اللہ والوں کے قصّے۔۔۔قسط نمبر 33

اللہ والوں کے قصّے۔۔۔قسط نمبر 33
اللہ والوں کے قصّے۔۔۔قسط نمبر 33

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حضرت حاتم اصمؒ نے ایک مرتبہ وعظ کے دوران فرمایا ۔ ’’ اے اللہ ! اس مجلس میں جو سب سے زیادہ گناہ گار ہو اس کی مغفرت فرما دے۔ ‘‘
اتفاق سے وہاں ایک کفن چور بھی موجود تھا اور جب رات کو اس نے کفن چرانے کی غرض سے ایک قبر کو کھودا تو اس ندا آئی ۔ ’’ آج ہی تو حاتم کے صدقہ میں تیری مغفرت ہوئی تھی اور آج ہی تو پھر گنہ کے لیے آپہنچا۔ ‘‘یہ ندا سن کر اس نے ہمیشہ کے لیے توبہ کرلی۔
***
حضرت شیخ ابو علی وقاق ؒ کا ابتدائی دور مرو میں گزرا تھا ۔ ایک دن آپ نے شیطان کو رنجیدہ اور سر پر خاک ڈالتے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔ ’’تو نے اپنی یہ حالت کیوں بنا رکھی ہے اور کس مصیبت اورپریشانی نے تجھے یہ حالت بنانے پر مجبور کیا ہے؟‘‘
اس نے جواب دیاکہ میں اللہ تعالیٰ سے جس خلعت کو سات لاکھ سال سے طلب کرتا رہا وہ خلعت اس نے ایک آٹا فروش کو پہنادی۔ ‘‘
اس کا اشارہ آپ کی جانب تھا۔
***

