’’یومِ سرسیدؒ ‘‘

’’یومِ سرسیدؒ ‘‘
’’یومِ سرسیدؒ ‘‘

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


آئمہ ء سیاست و صحافت اور ادب و دانش سے ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ ’’یومِ سرسیدؒ ‘‘ اس مملکت خداداد پاکستان میں قومی سطح پر کیوں نہیں منایا جاتا؟۔۔۔یہ تہوار ہر سال آتا ہے اور خاموشی سے اس طرح گزر جاتا ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ذاتی طور پر ہمیشہ میری یہ تمنا رہی ہے کہ 17اکتوبر کو اور کچھ نہ کرسکوں تو بھی سرسیدؒ پر کوئی مضمون یا کالم ہی چھپوا دوں۔تحریک پاکستان والوں سے بھی گزارش کرتا رہتا ہوں کہ اس دن کی مناسبت سے کوئی تقریب منعقد کرتے ہوئے نونہالانِ قوم کو فکرِ سرسیدؒ سے روشناس کروائیں۔اس سال محترم شامی صاحب کی خدمت میں اس حوالے سے تجویز پیش کرتے ہوئے یہ کہا کہ آپ 16اکتوبر کو جناب لیاقت علی خان کے حوالے سے یوم سوگ مناتے ہیں تو 17اکتوبر کو اظہار مسرت وتشکر کے ساتھ’’یوم سرسید‘‘ بھی منا لیا کریں اور یہ کہ بڑے لوگوں کا یوم وفات نہیں، یوم پیدائش منایا جانا چاہیے۔اس لئے کہ بڑی شخصیات تو ہوتی ہی وہ ہیں ،جو مرکر بھی نہیں مرتیں، امر ہو جاتی ہیں۔ (صوفیاء کرام نے اس لئے عرس کو عروس کے معنوں میں لیتے ہوئے رونق میلے سے منایا ہے)، جو اپنے اعلیٰ انسانی افکار اور قومی خدمات کے ذریعے آنے والی نسلوں کو بھی روشنی مہیا کرتی رہتی ہیں۔اس لئے ان کی زندگی محض ایک دور پر نہیں ،کئی ادوارپر محیط ہوتی ہیں۔


بلاشبہ ہر نسل کا یہ پیدائشی حق ہمارے سر آنکھوں پر ہے کہ وہ اپنے معروفات و منکرات کا تعین خود کرے، لیکن ہمارا آج جس طرح آنے والے کل کے ساتھ جڑا ہوا ہے، بالکل اسی طرح گزرے کل سے بھی اس کا ناتہ قطعی طور پر نہیں توڑا جا سکتا۔سرسیدؒ کی تینوں خدمات کا اگر گہرائی کے ساتھ تنقیدی مطالعہ کیا جائے تو وہ کم از کم ہمارے موجودہ تینوں دنوں پر محیط ہیں۔مسلمانانِ جنوبی ایشیا کے لئے اس دانائے راز نے جس طرح پیش بینی کی، وہ ہمارا قومی اثاثہ ہے۔پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریے کو انگریز حکمران کے ذہن میں راسخ کردینے والی شخصیت کا نام سرسیدؒ ہے،جسے مابعد اقبالؒ نے عوامی سطح پر اجاگر کردیا اور قائدنے اس بنیاد پر مقدمہ لڑتے ہوئے یہ خطہ ء ارض حاصل کرلیا۔عصرِ حاضر میں یہ سب کچھ یہ ساری جدوجہد ہمارے ماضی کا درخشاں حصہ و اثاثہ بن چکی ہے، اس میں نظریاتی لحاظ سے اس بزرگ بوڑھے کی حیثیت ہمارے قومی قائد اور باپ دادا کی سی ہے۔


