ضمنی انتخابات سے حکومتی کارکردگی تک

ضمنی انتخابات سے حکومتی کارکردگی تک
ضمنی انتخابات سے حکومتی کارکردگی تک

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان میں ضمنی انتخابات کی گرد بیٹھ چُکی ہے۔ حسب معمول تحریک انصاف اور اپوزیشن اپنی اپنی فتح کا شور مچانے میں مصروف ہیں۔ کُل ملا کر اگر دیکھا جائے تو مُسلم لیگ ن نے اس دفعہ اچھی پر فارمنس کا مظاہرہ کیا ہے۔ حالانکہ نو از شریف اور مریم نواز سیاست میں زیادہ متحرک نظر نہیں آئے۔ لیکن نواز شریف لاہور میں موجودگی اور شہباز شریف کی گرفتاری نے اپنا اثر د کھایا اور مُسلم لیگ کو قومی اسمبلی کے چار حلقوں میں کامیاب کر وایا۔ لیکن اس دفعہ کے الیکشن میں یہ بات صاف نظر آئی کہ الیکشن کمیشن کی کار کردگی سابقہ کار کردگی سے بہر حال بہتر تھی۔
الیکشن کمیشن عوامی خود مخُتار ادارہ ہے۔ جس کی کار کردگی پر کوئی بھی تنقید کر سکتا ہے۔ ہم نے دیکھا کے قومی انتخابات کے موقعہ پر الیکشن کمیشن کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم اس بار الیکشن کمیشن کی کار کر دگی پہلے کی نسبت خاصی اچھی رہی۔ ہمیں اچھے کام پر اداروں کو شاباش بھی دینی چاہئے تاکہ وُہ مزید اچھے ڈھنگ سے اپنا کام کر سکیں۔ کالم نگاری کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ہر شے کو تنگ نظری سے دیکھا جائے۔ مثبت اور اچھے کام کی تعریف کرکے ہمیں اپنے مُلک کے اداروں اور اہلکاروں کی حوصلہ افزائی بھی کرنی چاہئے۔
بعض لوگوں کے خیال کے مُطابق تحریک انصاف کی انتخابات میں کارکردگی کا فی کمزور رہی ہے۔ ناقدین اس کو حکومت کی ناقص کار کردگی پر محمول کر رہے ہیں۔ کُچھ لو گ کہتے ہیں کہ حکومت میں موجود وزراء نے بھانت بھانت کے بیانات دے کر عوام کو گُمراہ کر دیا۔ جس کو وجہ سے عوام حکومت کی کار کردگی سے مایوس ہوئے اور اُنہوں نے ووٹ مُسلم لیگ ن کو ڈالا۔ایک رائے یہ بھی ہے کہ حکومت مہنگائی کے عفریت کو قابو نہیں کر سکی۔ بجلی اور پٹرول کی قیمتوں کے اضافے نے عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ عوام کا گُمان تھا کہ عمران خان صاحب کے اقتدار میں آنے سے اُن کی تقدیر چشم زدن میں بدل جائے گی۔
سعودی عرب کے ہنگامی دورے سے بھی عوام نے بہت ساری امیدیں وابسطہ کر لیں تھیں۔ عوام اس دورے اور سعودی حکمرنوں سے مُلاقاتوں کانتیجہ فوری طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ سعودی وفود پاکستان میں آئے اور بلا شُبہ انہوں نے پاکستان کی حکومت سے کئی عد د معاہدے بھی کئے۔ خاص طور پر سعودی عرب کی سی پیک میں شمولیت پاکستان کے لئے بہت اہم ہے۔ لیکن ایک بات ہمیں ذہن میں رکھنی چاہئے کی ایسے معاہدوں سے پاکستان کو کئی سالوں کے بعد فائدہ ہوگا۔ ان معاہدوں سے فی الفور پاکستان کی معشیت پر کوئی مثبت اثر نہیں پڑنے والا۔ ہم جذباتی قوم ہیں۔ ہم خوابوں کو دیکھتے ہیں اور اُن کی تعبیر بھی اُسی وقت دیکھنے کے متمنی رہتے ہیں۔ ابھی حکومت نے اپنے سو دن بھی مکمل نہیں کئے اور ہم سب حکومت کو ناکام قرار دینے میں راحت محسوس کرتے ہیں۔ پاکستان آئی ایم یف کے پاس کبھی نہیں جائے گا؟ یہ بیان جس نے بھی کبھی دیا تھا وُہ نہایت غیر سنجیدہ قسم کا سیاستدان تھا۔ و ز یر خزانہ اسد عمر صاحب کے مُطابق یہ بیاں انہوں نے نہیں دیا۔ اُنہوں نے خیال ظاہر کیا کہ عین ممکن ہے کہ ایسی بات عمران خاں صاحب نے کی ہو۔ بلکہ اخباری بیانات کے مُطابق اسد عُمر نے سابقہ وزیر خازنہ جناب اسحاق دار صاحب کی پالیسیوں کی تعریف کی اور اُن کے بین الاقومی مالیاتی ادارے سے قرضہ لینے کے عمل کو جائز اور دُرست قرار دیا۔ لیکن ہمیں یہ بات ذ ہن میں رکھنی ہو گی کہ قرضوں کی پاکستان کو اس لئے ضرورت پڑی کہ سابقہ حکومتوں نے مُلکی صعنت اور پیدوار کو بڑھانے میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔
مہنگی شرح سُود پر قرضے لئے۔ وُہ ترقیاتی منصوبے جن کے لئے قرضے لئے، اُن میں شیدید قسم کی کرپشن ہوئی۔ حال یہ تھا کہ جو بھی مال کسی کے ہاتھ لگا، اُس نے باپ کا مال لُوٹ کر اُس کا کھانا اپنا حق سمجھا۔ کرپشن مُسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ادوارِ حکومت میں کرپشن مسلسل ہوتی رہی۔ کرپشن کو کنٹرول کرنے کے لئے کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کیا گیا۔ مُسلم لیگ ن نے مریم نواز ، نواز سریف اور کیپٹن صفدر کو بے گُناہ اور معصوم ثابت کرنے کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیں۔ حکومت کی کار کردگی بہتر بنانے، بجلی ،پٹرول کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور مُلکی پیدوار کو بڑھانے کے لئے کُچھ خاص کام نہیں کیا۔
میاں برادرز کو ترقیاتی کاموں میں اس لئے دلچسپی ہے کہ اُن کو کک بیکس کی شکل میں موٹی رقم مل جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، وُہ اپنے منظور نظر د وستوں میں ٹھیکے بانٹ کر الگ سے کمشن بنالیتے ہیں اور د وستوں کو ممنون بھی کرلیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام اُن کو کرپٹ تسلیم کرکے بھی اُنکے حق میں ووٹ دیتے ہیں۔نیب کی ا بتدائی تفتیش کے مُطابق خادم اعلٰی نے اربوں روپے کے ٹھیکوں میں گھپلے کئے۔ غیر قانونی طور پر اپنوں کو نوازنے کے لئے ٹھیکوں کو منسوخ کیا۔ اپنے ماتحتوں سے غیر قانونی کام کروائے۔ چھ مہینے میں بجلی دینے والے پانچ سال میں بھی بجلی فراہم کرنے کا وعدہ پورا نہ کر سکے۔ اپنی کمزور کار کردگی اور بے ایمانی کو چھُپانے کے لئے یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ یہ سب کُچھ سیاسی نا انتقام کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ سعد رفیق، سلمان رفیق کے خلاف نیب میں انکوائری چل رہی ہے۔ دونوں بھائی گرفتاری سے خو ف ز دہ ہیں۔ قبل از گرفتاری سے بچنے کے لئے اپنی ضمانتوں کا نتطام کر رہے ہیں۔ یہ مقدمات عمران خان کی حکومت میں دائر نہیں کئے گئے بلکہ مُسلم لیگ ن کی اپنی حکومت کے دوران درج کئے گئے تھے۔ ان مقدمات کا ملبہ عمران خان کی حکومت پر ڈالنا غیر
مُنا سب ہے۔
ہم پہلے بھی اپنے کالموں میں عرض کر چُکے ہیں کہ حکومت کے وزراء کی طر ف سے دئے گئے اخباری بیانات اور غیر حقیقی انداز میں ٹی وی چینل پر کئے گئے تبصروں نے سیاسی صورت حال میں ابہام پیدا کیا ہے۔ حکومت کے نمایندوں کو بیانات دینے سے پہلے اعدا و شمار کو متعلقہ محکمہ سے حاصل کرکے پھر تبصرہ کرنا چاہئے۔ تحریک انصاف کرپشن ختم کرنے کے لئے خلوصِ دل سے کوشش کر رہی ہے لیکن یہ بات ہمیں ذہن میں رکھنی چاہئے کے دوسرے ممالک سے رقوم کو واپس اپنے مُلک میں لانا سہل نہیں ہے۔ رقوم کو واپس لانے کے راہ میں کئی قانونی رکاوٹیں ہیں۔ جن کو حل کرنا ہرگز آسان نہیں ہے۔ بعض اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ مطلوبہ رقم سے زیادہ اُس کو قانونی طور پر حاصل کرنے کے لئے ہمیں جیب سے پہلے خرچ کرنا پڑے گا۔ جو کہ بہر طور قومی خزانے پر بُوجھ ہوگا۔ ایسے کیسز وقت اور پیسے کے ضیاع کے علاوہ کُچھ بھی نہیں۔ کرپش کو ختم کرنا ایک دیر اور وقت طلب عمل ہے۔ معیشت کو بھی جادو کی چھڑی سے ایک دن میں ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ عمران خان نے کرپشن کے خاتمے کی بیخ کنی کے لئے راہ ہموار کر دی ہے۔ جس کے اثرات آنے والے وقتوں میں بے حد مُفید ہوں گے۔ نئی حکومت کو ا پنی کار کردگی پر توجہ دینی ہو گی۔ پنجاب حکومت سے جو اُمیدیں قیادت نے باندھ رکھی تھیں وُہ تا حال پُوری نہیں ہو سکیں۔ عثمان بُزدار صاحب نہایت ایماندار اور محنتی سیاستدان ہو سکتے ہیں لیکن افسوس کہ اب تک اُن کی کار کردگی سوائے عمران خاں صاحب کے کسی کو متاثر نہیں کر سکی۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -