شہید پاکستان وہ مرد پاکستان جس کا ایک ایک سانس پاکستان کے لئے تھا
مجیب الر حمٰن شامی
حکیم محمد سعید دہلویؒ کا آخری اعزاز یہ تھا کہ وہ شہادت کے مرتبے پر فائز ہو گئے۔ وہ ناقابل تسخیر اور ناقابل شکست سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری اور کبھی ہتھیار نہیں ڈالے۔ جن اصولوں اور ضوابط کو چلن بنایا تھا، پوری زندگی ان پر کاربند رہے۔ ہتھیار ڈالنے اور ہاتھ اٹھانے سے واقف ہی نہیں تھے۔ آگے بڑھنے اور بڑھتے چلے جانے ہی میں ان کو مزہ آتا تھا۔ وہ خالی ہاتھ پاکستان آئے تھے لیکن دولت کے انبار جمع کرکے لوگوں کو حیران کیا۔ اس دولت کو قوم کے لئے وقف کرکے مزید حیران کر دیا۔ اپنے لئے کچھ کمایا، نہ بنایا۔ ان کا سب کچھ قوم کے لئے تھا۔ ہمدرد پاکستان کو فلک بوس بنا ڈالا۔ طب مشرق کو مقام عزت و رفعت عطا کر دیا۔
مدینۃ الحکمت بسایا` ملک کے اہل دانش کو ہمدرد شوریٰ کے دھاگے میں ایک جا کر دیا` بچوں کو خصوصی توجہ کا مرکز بنایا۔
وہ طبیب بھی بے مثال تھے اور خطیب بھی منفرد۔ ان کا شمار اخبار نویسوں میں بھی کیا جا سکتا تھا، اور ادب کے آسمان کے بھی وہ روشن ستارے تھے۔ وہ ممتاز سیاح بھی تھے اور استقامت کے پہاڑ بھی۔ مقامی بھی تھے اور مہاجر بھی۔پاکستانی بھی تھے اور بین الاسلامی اور بین الاقوامی بھی۔ پاکستان سے باہر پاکستان کی پہچان تھے اور پاکستان کے اندر اس کے نظریے کے پاسبان تھے۔
ہر طرح کے جماعتی اور گروہی تعصب سے بالاتر۔ لالچ اور ہوس سے نا آشنا۔ ان کی طرح کی شخصیات پاکستان میں کم ہی نہیں، بہت کم ہی نہیں، نایاب ہو کر رہ گئی ہیں، جن پر پوری قوم اعتماد کر سکے اور پوری قوم فخر کر سکے۔
حکیم صاحب نے علم اور حکمت کی شمع جلائے رکھی۔ وہ معاشرے کا ضمیر بن کر زندہ رہے۔ سب کو ٹوکنے والے، سب کو روکنے والے اور سب کے مفاد میں سوچنے والے وہ سب کو اپنا سمجھتے تھے اور سب انہیں اپنا سمجھتے تھے۔ وہ کراچی سے اٹھنے والی لسانی اور نسلی دہشت گردی کے خلاف چٹان بنے ہوئے تھے۔ اس کو للکار رہے تھے اور اس پر ضرب کاری لگا رہے تھے۔ دلوں اور دماغوں میں اس کے خلاف ردعمل ابھار رہے تھے۔ انہوں نے سر ہتھیلی پر رکھ لیا تھا اور سر پر کفن باندھ لیا تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ وہ خونخواروں کے غول میں کھڑے ہوئے ہیں لیکن شکست کا لفظ ان کی لغت میں نہیں تھا۔ خونی درندے ان پر حملہ آور ہوئے، ان کی جان لے لی لیکن حکیم صاحب نے اپنے قاتلوں کو یوں مایوس کر دیا کہ مرکر بھی نہیں مرے۔ جو کام ان کی زندگی میں نہیں ہو سکا تھا، ان کی موت نے کر دکھایا۔ حکمران خواب غفلت سے بیدار ہو گئے۔ انہیں وہ کرنا پڑا، جس کا مدت سے مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ حکمران خواب غفلت سے بیدار ہو گئے۔ انہیں وہ کرنا پڑا جس کا مدت سے مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ کراچی میں تخریب کاروں کا تعاقب شروع ہوا اور زمیں بوس ایوان عدل کی افواج پاکستان کے تعاون سے تعمیر شروع ہو گئی۔ مہاجر قوم کی دہائی دینے والے اس اعظم مہاجر کا خون اپنے ہاتھوں سے اتار پا رہے ہیں، نہ چہرے سے۔ اس خون نے ان کا منہ کالا کر دیا اور پاکستان کا مستقبل تابندہ کر دیا ہے۔ وہ مرد پاکستان جس کا ایک ایک سانس پاکستان کے لئے تھا، اب شہید پاکستان ہے اور دشمنانِ پاکستان پر اس کا خون ٹھیک ٹھیک نشانے لگا رہا ہے۔ ان پر زمین تنگ ہوتی جا رہی ہے کہ شہید کی جو موت ہے، وہ قوم کی حیات ہے!
