اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 59
جب مجھے یقین ہوگیا کہ لکڑی کی ڈبی تالاب کی تہہ میں جا کر بیٹھ گئی ہوگی تو میں خاموشی سے اٹھا اور اسی طرح دبے پاؤں چلتا اپنی کوٹھری کی طرف آگیا۔برآمدے میں پہنچا تو اچانک ایک سایہ پیچھے سے نکل کر میرے سامنے آگیا۔ یہ مکار پروہت کپالا تھا۔
’’ تم اسے وقت یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘ اس نے گہری پر اسرار آواز میں پوچھا ۔ میں نے اپنے حواس مجمع کرتے ہوئے کہا کہ مجھے باہر کچھ کھٹکا سا ہوا تھا۔ سوچا کہیں چور نہ آگئے ہوں۔ یہ دیکھنے کیلئے باہر نکلا تھا ۔ پروہت نے میری طرف گھور کر اپنی نیم سرخ آنکھوں سے دیکھا اور کہا۔
’’ شیش ناگ کے مندر میں چور نہیں آسکتے جاؤ جا کر سو جاؤ اور یوں راتوں کو اٹھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘
میں نے ہاتھ جوڑ کر پروہت کو نمسکار کیا اوراپنی کوٹھری میں آکر تخت پر بیٹھ گیا۔ اب مجھے فکر لگی تھی کہ کہین اس کم بخت پروہت نے مجھے تالاب میں ڈبی ڈالتے نہ دیکھ لیا ہو، اور وہ اسے کوئی نادر شے سمجھ کر وہاں سے نکلوانے کی کوشش نہ کرے۔ میں نیم کواڑ سے لگ کر باہر دیکھنے لگا۔ میں نے اندھیرے میں پروہت کپالا کو مندر کے بڑے دروازے میں داخل ہوتے دیکھا تو کچھ دل کو اطمینان ہوا کہ اسے مجھ پر شک نہیں ہوا ورنہ وہ ضرور تالاب کی طرف جاتا ۔ یہ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ میری کوٹھری کی تلاشی لی گئی تھی ۔ جب میں نے شمع روشن کی تو دیکھا کہ میرا بچھونا اتھل پتھل تھا اور صاف لگا رہا تھا کہ کسی نے کوٹھری کی ایک ایک شے کو الٹ پلٹ کر دیکھا ہے۔ میرے لئے یہ سمجھنا کوئی مشکل بات نہیں تھی کہ خود مندر کا پروہت کپالا میری کوٹھری کی تلاشی لینے آیا تھا ۔ اور وہ یہ سوچنے میں حق بجانب تھا کہ اگر میں اسے ایک انتہائی قیمتی ہیرا لا کر دے سکتا ہوں تو میرے پاس مزید ہیرے بھی ہوں گے لیکن محض ایک اتفاق سے ہیروں کا ہار تالاب کی طرف جاتے ہوئے میری قمیض کی جیب ہی میں پڑا رہ گیا تھا۔ مجھے اس قیمتی ہار سے کوئی دل چسپی نہیں تھی لیکن مجھے اس بات کاافسوس ہوا بلکہ پروہت پر غصہ آیا کہ اس نے میرے عدم موجودگی میں چوروں کی طرح میری کوٹھری کی تلاشی لی تھی۔ اچانک مجھے اپنے سانپ دوست قنطور کے مہرے کا خیال آگیا۔ جس وقت میں نے قنطور کے جسم کے ٹکڑے تخت پر سے اٹھا کر لکڑی کی ڈبیا میں ڈالے تے تو سرائے کی کوٹھری میں مجھے قنطور کا مہرہ بھی مل گیا جو میں نے اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ یہاں جب میں شیش ناگ مندر کی اس کوٹھری میں اترا تو میں نے سب سے پہلے یہ کام کیا تھا کہ سانپ کے اس قیمتی ہیرے کو لکڑی کی ایک چوکی کے نیچے اس کی درز میں چھپا دیا تھا۔ میرے لئے اس مہرے کی اہمیت ہیروں کے ہار سے بہت زیادہ تھی۔ چنانچہ میں نے لپک کر کونے میں پڑی چوکی اٹھائی اور اسے پلٹ کر دیکھا ۔ خدا کا شکر ہے کہ قنطور کا مہرہ درز میں موجود تھا۔ میں نے اسے بھی وہاں سے نکال کر اپنی جیب میں سنبھال کر رکھ لیا۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 58پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس واقعے کے ایک ہفتے بعد میں رات کے وقت اپنی کوٹھری میں بچھونے پر لیٹا تھا کہ باہر برآمدے میں کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ اس وقت رات کافی گزر چکی تھی۔ میں نے یہ معمول بنا رکھا تھا کہ رات کو کئی بار اٹھ کر تالاب پر نگاہ ڈال لیتا تھا۔ میں تھوڑی دیر ہوئی دروازے سے ہٹ کر تخت پر آکر لیٹا تھا۔ میں نے دروازے کو اندر سے معمول کے مطابق بند کر لیا تھا۔ قدموں کی چاپ میری کوٹھری کے پاس آکر رک گئی۔ قدرتی طور پر سوائے پروہت کے بھیجے ہوئے چور کے اور کون ہوسکتا تھا جو میرے قیمتی ہار کے پیچھے تھا اور ایک بار پھر میری کوٹھری کی تلاشی لینے آیا تھا۔ میں اس جگہ کسی قسم کی کوئی بھی انتقامی کارروائی نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ مجھے اپنے دوست قنطور کی زندگی بچانے کے لئے یہاں چھ ماہ بڑے امن سے گزارنے تھے۔ میں نے یہی فیصلہ کیا کہ اگرچور دروازے کو کسی طریقے سے کھول کر اندر آگیا تو میں مزاحمت نہیں کروں گا اور بے ہوش بن کر پڑا رہوں گااور اگر چور نے میری جیب سے ہیروں کا ہار نکال بھی لیا تو میں اسے کچھ نہیں کہوں گا۔ اس ہار سے میرے دوست قنطور کی زندگی زیادہ قیمتی ہے۔ چنانچہ میں بچھونے پر آنکھیں بند کئے پڑا رہا۔
میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ چور دروازے نہیں کھٹکھٹایا کرتے۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ وہ دروازہ توڑ کر مجھے قتل کرنے کی نیت سے آیا ہو۔ بہرحال اگر اس نے مجھے پر خنجر یا تلوار کا وار کیا تو پھر اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا تاکہ وہ کسی دوسرے کو یہ بتانے کے لئے زندہ نہ رہے کہ اس نے مجھ پر تلوار کا بھرپور وار کیا تھا مگر مجھ پر ذرا سا بھی اثر نہ ہوا۔ میں اپنی غیر انسانی طاقت کا راز یہاں کسی پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اتنے میں دروازے پر کسی نے بڑی آہستگی سے دستک دی۔ میں خاموش رہا۔ ایک لمحے بعد پھر وہی آہستہ سے ٹھک ٹھک ہوئی۔ میں نے سوچا کہ یہ چور نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اول تو چور دستک نہیں دیا کرتے۔ دوسرے یہ کہ چور اتنی رازداری سے کیوں دستک دے رہا ہے کہ جیسے صرف مجھے بیدار کرنا چاہتا ہے۔ میں بچھونے سے اٹھ کر دروازے کے قریب آگیا۔ لیکن میں نے آواز نہ نکالی اور خاموشی سے کھڑا رہا۔ اس بار دستک کے ساتھ ہی باہر سے کسی عورت کی مدھم سی آواز آئی۔
’’ دروازہ کھولو۔ دروازہ کھولو۔‘‘
میں نے جلدی سے کنڈی ہٹا کر دروازل کھول دیا۔ ایک لڑکی تیزی سے لہرا کی اندر آگئی اور دروازہ بند کر کے اس کے ساتھ لگ کر کھڑی ہوگئی۔ شمع کی روشنی اس کے چہرے پڑ رہی تھی۔ وہ شیش ناگ مندر کی ایک دیوداسی تھی۔ اس دیوداسی کو میں نے پہلے روز شیش ناگ کے بت کے آگے سرجھکا کر گزرتے دیکھا تھا۔ اس نے سیاہ گرم چادر اوڑھ رکھی تھی اور سیاہ بالوں کا جوڑا سا بنا کر پیچھے ڈال رکھا تھا اس کے ساتھ ہی میری کوٹھری میں کستوری اورعنبر کی خوشبو داخل ہوئی تھی جو اس کے جسم اور بالوں سے اٹھ رہی تھی۔ وہ گھبرائی ہوئی تھی اور اس کے خواب آلود ہونٹ نیم وا تھے۔ اپنے سینے پر ہاتھ رکھے وہ پھولے ہوئے سانس کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہی تھی۔ میں تعجب سے اس کی حسین سیاہ آنکھیں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی سوال کرتا وہ سرگوشی میں بولی۔
’’ یہاں سے بھاگ جاؤ مسافر ۔ وہ تمہیں قتل کر دیں گے۔ ‘‘
اس کا سانس ابھی تک پھولا ہوا تھا مجھے وہ بڑی پیاری لگ رہی تھی۔ میں جانتا تھا کہ قیمتی ہار کی وجہ سے مکار پروہت کپالا مجھے قتل یا اغوا کروانے کی کوشش کرے گا تاکہ مجھ سے ہیروں کا ہار برآمد کروا سکے۔ مجھے اس کی پرواہ نہیں تھی لیکن مجھے اس بات کی خوشی ہوئی تھی کہ اس گل غدار حسینہ کو میرا خیال آیا تھا اور وہ میری جان بچانے کے لئے اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر میری کوٹھری میں آگئی تھی۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں مندر میں اپنی منت کے سلسلے میں چھ ماہ تک عبادت کرنے آیا ہوں اوریہاں سے نہیں جا سکتا۔ اس نے کہا۔ ’’ دیوتا ناگ تمہارے حفاظت کرے۔ ‘‘ وہ باہر جانے کے لئے مڑی ہی تھی کہ دروازے کو کسی نے باہر سے دھکا دے کر کھول دیا اور وہ لڑکی دھکا کھا کر میرے سینے سے آلگی۔
چھ پجاری مشعلیں روشن کئے اندر آگئے ان کے درمیان پروہت کپالا قہر آلود نگاہوں سے مجھے اور حسین ناگ داسی کو تک رہا تھا۔ اس نے کڑک کر کہا۔
’’ تم نے اپنی بدمعاشیوں سے مندر کی فضا کو ناپاک کیا ہے۔ تم دونوں کوشیش ناگ پر قربان کر دیا جائے گا۔ ‘‘
ناگ داسی بے چاری غم سے بے ہوش ہوگئی۔ وہ پجاری اسے گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے ۔ پروہت کپالا نے میری تلاشی کا حکم دیا۔ میری جیب سے ہیروں کا ہار اور قنطور کا سبز رنگ کا مہرہ برآمد ہوا۔ کپالا کی آنکھیں خیرہ ہوگئی۔ چلا کر بولا۔
’’ یہ چور بھی ہے اس نے شیش ناگ کے خزانے کا یہ قیمتی ہار بھی چرایا ہے اور یہ سبز پتھر کا ٹکڑا کیا ہے۔ ‘‘
میں نے جلدی سے کہا۔ ’’ یہ میری ماں کی نشانی ہے ۔ یہ اس مالا کا پتھرہے جو اس نے مرتے سمے مجھے یادگار کے طور پر دیا تھا‘‘
قنطور کا سانپ والا مہرہ بڑا بدوضع سا سبز پتھر تھا جس پر کسی کو شک نہیں ہو سکتا تھا کہ یہ سانپ کا انمول مہرہ ہے۔ کپالا پروہت کے حکم سے یہ مہرہ میرے پاس ہی رہنے دیا گیا۔ مگر ہار اس نے اپنے قبضے میں کرلیا۔ پجاریوں نے میرے ہاتھ باندھ دیئے اور مندر کے ایک تہہ خانے میں لے کر جا کر ڈال دیا۔
میں مزاحمت نہ کرنے پر مجبور تھا کیونکہ مجھے ہر حالت میں وہاں رہنا تھا اور تالاب کی نگرانی کرنی تھی۔ اگرچہ اب میں قید میں ڈال دیا گیا تھا اور مکار پروہت میرے ہار پر قبضہ جمانے کے بعد بھی مجھے شیش ناگ پر قربان کر دینے پر آمادہ تھا تاہم میں وہاں فساد برپا کر کے حالات کو اپنے لئے ناساز گار نہیں بنانا چاہتا تھا۔ افسوس تو مجھے اس معصوم ناگ داسی کا تھا جو میری نزدگی بچاتے ہوئے خود موت کے منہ میں پہنچ رہی تھی۔ میں ہر قیمت پر اسے بچانا چاہتا تھا اور یہی کچھ میں تنگ و تاریک تہہ خانے میں بیٹھا سوچ رہا تھا۔
پروہت کپالا مجھے سے جو حاصل کرنا چاہتا تھا اس کو مل گیا ہے۔ یعنی انمول ہیروں کا ہار ۔ لیکن اب وہ مجھے اس لئے موت کے گھاٹ اتارنا چاہتا تھا کہ میں باہر جا کر کسی کو یہ نہ بتا سکوں کہ مجھ سے میرا ہار چھین لیا گیا ہے اور پروہت کی بدنامی اور ہو اور راجہ کہیں سے پروہت کی گدی سے اتارنہ دے۔ مجھے تو فکر نہیں تھی مگر ناگ داسی کا خیال دل کو لگا ہوا تھا۔ بے چاری نے خواہ مخواہ میری خاطر اپنی زندگی خطرے میں ڈال دی۔ اس کا یہ جذبہ بے حد قابل قدر تھا ا ور اس بات کا تقاضا کرتا تاکہ میں اس کی جان بچاؤں لیکن مجھے یہ تک نہیں معلوم تھا کہ اسے کس جگہ قید میں ڈالا گیا ہے اور کیا اسے میری ساتھ شیش ناگ پر قربان کیا جائے گا یا الگ موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ ہمیں شیش ناگ پر کس انداز میں قربان کیا جائے گا۔ تہہ خانے میں مجھے آنکھوں پر پٹی باندھ کر لے جایا گیا تھا لیکن میں بندھی ہوئی پٹی کے اندھیرے میں بھی یہ دیکھ لیا تھا کہ شیش ناگ کے بہت بڑے بت کے چبوترے میں جو دروازہ بنا تھا مجھے اس کی سیڑھیاں اتار کر اس کے اندر بنے ہوئے تہہ خانے میں لے جایا گیا ہے۔
باہر سخت پہرہ لگا دیا گیا تھا۔ میرے لئے وہاں سے باہر نکلنا کوئی مشکل کام نہیں تھا لیکن میں اپنی خفیہ طاقت کا راز کسی پرفاش کئے بغیر اپنی محسنہ ناگ داسی کی زندگی بچانا چاہتا تھا۔ رات بھر میں انہی خیالوں میں کھویا رہا۔ تہہ خانے میں مجھے کچھ احساس نہیں تھا کہ صبح ہوئی ہے کہ نہیں لیکن جب مجھے باہر نکالا گیا تو میں نے دیکھا کہ دن کا وقت تھا لیکن چونکہ مندر کے تمام دروازے پروہت کپالا کے حکم سے بند کر دیئے گئے تھے اس لئے وہاں مشعلیں روشن تھیں مگر چھت کے قریب والے روشن دان سے صبح کی روشنی جھلک رہی تھی۔ شیش ناگ کے بت کے آگے لکڑی کا ایک چوڑا تختہ ڈال دیا گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ناگ داسی کو بھی رسیوں میں جکڑے ہوئے وہاں لایا گیا۔ بے چاری کا موت کے خوف سے برا حال ہو رہا تھا۔ سانپ کی ایک پٹاری لا کر وہاں رکھ دی گئی۔ میں سمجھ گیا کہ ہمیں سانپ سے ڈسوا کر ناگ دیوتا پر قربان کیا جائے گا۔ (جاری ہے )