تاریخ کا آئینہ اور حالیہ تحریک؟
بزرگ سیاست دان نوابزادہ نصر اللہ خان (مرحوم) سے بات چیت ہوتی رہتی اور ہم جیسے اخبار نویس ان کے ڈیرے (نکلسن روڈ) پر جا کر راحت ہی محسوس کرتے تھے کہ نہ صرف حالاتِ حاضرہ پر گفتگو ہو جاتی،بلکہ خبر بھی مل جایا کرتی تھی، نوابزادہ نصراللہ خان کو یہ مّلکہ حاصل تھا کہ وہ ایک سے ایک نیا اتحاد بنا لیتے اور حریفوں کو حلیف بنا دیتے تھے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ جاری اتحاد کو نئے اتحاد میں تبدیل کرتے وقت نام کی تبدیلی کا بھی مسئلہ نہ ہوتا اس کا اندازہ یوں لگا لیں کہ ایم آر ڈی سے اے آر ڈی اور پھر پی ڈی اے بن جاتا تھا،یعنی ”تحریک بحالی جمہوریت“ سے ”اتحاد برائے بحالی جمہوریت“ اور پھر ”عوامی جمہوری اتحاد“ یوں آخری سانس تک وہ ایسے ہی کارنامے انجام دیتے رہے،ایسی ہی ایک محفل میں پوچھا:”محترم! آپ نے اپنی پوری زندگی میں تحریکیں چلائیں اور آپ کی ہر تحریک آمریت کے خلاف بحالی ئ جمہوریت کے لئے ہوتی،لیکن ہوتا کچھ یوں تھا کہ آپ آمریت کے خلاف جدوجہد کرتے اور جمہوریت آ جاتی تو پھر اس جمہوریت کو آمرانہ کہہ کر نئی تحریک شروع ہو جاتی اور نتیجہ ایک نئی آمریت کی مشکل میں نکلتا،اور کچھ عرصہ بعد آپ کو اس آمریت کے خلاف نئی تحریک شروع کرنا پڑتی۔
انہوں نے ایسی باتوں کا بُرا کبھی نہ منایا اور جواب دیتے کہ ہمارا مشن جمہوریت کی بحالی ہے اور جونہی آمرانہ سلسلہ شروع ہو،ہم جمہوریت کے لئے جدوجہد شروع کرتے ہیں،اس سلسلے میں ان کی بڑی دلیل یہ تھی کہ اگر ملک میں انتخابات اور انتقالِ اقتدار کا سلسلہ شروع ہو جائے تو تین چار بار ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں عوام بھی باشعور ہو جائیں گے اور رہنما بھی بہتر ملیں گے، ان کے یقین کے مطابق پارلیمانی جمہوریت ہی بہترین نظام تھا۔
آج کے حالات میں جب مرحوم سے ہونے والی ایسی گفتگو یاد آتی ہے تو یہ بھی خیال آتا ہے کہ اب تو دو بار کے بعد تیسری مرتبہ بھی انتخابات ہوئے،پہلی دونوں اسمبلیوں نے مدت پوری کی اور پُرامن انتقالِ اقتدار ہوا،اب تیسری کو سوا سال ہونے کو آیا ہے تو یہاں حالات میں پھر سے اس دور والی کیفیت پیدا ہو گئی ہے، جب حکومتیں بدلتی اور آمریت آتی تھی، آج کل جمعیت علماء اسلام (ف) کے مولانا فضل الرحمن کا چرچا ہے، جو 1977ء والے نعرے ”انتخابی دھاندلی“ کے الزام کی بنیاد پر حکومت کی تبدیلی اور نئے انتخابات چاہتے ہیں، اس کے لئے وہ ”آزادی مارچ“ کا پروگرام بھی دے چکے ہیں،آج جب حالات پر نظر ڈالی جائے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ شاید اب کوئی پرانی تاریخ نہ دہرائی جا سکے۔
اکثر حضرات یہ خدشات بھی ظاہر کرتے ہیں کہ اس سارے سلسلے میں ایک کی چونچ اور ایک کی دُم ہی نہ غائب ہو جائے اور مزہ لینے کوئی اور آ جائے،اس حوالے سے فرزند ِ راولپنڈی بہت تیز جا رہے ہیں اور دوسروں کی جماعتوں اور نقل و حرکت کے حوالے سے دلچسپ اور طنزیہ جملے پھینکتے اور پیش گوئیاں کرتے رہتے ہیں، عوام منتظر ہیں کہ ان کی کہی باتیں پوری بھی ہو جائیں؟
جہاں تک تحریکوں کے نتیجے میں ماضی والی تاریخ جیسی تبدیلی کا مسئلہ ہے تو شاید حالات حاضرہ میں ایسی کوئی صورت نہ ہو کہ آج کل ایک صفحہ کا بہت تذکرہ ہے اور عملی شکل بھی نظر آتی ہے، اِس لئے ایسا کوئی خطرہ دکھائی نہیں دیتا۔البتہ شیخ رشید کی اِس بات کو سمجھنے کی کوشش ضرور کرنا چاہئے کہ بات چیت ہو رہی ہے اور اسی سطح پر ہو رہی ہے، جس طرح کے لوگ کر رہے ہیں،جو مولانا کو منا سکتے ہیں،اِس لئے مولانا اسلام آباد نہیں آئیں گے،اس حوالے سے کچھ فرض کیا جا سکتا ہے تو محترم فرزند ِ راولپنڈی کی اس بات سے خود برسر اقتدار حضرات ہی کو فکر مند ہونا چاہئے کہ مولانا کی بھی رسائی ہے اور اگر ایسا ہے تو پھر مولانا کو بھی بھروسہ ہو گا کہ اتنا بڑا قدم اُٹھا رہے ہیں۔
اس صورت میں کسی ایسی تبدیلی کا تو خدشہ نہیں،البتہ یہ بات درست اور حقیقت کے قریب ہے کہ ان حالات کی وجہ سے پہلے سے خراب تر معاشی حالت مزید خراب ہو گی اور معاشرے میں بھی بے چینی اور اضطراب میں اضافہ ہو گا،جو انارکی جیسی کیفیت کا سبب بن سکتا ہے،ہمارے خیال میں مولانا فضل الرحمن1977ء والے نوجوان سے اب بوڑھے ہو چکے اور تمام تر سفید بالوں کے ساتھ تجربہ کار بھی بہت ہیں،اِس لئے انہوں نے سب کچھ سوچ لیا ہو گا،اِسی لئے تو وہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی بات مان کر تحریک یا مارچ کو ایک دو ماہ تک موخر کرنے پر راضی نہیں ہوئے،
اور از خود آزادی مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دیا،جس کا واضح مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ جس نے آنا ہے آ جائے پھر نہ کہے کہ گاڑی چھوٹ گئی،چنانچہ ان کو یہ فائدہ ہوا کہ اب دونوں بڑی جماعتوں نے مکمل حمایت کا اعلان کر دیا ہے تاہم اب جو کنفیوژن باقی ہے وہ طریق ِ کار کا ہے کہ مارچ میں شرکت کس بنیاد پر اور طریقے سے ہو گی،کیونکہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی دونوں ہی دھرنے میں شرکت سے مکمل اجتناب کی راہ پر ہیں اور اب یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ شاید مولانا فضل الرحمن بھی ایک بڑے جلسے پر رضا مند ہو جائیں اور دھرنا موخر کر دیں۔
ابھی تک بعض باتیں واضح نہیں ہو پا رہیں۔مسلم لیگ(ن) نے مارچ میں شمولیت کا اعلان رہبر سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کے اعلان اور خط کی روشنی میں کر دیا، لیکن طریق ِ کار یہاں بھی طے نہیں ہوا،اس کے لئے مسلم لیگ(ن) کے مرکزی صدر محمد شہباز شریف نے مولانا سے مل کر بات کرنا تھی اور وہ آج (بدھ) جانے والے تھے۔بدھ کا مقصد یہ تھا کہ مولانا سے بات کر کے جمعرات کو محمد نواز شریف سے ملتے، جو اب نیب کی حراست میں ہیں۔یہ ملاقات طے شدہ تو نہیں کہ جیل میں ہوتے ہوئے ہفتہ میں ایک روز ملاقات والا دن جمعرات تھا،اب وہ (شہباز) 18اکتوبر(جمعہ) کو ملیں گے اور تفصیل سے بات کے بعد ہی بڑے بھائی سے بات کر سکیں گے، اور اعلان کریں گے،جس سے کنفیوژن دور ہو، اگرچہ جنرل سیکرٹری احسن اقبال کہتے ہیں کہ ہر بات صاف ہے،کوئی ابہام نہیں ہے۔
اب ذرا عوامی سوچ کا اندازہ لگا لیں، پہلی بات تو یہ کہ تاحال عوامی سطح پر کوئی بڑی ذہنی تبدیلی نہیں آئی کہ کارکن ہچکچائیں،مسلم لیگ(ن) والے جوں کے توں ہیں اور پیپلزپارٹی والے بھی اپنے حجم کے حساب سے موجود ہیں اِس لئے مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کو روکنے کے لئے کارکنوں کی حد تک صورتِ حال ماضی جیسی ہے،لیکن عام آدمی کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ بالکل الگ تھلگ اور اپنی روٹی کے چکر میں باہر نکلنے کا ارادہ نہیں رکھتے،لیکن گزشتہ سوا سال میں تبدیلی نے ان کے ہونٹوں سے جو مسکراہٹ چھینی اور اب وہ ایک سے آدھی روٹی تک آ گئے ہیں،مہنگائی کم تو کیا ہوتی بڑھتی چلی جا رہی ہے،بے روزگاری میں اضافہ ہوا اور دن بدن ہوتا جا رہا ہے، اس پر چودھری فواد چار سو ادارے بند کرنے کی بات کرتے ہیں تو عوامی ذہن کی حالت کا اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے کہ پہلے ہی روزگار ملنے کی بجائے ہر روز روزگار کے ذرائع کم سے کم تر ہوتے چلے جا رہے ہیں،اِس لئے اب لوگ تبدیلی کے خلاف تبدیلی ضرور چاہتے ہیں۔