میڈیا اور خبروں کے گھاؤ

میڈیا اور خبروں کے گھاؤ
میڈیا اور خبروں کے گھاؤ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

چیف جسٹس مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی کے حوالے سے یہ خبر پڑھ کر دماغ سُن ہو گیا۔ یا اللہ کیا ہماری عدلیہ اور اس کے جج اب فیصلے کرنے کی بجائے لوگوں کو حکومت کے خلاف اُکسانے اور سیاسی بیانات جاری کرنے پر لگ گئے ہیں۔ ایسے میں مجھے محترمہ بے نظیر بھٹو کی یاد بھی آئی وہ کہا کرتی تھیں کہ اگر ججوں کو سیاست کا شوق ہے تو وہ عدلیہ کو چھوڑ کر سیاست میں آ جائیں۔الحمد للہ حسبِ توقع دوسرے روز اس خبر کی تصحیح کر دی گئی، لیکن میرا خیال ہے کہ عدلیہ کے محترم ججوں کا یہ مقام بھی نہیں کہ وہ برسر عدالت کسی مقدمے کی سماعت کے دوران عوام کو ووٹ کے صحیح استعمال کی نصیحتیں کرنا شروع کر دیں۔ وہ اگر بار کی میٹنگ وغیرہ سے خطاب میں ایسی بات کہیں تو اسے سراہا جائے گا،لیکن کسی مقدمے کی سماعت کے دوران اس قسم کے ریمارکس غلط فہمی بھی پیدا کرتے ہیں، بے جا بھی ہیں اور خواہشوں کو خبر بنانے والے رپورٹروں کو مسالہ فراہم کرنے کا باعث بھی ہے۔ اس خبر کے سلسلے میں رپورٹر نے وہی کیا جو وہ سیاسی تقاریر کے سلسلے میں کرتے ہیں۔ وہ کسی سیاست دان کے ارشادات کے رُخ کو سمجھتے ہیں اُس کی دھار اپنے الفاظ کے ذریعے مزید تیز کر دیتے ہیں، جس سے وہ سیاست دان بہت خوش ہوتا ہے ’’ووٹ کا صحیح استعمال کریں‘‘ کو ’’عوام حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں‘‘ کا لبادہ اگر کسی سیاست دان کے بیان کو پہنایا گیا ہوتا تو دوسرے دن اس سیاست دان نے رپورٹر کو فون کر کے اس کی تعریف بھی کرنی تھی اور کسی دن ناشتے پر ملاقات کی دعوت بھی دے دینا تھی۔
ہماری عا دت ہے کہ ہم ہر بات کو انتہا تک لے جانے کے شوقین ہیں اور ہماری ساری قوم کے گھر سے لے کر مکتب مدرسہ اور فرائض کی بجا آوری کے لئے کوئی تربیت کا تصور ہے نہ کوئی ضابطہ اخلاق ہے۔ہم جو سرخ بتی کا اشارہ توڑنے کو قابلِ فخر سمجھتے ہیں۔ قومی مصالح کا کیا خیال رکھ سکتے ہیں۔ ساری دُنیا میں عدلیہ کے کسی فیصلے کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ ’’عوامی مفاد کے خلاف ہے‘‘، ’’اس سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے‘‘ یا اس سے کسی خرابی کا دروازہ کھل جائے گا‘‘۔۔۔ کوئی معیوب نہیں ہے۔ اسے توہین عدالت نہیں گردانا جاتا۔ امریکہ میں عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد نہ کرنا توہین عدالت ہے۔ہمارے ہاں عدلیہ اس سلسلے میں کچھ زیادہ حساّس واقع ہوئی ہے۔ اگرچہ کئی فیصلوں کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے جیسے جسٹس منیر کا فیصلہ اس کی ایک مثال ہے، تو بھٹو کے مقدمے کے سلسلے میں پیپلزپارٹی اسے ’’عدالتی قتل‘‘ کا نام دیتی ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی میڈیا کے طرزِ عمل کے حوالے سے عدلیہ کی یہ حساسیت شاید مناسب ہے، کیونکہ اگر فیصلوں پر تبصرہ شروع ہو جائے تو عوام کے حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے والوں کے لئے ’’فلڈ گیٹ‘‘ کھل جائے گا اور عدالت بے توقیر ہو کر رہ جائے گی۔ ایسے رپورٹر متاثرہ فریق کو باقاعدہ اکسا کر عدالت اور اُس کے فیصلے کے خلاف بیانات حاصل کر لیں گے۔اِس لئے فیصلوں پر تبصروں کی ممانعت یا انہیں توہین عدالت قرار دینا اِس قدر نامناسب نہیں، جس طرح عدلیہ کے ریمارکس کی رپورٹنگ ہے۔ عدلیہ کے بعض جج بھی غیر مناسب اور غیر متعلقہ ریمارکس دیتے ہیں اور رپورٹر بھی انہیں مرچ مصالحہ لگا کر رپورٹ کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ عدلیہ کو بازیچ�ۂ اطفال بنانے سے بچانے کے لئے ادخال مقدمہ فریقین کے موقف وغیرہ کے بعد فیصلے کی رپورٹنگ ہونا چاہئے، ہر سماعت اور ہر ریمارکس کی رپورٹنگ پر پابندی ہونی چاہئے۔مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی اس غلط روش سے متاثر ہوئے ہیں اس کی سنگینی کو ان سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے مَیں ان سے مودبانہ گزارش کروں گا کہ وہ اس سلسلے میں اقدام کریں اور دوران سماعت کارروائی اور ریمارکس کی رپورٹنگ پر پابندی عائد کریں۔ میری ذاتی معلومات کے مطابق دوسرے ممالک میں دورانِ سماعت عدالتی کارروائی اور ججوں کے ریمارکس کی رپورٹنگ کا سلسلہ نہیں ہے۔


ایک بار نیو یارک میں ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ امریکہ میں جائیداد کے جھگڑے چکانے اور باہمی تنازعات کے لئے ’’سمال کاز کورٹس‘‘ کو عدالت کے زمرے میں نہیں گردانا جاتا۔ اس لئے سمال کاز کورٹس کو تو باقاعدہ ٹی وی شوز بنا دیا گیا ہے۔ ایک اداکارہ کے مرنے پر اُس کی جائیداد کا تنازعہ شروع ہو گیا تو جائیداد کے تنازعے حل کرنے والے مین ہیٹن کے جج کے اس کی سماعت میں دلچسپ ریمارکس کی وجہ سے اس کی حرف بحرف پورٹنگ شروع ہو گئی۔ جج صاحب بعض اوقات کئی کئی منٹ لیکچر دینے لگے۔ ایکٹرس کے لواحقین کو ایک دوسرے کا خیال کرنے اور صلح صفائی کے فوائد گنوانے سے لے کر معاشرے کی اصلاح تک اُن کے لیکچر مقامی چھوٹے سائز کے اخبارات کے لئے ایک دلچسپ مواد بن گیا۔ پھر ایک دن خبر آئی کہ جج موصوف سے نشہ آور مواد برآمد ہوا اور وہ گرفتار ہو گئے ہیں۔


مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی والی خبر سے پہلے ہی ایک انگریزی اخبار کی خبر متنازعہ بنی ہوئی ہے۔ اس خبر کے بعد رپورٹر کا نام ’’ایگزٹ کنٹرول‘‘ لسٹ میں شامل کر دیا گیا۔(اب ختم کر دیا گیا ہے) ہمارے بعض دوستوں کے مطابق حکومت کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ بعض حضرات کو تو اتنا غصہ آیا کہ انہوں نے مطالبہ کیا کہ وزیر داخلہ چودھری نثار اور وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف کا نام ’’ایگزٹ کنٹرول لسٹ‘‘ میں شامل کرنا چاہئے۔ اس خبر کے سلسلے میں بعض باتوں کو خواہ مخواہ خلط ملط کر دیا گیا ہے۔ اپنی نوعیت کے حوالے سے یہ خبر نہایت خطرناک اور قومی مصالح کے سرا سر خلاف تھی۔ اس نے دُنیا کو ہمارے بارے میں بہت غلط پیغام دیا ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ رپورٹر کے ذہن کی اپج اور اُس کی خواہش کا شاخسانہ ہے یا اندر کے کسی شخص نے اُسے گمراہ کیا ہے۔ خبر کے لیک ہونے کا مسئلہ اس لحاظ سے اور اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ حکومت کا موقف ہے کہ اجلاس میں اِس قسم کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ اب اگر کسی نے رپورٹر کو اپنے مقاصد کی خاطر غلط معلومات دیں تو اس سورس کا پتا چلنا چاہئے۔


ہمارے ایک دوست محترم ساتھی نے اسے جوڈتھ ملر کے واقعے سے مشابہت دی ہے۔ یہ بہت حد تک درست ہے،لیکن امریکی صحافی اور امریکی جاسوسی ادارے ایک دوسرے سے ایسے گھلے ملے ہوئے ہیں کہ انہیں جدا جدا پہچاننا مشکل ہے۔ ایک دور میں سی آئی اے نے جا سوسی کیلئے صحافیوں کو باقاعدہ ملازم رکھا ہوا اور اسے امریکہ کے ایک نقال پرندےMocking Bird کے نام سے منسوب کر رکھا تھا۔ جب کئی صحافی کئی ممالک میں جاسوسی کے الزام میں پکڑے اور بعض مارے گئے تو خود صحافیوں نے اس پرا حتجاج کیا، کیونکہ جب یہ بات سامنے آئی کہ صحافیوں کے لبادے میں سی آئی اے کے جاسوس ہوتے ہیں تو بعض بے گناہ صحافی بھی مارے گئے۔1970ء میں اس پر پابندی لگا دی گئی، لیکن پابندی کے حکم میں گنجائش رکھی گئی ہے کہ ضرورت کے وقت اس اصول سے روگردانی ہو سکتی ہے جوڈتھ ملر والے کیس میں خو وائٹ ہاؤس ملوث تھا۔وائٹ ہاؤس عراق کے عظیم تباہی کے ہتھیاروں کی موجودگی کو جواز بنا کر حملہ کرنا چاہتا تھا۔ سی آئی اے کی ایک خاتون اہلکار نے تصدیق کیلئے اپنے شوہر کو بھیجا، جس نے رپورٹ دی کہ عراق میں ایسے ہتھیار نہیں ہیں۔ وائٹ ہاؤس نے اس رپورٹ کے اعتبار کو تباہ کرنے کیلئے یہ شوشہ چھوڑا کہ سی آئی اے کی خاتون اہلکار ویلیری پامے نے اپنے شوہر کو تصدیق کے لئے بھیج کر اقربا پروری کی ہے اور اخلاقی اصولوں کو توڑا ہے۔ وائٹ ہاؤس یا کسی کے لئے بھی حاضر سروس سی آئی اے اہلکار کے نام کا افشا کرنا خلافِ قانون ہے،لیکن وائٹ ہاؤس نے عراق پر حملے کے جواز کی خاطر ویلیری پامے کا نام کسی نہ کسی طریقے سے لیک کر دیا۔ جوڈتھ ملر اس جاسوسی کہانی میں دانستہ شامل تھی یا اُسے شکار بنایا گیا۔ بہرحال جوڈتھ ملر کو ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ کی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اُس نے اپنی سورس کو افشا نہ کیا اور اٹھاون(58) دن جیل بھی کاٹی۔ اس کا کہنا تھا کہ اُس کی سورس اسے پہلے بھی اندر کی سٹوریز دیتی تھی،اس ساری سازش میں اصل ہاتھ خود صدر اور نائب صدر ڈک چینی کا تھا،لیکن اسے سکوئر لبّی پر ڈال کر ختم کر دیا گیا۔صدر جارج بش نے صدارت چھوڑنے سے چند روز پہلے ’’سکوئر لبّی‘‘ کو صدارتی معافی دے دی۔یہ سارا ڈرامہ وائٹ ہاؤس کا تیار کردہ تھا۔ بعد میں جوڈتھ ملر نے اپنی سورس کا انکشاف کر دیا تھا جو کوئی اور نہیں نائب صدر ڈک چینی کا چیف آف سٹاف لیواس المعروف سکوئر لبّی تھا اور کہا جاتا ہے کہ اُس نے وائٹ ہاؤس کے کہنے پر خبر لیک کی تھی، ویلیری پامے کے نام کا انکشاف کیا تھا۔ اس طرح جوڈتھ ملر کی قید بھی محض توہین عدالت کے جرم تک محدود ہو گئی اور سکوئر لبّی کو بھی صدارتی معافی مل گئی۔
ہمارے ہاں چونکہ ہر ’’منفی خبر‘‘ سنسنی پیدا کرتی ہے اس لئے ہم اس پر مکھی کی طرح گرتے ہیں اور بعض رپورٹر اپنی پسند ناپسند کے معاملات کو بھی خبر سے خلط ملط ہونے سے نہیں روک سکتے۔ نیو یارک میں جب مَیں ’’اُردو ٹائمز‘‘ میں فرائض انجام دے رہا تھا تو ایک معروف بزرگ پاکستانی صحافی ہر روز نواز شریف کی حکومت جانے اور مارشل لاء لگ جانے کی خبر لے آتے تھے۔ وہ کسی فوجی گاڑی کے تیزی سے گزرنے کو بھی فوج کی پُراسرار نقل و حرکت اور مارشل لاء کی علامت قرار دیتے تھے۔ وہ اس بات پر مجھ سے لڑتے بھی تھے کہ مَیں اُن کی ایسی زبردست خبر کو کیوں قابل توجہ نہیں سمجھتا وہ بعض اوقات مالک سے بھی شکایت کر دیتے تھے،لیکن جب نواز شریف کی حکومت گئی اُس دن اُن کے پاس کوئی خبر نہیں تھی وہ بھی اُتنے ہی بے خبر تھے جتنے دوسرے لوگ۔۔۔ کہتے ہیں تلوار کا گھاؤ بھر جاتا ہے بات کا گھاؤ نہیں بھرتا۔ بے شک مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی والی خبر کی تصحیح جاری کر دی گئی اور ’’ڈان‘‘ والی خبر کی بھی تردید کر دی گئی،لیکن ان خبروں نے جو اثر مرتب کرنا تھا وہ ہو چکا۔ ان خبروں کے گھاؤ ہماری قومی زندگی اور سیاست کے لئے بے حد نقصان دہ تھے اور رہیں گے۔ مجیب الرحمن شامی کی یہ تجویز بہت احسن ہے کہ معاملہ پریس کونسل کے حوالے کر دیا جائے۔ مجھے پریس کونسل کے اختیارات و محدودات کا علم نہیں ہے،لیکن کیا پریس کونسل از خود ایسی خبروں کا نوٹس نہیں لے سکتی؟ اگر اس مسئلے کو کورٹ کچہری کی بجائے صحافتی سطح پر حل کر لیا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ آئندہ ایسے معاملات میں احتیاط کی بھی اشد ضرورت ہے۔

مزید :

کالم -