدان ہے ،جبکہ فری ہسپتال کا اجراء، اسلامک لائبریری اور ملحقہ جامعہ مسجد میں جدید طرز کی دینی درسگاہ کا قیام بھی عرصہ دراز سے محسوس کیا جا رہا ہے اور محکمہ اوقاف کی سرد مہری اور نااہلی کی وجہ سے یہ ضروریات آج تک پوری نہیں ہو سکیں۔ طہارت خانوں، غسل خانوں اور وضوگاہ کی حالت بھی انتہائی تشویشناک ہے اور اس آستانہء عالیہ کے قطعی شایانِ شان نہیں۔
محکمہ اوقاف کے ملازمین کے ساتھ باہمی ملی بھگت کے ذریعے بعض بدقماش عناصر درگاہ کے انکم بکسوں سے ’’چیوگم‘‘ کے ذریعے کرنسی نوٹ نکال کر محکمہ کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ محکمہ اوقاف کا عملہ ان بدقماش عناصر کے سامنے بھیگی بلی بنے رہتے ہیں۔ آج تک محکمہ اوقاف کو اس درگاہ سے جتنی آمدن حاصل ہوتی ہے، اگر اس کا نصف حصہ بھی اس آستانے اور ملحقہ جامعہ مسجد کی توسیع اور تزئین پر صرف کر دیا جاتا تو اس سے محکمہ اوقاف کی نیک نامی ہوتی اور زائرین کے دلی جذبات کی ترجمانی بھی ہوتی۔ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ درگاہ حضرت سید امام علی الحق شہیدؒ پر اور ملحقہ جامعہ مسجد میں جب کبھی ایک معمولی سا بلب بھی فیوز ہو جاتا ہے تو نیا بلب لگانے کی خاطر محکمہ اوقاف کو قطعی توفیق نہیں ہوتی اور یہ سعادت زائرین کے حصے میں آتی ہے۔ زائرین کی جانب سے گاہے بگاہے لگائے جانے والے قیمتی فانوس، قطعات، قالین اور گھڑیاں وغیرہ بھی محکمہ اوقاف کے کارندے اپنے گھروں میں لے جاتے ہیں یا فروخت کرکے پیسے ذاتی جیبوں میں ڈال لیتے ہیں۔ درگاہ اور مسجد سے ملحقہ طہارت خانوں کا ٹھیکہ پر نیلام کرنا زائرین و نمازیاں کے لئے باعث اذیت ہے۔ *