’’میری بوڑھی نگاہیں اس طرح دیکھ رہی ہیں، جو زندہ رہے گا ، وہ آنے والے وقت میں یہ سب کچھ دیکھے گا‘‘۔۔۔تعلیمی خدمات کے حوالے سے اس دور اندیش بزرگ نے ڈیڑھ صدی قبل جو پیش بندی کی اور جس سے مسلمانانِ جنوبی ایشیا بالعموم اور تحریک پاکستان بالخصوص مستفید ہوئے ۔سرسیدؒ کی وہ پیش بندی بجا طور پر آج کے لئے بھی جوں کی توں موجود ہے۔نظام تعلیم کے حوالے سے جدید اور قدیم علوم کی کشمکش میں ہمیں آج بھی وہی مخمصہ درپیش ہے اور اس کا آخری حل آج بھی سرسیدؒ کی تعلیمی پالیسی میں ہی پنہاں دکھائی دیتا ہے۔مغربی علوم اور انگریزی تعلیم سے مزاحمت کا رویہ ہمیں آج بھی درپیش ہے۔بدقسمتی سے طرزِ کہن پر اڑنے والی قدامت پسندی کا علاج آج بھی شاید اس حکیم حاذق کے تجویزکردہ نسخوں اور دواؤں میں موجود ہے،جس سے قومی صحت ماقبل بھی سنبھل کرکامیابیاں حاصل کر چکی ہے۔


سرسیدؒ ہماری قومی زندگی کے کل کا نہیں ،آج کا بھی اسی طرح رہبر ہے اور یہ ہمارے لئے فخر کی نہیں،بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم اڑیل گھوڑے کی طرح آگے کو نہیں پیچھے کو جانے پر بضد ہیں۔ہماری قومی زندگی میں سرسیدؒ مزاحمتی پالیسی کے بالمقابل آج بھی مفاہمتی اپروچ کے داعی و رہنما ہیں۔ ان ہر دو پالیسیوں میں سے کس نے امہ کو ہمیشہ کامیابیوں سے فیض یاب کیا ہے اور کس نے پستیوں میں دھکیلا ہے؟۔۔۔اس کا فیصلہ کوئی بھی نگاہِ بینا زمینی حقائق اور اعدادوشمار کی روشنی میں کرسکتی ہے۔ مستقبل میں ہم نے قومی ناؤ کوآگے بڑھانے کے لئے کس اپروچ کو غالب رکھنا ہے؟ اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا، لیکن بہرحال مفاہمتی نقطہ ء نظر رکھنے والوں کو آئندہ بھی سرسیدؒ جیسے مرشد کی ہدایا ت روشنی فراہم کرتی رہیں گی۔ہماری نظر میں ماضی اور حال کی بیان کردہ ان ہر دو خدمات سے بھی بڑھ کر ان کی حیثیت ایک سچے فطرت شناس مذہبی مصلح کی ہے۔بلاشبہ ان کی یہ خدمت ہمارے آج سے کہیں آگے بڑھ کر ہمارے آنے والے کل کے لئے ہے۔


تسخیر فطرت کے ذریعے ہونے والی ہوشربا نت نئی ایجادات اور جدید سائینٹفک علوم کی جادوئی ترقی جو علمائے مغرب کی شبانہ روز محنت کے باعث نہ جانے مستقبل میں کیا کچھ پیش کرنے والی ہے،روایتی مذہبی علم الکلام اور فلسفہ ء اسلام کو درپیش مستقبل کے اس بہت بھاری چیلنج کا جواب صرف اس رمز شناس مردِ دانا و بینا کے پاس ہے، جس نے اقبال ؒ کے فلسفہ زدہ سیدزادے کو اسلام کے ماڈریٹ ایمان و ایقان پر قانع و مطمئن کردیا۔یہ سرسیدؒ کا ایسا کارنامہ ہے کہ ہماری آئندہ نسلوں کے عقلی برہان و دلائل کا مطالعہ کرنے والے عالمی دماغ بھی سید محترم کے مرہون منت اور احسان مند رہیں گے۔۔۔مذاہب عالم ،بالخصوص تینوں آسمانی مذاہب کے درمیان سیدؒ کی فکرِ رسا نے جو پل تعمیرکردیئے ہیں، اب روایات کا طاقتور مزاحمتی ہتھوڑا انہیں توڑ نہیں سکے گا، بلکہ آنے والے زمانوں کا بڑھتا ہوا انسانی شعور ان پلوں کی توسیع اپنا انسانی و خدائی فریضہ تصور کرے گا۔

مزید :

کالم -