اللہ والوں کے قصّے۔۔۔قسط نمبر 32پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک مرتبہ شام کے سفر میں حضرت ابواسحق ابراہیم شیبانی ؒ کی طبیعت مسور کی دال کھانے کو چاہی۔ آپ اس خواہش کے بارے میں بتاتے ہیں کہ جونہی میں نے اس بات کی خواہش کی اُسی وقت میرے سامنے مسور کی دال سے لبریز ایک پیالہ آگیا جس کو میں نے خوب پیٹ بھر کر کھایا۔
اس کے بعد شام کو جب میں بازار میں سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ ایک جگہ چند مٹکے رکھے ہوئے ہیں اور جب میں نے ان پر غور سے نظر ڈالی تو لوگوں نے مجھے بتایا کہ ان میں شراب بھری ہوئی ہے۔ یہ سن کر مجھے خیال ہوا کہ جب یہ بات میرے علم میں آچکی ہے کہ یہ شراب سے لبریز ہیں تو ان سب کو توڑ دینا میرا فرض ہے۔ اور اس خیال کے ساتھ ہی میں نے تمام مٹکے توڑ ڈالے اور جس کی وجہ سے شراب سڑک پر بہنے لگی اور جس شخص نے مجھے بتایا تھا کہ یہ شراب کے مٹکے ہیں وہ مجھے حاکم وقت تصور کرتے ہوئے چپ ہوگیا لیکن جب اُسے یہ معلوم ہوا کہ میں حاکم وقت نہیں ہو تو وہ مجھے پکڑ کر اینِ طریون کے پاس لے گیا۔
اُس نے پورا واقعہ سننے کے بعد حکم دیا کہ ان کو سوچھڑیاں مار کر قید میں ڈال دیا جائے۔ چنانچہ مجھے سو چھڑیاں مار کر قید میں ڈال دیا گیا۔
میں عرصہ تک قید میں پڑا رہا پھر ایک دن جب حضرت شیخ عبداللہ ؒ کا اس طرف سے گزر ہوا تو اُن کی سفارش سے مجھے قید سے رہا کر دیا گیا اور جب رہائی کے بعد میں اُن کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا۔ ’’ تمہیں کس جرم کی سزا میں قید ہوئی تھی؟‘‘
میں عرض کیا ۔ ’’ ایک دن میں نے شکم سیر ہو کر مسور کی دال کھائی تھی جس کی سزا میں سوچھڑیاں بھی ماری گئیں اور قید و بند کی صورتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ ‘‘ یہ سن کر حضرت عبداللہ نے فرمایا ۔ ’’ تمہارے جرم کے مقابلہ میں یہ سزا تو بہت ہی کم ہے۔ ‘‘
***
شیخ ابو جعفرفر حدادؒ فرماتے ہیں ’’ میں مکہ معظمہ میں مقیم تھا۔ میرے بال بہت بڑھ گئے تھے ۔ بال کٹوانے کے لیے میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ میں ایک ایسے حجام کے پاس گیا جو میرے نزدیک ایک نیک انسان تھا ۔میں نے اس سے کہا۔
’’ خدا کے واسطے میرے حجامت بنا دے۔ ‘‘
اس نے کہا۔ ’’ ہاں ، بہت خوشی سے حاضر ہوں۔‘‘
حجام ایک دنیا دار کی حجامت بنا رہا تھا ، اس کو چھوڑ کو مجھ کو بٹھایا اور میرے بال کاٹ دیئے۔ فارغ ہونے کے بعد اُس نے مجھے ایک بند پرچہ دیا۔ اس پرچہ میں چند درہم تھے۔ وہ مجھ سے بولا۔ ’’ اس سے آپ اپنی دوسری ضروریات پوری کریں۔ ‘‘
میں نے وہ درہم اس سے لے لیے اور دل میں نیت کی کہ آج جو بھی مجھے سب سے پہلے مل کر جودے گا وہ میں حجام کو دے دوں گا۔
اس کے بعد میں مسجد میں گیا، وہاں ایک میرا بھائی اہلِ طریقت ملا۔ اُس نے محبت سے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
’’ تمہارا ایک بھائی بصرے سے یہ تھیلی جس میں تین سو دینار میں تمہارے لیے لایا ہے‘‘ میں نے وہ تھیلی اس سے لے لی اور حجام کے پاس گیا اور اس سے بولا۔
’’ یہ تین سودینار ہیں ۔ انہیں اپنے کاموں میں اللہ کے واسطے خرچ کرو۔ ‘‘
اُس نے جواب دیا ۔ ’’ اے شیخ ! تم کو شرم نہیں آتی۔ تم نے مجھ سے کہا تھا کہ اللہ کے واسطے میری حجامت بنا دو۔ اب میں اللہ واسطے کیے ہوئے کام کی اُجرت تم سے لے لوں ۔ تم یہ لے جاؤ ، خدا تم سے درگزر فرمائے۔ ‘‘
***
ایک دن حضرت ابو علی وقاق ؒ دیدہ زیب الباس میں ملبوس تھے۔ اسی دم شیخ ابو الحسن نوریؒ کہنہ و بوسیدہ پوستین پہنے ہوئے آپ کے سامنے آگئے۔ آپ نے مسکرا کر سوال کیا۔ ’’ اے ابوالحسن ! تم نے یہ پوستین کس قیمت میں خریدی ہے؟‘‘ انہوں نے آپ کوایک ضرب لگا کر کہا۔
’’ میں نے پوری دنیا کے معاوضے میں اس کو خریدا ہے اور یہ مجھے اس قدر عزیز ہے کہ اگر اس کے بدلے میں تمام جنتیں بھی عطا کردی جائیں جب بھی اپنی پوستین نہیں دوں گا۔ ‘‘یہ جواب سن کر آپ نے روتے ہوئے فرمایا۔’’ آج سے کبھی کسی درویش سے مذاق نہیں کروں گا۔‘‘
***
شیخ بدرالدین غزنویؒ سن رسیدہ تھے اور بہت ضعیف ہوچکے تھے۔ لوگوں نے عرض کیا۔ ’ شیخ بوڑھے ہوچکے ہیں رقص کس طرح فرماتے ہوں گے؟‘‘آپ نے سنا تو جواب دیا۔ ’’ شیخ رقص نہیں کرتا۔ ییہ عشق رقص کرتا ہے ۔ جہاں عشق ہے وہاں رقص ہے۔‘‘ (جاری ہے)

اللہ والوں کے قصّے۔۔۔قسط نمبر 34 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں