ہمارا میڈیا اور اُردو زبان کی تدریس!
میڈیا عہدِ حاضر کا ایک پاور فل ابلاغی انجن ہے۔ اس کے دو روپ ہیں ایک کو پرنٹ میڈیا کہتے ہیں اور دوسرے کو الیکٹرانک میڈیا یا بطور مخفف ای (E) میڈیا بھی کہا جاتا ہے۔ دونوں کا مقابلہ کریں تو ای میڈیا کی رسائی اور اس کا سکوپ، پی(P) میڈیا یا پرنٹ میڈیا سے زیادہ موثر اور وسیع ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ای (E) میڈیا، کم پڑھے لکھے بلکہ اَن پڑھ لوگوں تک بھی رسائی رکھتا ہے اور اس کے سمعی بصری (Audio-Visual) پہلو کسی رسمی تعلیم کے متقاضی بھی نہیں ہوتے۔ انسان چونکہ حیوانِ ناطق بھی ہے اور حیوانِ سامع بھی، اس لئے یہ اگر کسی سکول یا تعلیمی ادارے میں نہ بھی جائے اور لکھنا پڑھنا نہ بھی سیکھے تو پھر بھی ٹی وی کی سمعی بصری نشریات سے بہرہ افروز ہو سکتا ہے۔
پرنٹ میڈیا کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس کے لئے رسمی تعلیم شرطِ اول ہے۔کوئی شخص اخبار یا کسی اور پارۂ تحریر کا اس وقت تک مطالعہ نہیں کر سکتا جب تک وہ رسمی (Formal) تعلیم سے بہرہ یاب نہ ہو۔ ایک اور بات بھی قابلِ غور ہے کہ ہر قاری کی شرحِ تفہیم اس کی شرحِ تعلیم کے ساتھ براہِ راست منسلک ہوتی ہے۔ زیادہ پڑھا لکھا انسان، زیادہ وسیع و عریض موضوعات کا اِکتساب کر سکتا ہے۔اس لئے کسی اخبار یا رسالے کا قاری ٹی وی کے ناظر و سامع سے زیادہ باخبر ہوتا ہے۔یہ بات البتہ دوسری ہے کہ ٹی وی کی مقبولیت اور ہر دلعزیزی افقی کثرت کی حامل ہوتی ہے، عمودی کی نہیں۔کسی معاشرے میں اگر شرحِ خواندگی 100فیصد بھی ہو تو اس میں افقی آئی کیو (IQ) بمقابلہ عمودی آئی کیو، کثرت ہی کی طرف رجحان رکھتا ہے۔تاہم شاذو نادر ایسا بھی ہوتا ہے کہ رسمی تعلیم کے حامل کئی افراد چٹّے اَن پڑھوں کے مقابلے میں زیادہ ذہین نہیں ہوتے!
کہا جاتا ہے کہ آج کی دُنیا سکڑ کر ایک عالمی گاؤں بن گئی ہے، لیکن جہاں تک ابلاغی تفہیم (Understanding) کا تعلق ہے تو یہ گلوبل ولیج کئی ایسی گلیوں اور محلوں میں منقسم ہے جن کا باہمی ربط و ارتباط اگر روزمرہ کا معمول بھی ہو تو بھی ایک محلے کے لوگ، دوسرے محلے والوں کے لئے اجنبی بنے رہتے ہیں۔
اگر دُنیا کی آبادی کو بڑے بڑے لسانی طبقات میں تقسیم کر دیا جائے تو ان طبقات کی تعداد کچھ کم نہیں ہو گی۔ اقوام متحدہ میں جن بڑی بڑی زبانوں کو بار حاصل ہے ان میں انگریزی، عربی، لاطینی، چینی، روسی، سواحلی، اور ہندی شامل ہیں۔ ان سات زبانوں کے بولنے والے گلوبل گاؤں کے گویا سات ایسے محلوں میں رہتے ہیں کہ جہاں ایک محلہ دوسرے کی زبان نہیں سمجھتا۔
ہر چند کہ انگریزی زبان کو ایک بین الاقوامی حیثیت حاصل ہے اور دُنیا کے بہت سے لسانی خطوں اور طبقات میں انگریزی کو بطور ثانوی زبان تدریس کیا جاتا ہے،پھر بھی یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ انگریزی دُنیا کے تمام حصوں میں اتنی رسائی رکھتی ہے کہ اس میں ہر خطے کے باسی دوسرے خطے کے باسی کی بات سمجھنے میں کوئی دِقت محسوس نہیں کرتے۔یہی وجہ ہے کہ دُنیا میں متذکرہ بالا سات زبانوں کے علاوہ درجنوں زبانیں ایسی بھی ہیں جن میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے دریچے ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے دور رہتے ہیں۔
پاکستان اور ہندوستان جس خطے میں واقع ہیں اس کی زبان’’ہندی‘‘ کہلاتی ہے جس کو ہم اُردو اور انڈیا والے ہندوستانی یا ہندی کہتے ہیں۔ان دونوں ممالک کے رسم الخط چونکہ الگ الگ ہیں اِس لئے پرنٹ میڈیا کے قاری ایک دوسرے کے اخباری مواد سے زیادہ تر بے خبر رہتے ہیں جبکہ الیکٹرانک میڈیا کا ہندی ورشن پورے برصغیر میں سمجھا جا سکتا ہے۔۔۔کسی جگہ کم اور کسی جگہ زیادہ۔
ہم برصغیر کے باسیوں کو عالمی حالات سے شناسا ہونے کا موقع جس وسیلۂ اظہار کے توسط سے ملتا ہے وہ لاریب انگریزی زبان ہے۔ انگریزی زبان کا حلقۂ اثر اس لئے بھی وسیع ہے کہ انگریزی بولنے والوں نے 200 برس تک دُنیا کے اکثر ممالک پر حکومت کی اور ان کے دانشوروں نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں انگریزی زبان کو تعلیمی اداروں کی سطح پر بھی اور بطورِ سرکاری زبان بھی حکماً لازمی قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم انگریزی زبان کو اپنی قومی زبان پر ترجیح دینے پر مجبور ہیں۔ آج آپ پاکستان کے کسی بھی شعبے کو لے لیں اس کی اعلیٰ سطح کی باریکیاں اور پیچیدگیاں اتنی ٹیکنیکل نوعیت کی ہو چکی ہیں کہ ہم اگر ان کو اپنی قومی زبان میں ادا کرنا بھی چاہیں تو بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔مثال کے طور پر دفاع، اقتصادیات، سائنس، ٹیکنالوجی، طب، قانون اورانجینئرنگ جیسے جدیدمضامین و موضوعات کو ہم اُردو زبان میں نہ پڑھاسکتے ہیں اور نہ سمجھا سکتے ہیں۔ اور اگر آج ایسا کرنا شروع کردیں گے تو دُنیا سے بہت پیچھے رہ جائیں گے۔
امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، انڈیا، پاکستان، مغربی یورپ کے اکثر ممالک اور مشرق وسطیٰ کے کئی حصوں میں انگریزی بولی، پڑھی اور سمجھی جاتی ہے۔
بعض پاکستانی ہمیشہ یہ دلیل بھی اکثر پیش کرتے ہیں کہ جن ممالک نے ترقی کی نئی منزلیں طے کی ہیں تو کیا انہوں نے انگریزی زبان پڑھ کر طے کیں اور یہ کامیابیاں حاصل کی ہیں؟۔۔۔ کہا جاتا ہے کہ روس، چین، فرانس، جرمنی، ترکی اور اٹلی جیسے ملکوں نے اگر جدید ایجادات میں کوئی اہم کردار ادا کیا ہے تو کیا انگریزی زبان پڑھ اور سیکھ کر کیا ہے؟۔۔۔ اور اگر وہ ممالک ایسا کرسکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کرسکتے؟ ہم اُردو میں وہ سب کچھ کیوں سیکھ اور سکھا نہیں سکتے جو ان ممالک میں ان کی قومی زبان میں سکھایا جاتارہا اور آج بھی سکھایا جارہا ہے؟ مزید دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ ان ممالک میں سب نے اپنی قومی زبان ہی میں دفاعی، اقتصادی،سائنسی اور ٹیکنالوجیکل میدانوں میں حیرت انگیز ترقیاں کیں تو ہم پاکستانی کیوں نہیں کرسکتے؟۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔۔۔
اُردو زبان کے بیشتر جیدّ علما و فضلا اور ماہرین کا ایک بڑا طبقہ اس اصول کو سینے سے چمٹائے بیٹھا ہے کہ ہمیں ہر شعبے اور موضوع کی اصطلاحات و ترکیبات کو پہلے اردو زبان میں ڈھالنا اور پھر اس ڈھالی ہوئی اُردو زبان میں اس کو تدریس کرنا چاہئے!
بس یہی وہ رکاوٹ (Hurdle) ہے جو اُردو کو سرکاری زبان بنانے کی راہ میں حائل ہے۔۔۔۔ اگر ہم اُن مضامین اور شعبہ ہائے زندگی کی وہ اصطلاحیں جو انگریزی زبان میں ہیں (لیکن ہمارا روز مرہ ہیں) تو ان کو اگر جوں کا توں اپنا لیں اور اپنے تعلیمی اور تربیتی اداروں میں دورانِ تدریس ان کو من و عن قبول کرلیں تو اس میں کیا قباحت ہے؟ اگر آج حکومت یہ احکامات جاری کر دے کہ پرائمری یا ثانوی سطح کے سکولوں کی نصابی کتابوں میں تمام ٹیکنیکل اصطلاحوں کو اُردو میں ترجمہ کرنے کی بجائے ویسے ہی اردو میں لکھ دیا جائے تو اس میں کیا ہرج ہے؟۔۔۔
میں اس کی وضاحت ایک مثال کے ذریعے کرنا چاہوں گا۔۔۔ تصور کیجئے کہ لڑائی کا بازار گرم ہے اور گھمسان کا رن پڑ رہا ہے۔ درایں اثنا محاذِ جنگ سے ایک رپورٹ موصول ہوتی ہے جس کا متن یہ ہے:
’’دشمن کے فائر سے ہماری دو میڈیم گنیں اور ایک ایل ایم جی تباہ ہوگئی۔ پھر اس دشمن نے گرنیڈ سے جو حملہ کیا تو 12ڈویژن کے دو این سی او اور دوجے سی اوشہید ہوگئے‘‘۔
اب اگر کوئی اُردو زبان کاوالہ و شیدا اور متوالہ یہ دلیل دے کہ اس فقرے میں فائر، میڈیم گنیں، ایل ایم جی، گرنیڈ، ڈویژن، این سی او اور جے سی او انگریزی زبان کے الفاظ ہیں،ان کو اُردو( اور خالص اُردو) میں ترجمہ کردینا چاہئے تو اس فقرے کی عبارت یہ ہو جائے گی:
’’دشمن کی آگ سے دو عدد درمیانی بندوقیں، ایک ہلکی مشین بندوق تباہ ہوگئی۔ پھر اس نے دستی بم سے جوحملہ کیا تو 12تقسیم کے دو غیر کمیشنڈ افسر اور دو کمتر کمیشنڈ افسر شہید ہو گئے‘‘۔
آپ خود فیصلہ کریں کہ ان دونوں فقرات میں کس فقرے کی عبارت زیادہ قرینِ فہم ہے اور کس کی بے معنی ہو کر رہ گئی ہے۔۔۔ یہی وہ رکاوٹ ہے جو اُردو کو ٹیکنیکل اور پروفیشنل مضامین کو پڑھنے، سمجھنے، لکھنے، لکھانے اور پڑھانے کے عمل میں مانع ہے۔
دُنیا کے وہ تمام ممالک جنہوں نے اپنی قومی زبان میں تکنیکی موضوعات کو سمجھا اور سمجھایا ہے، انہوں نے یہی طریقہ اختیار کیا ہے کہ اصطلاحات کا ترجمہ نہیں کیا، بلکہ ان کو جوں کا توں رہنے دیا گیا ہے اور اپنی زبان میں لکھ دیا گیا ہے اور باقی عبارت کو اپنی قومی زبان میں تحریر کر دیا گیا ہے۔ دوسری طرف ہم ہیں کہ عرصے سے اس ’’عذاب‘‘ میں مبتلا ہیں کہ یا تو ساری عبارت اُردوئے معلی میں ہو یا پھر انگریزی (اور خالص انگریزی) والا متبادل اختیار کیا جائے۔۔۔۔
چین، جرمنی، فرانس، روس اور اٹلی وغیرہ نے اپنے تعلیمی اور پروفیشنل تدریسی اداروں میں ٹیکنیکل اور پروفیشنل مضامین کی وہ اصطلاحیں جو بین الاقوامی پذیرائی حاصل کر چکی ہیں ان کو جوں کا توں اپنی زبان میں املا کر دیا ہے۔۔۔۔ یعنی یہ کیا ضروری ہے کہ اسٹیشن کا ترجمہ ’’مقامِ سکونت‘‘ اور پنڈولم کا ترجمہ ’’لٹکتا لٹو‘‘ ہی ہو۔۔۔ اس طرح تو ساری عبارت غتر بود ہو جائے گی۔
ہماری وزارتِ تعلیم کو اس بات کا نوٹس لینا چاہئے اور ایسی نصابی کتابیں مرتب کروانی چاہئیں جن میں مخلوط، قابلِ قبول اور قابلِ ہضم انگریزی تراکیب و الفاظ اور اصطلاحات و محاورات کو جوں کا توں اردو میں املا کردیا جائے۔۔۔۔ یہ نصابی کتابیں انگریزی میڈیم اور اُردو میڈیم طلباء کی تعلیم و تدریس میں ایک پُل کا کام دے سکتی ہیں!