چینی صدر کا دشمن کے خلاف افواج کو تیار رہنے کا حکم 

 چینی صدر کا دشمن کے خلاف افواج کو تیار رہنے کا حکم 
 چینی صدر کا دشمن کے خلاف افواج کو تیار رہنے کا حکم 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


چینی صدر شی جن پنگ نے گوانگ ڈونگ صوبے کے فوجی اڈے کے دورے کے موقع پر پیپلز لیبریشن آرمی کی میرین کور سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فوج ہائی الرٹ پر رہے اور دشمن کے ممکنہ وار کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے خود کو تیار رکھے،گویا چین کے صدر نے اپنی فوج کو براہ راست اور بلاکم و کاست جنگ کے لئے تیار رہنے کا حکم دیا ہے انہوں نے دشمن کا ذکرتو کیا لیکن اس کی نشاندہی نہیں کی کہ وہ کون ہے؟لیکن دنیا یہ جانتی ہے کہ سر دست ایک عرصے سے چین کے ساتھ کون دشمنی پال رہا ہے۔ کس قوم کے ساتھ اس کی مخاصمت ہے؟کس قوم کے ساتھ دشمنی ہے اور کون سی طاقت اس کی حقیقی اور اصلی دشمن ہے؟ ظاہر ہے چین کا صدر ہانگ کانگ میں مظاہرہ کرنے والوں کی خفیہ پشت پناہی کرنے والوں کو تو اس طرح نہیں للکار سکتا ۔تائیوان کے خلاف بھی اس طرح کا اعلان نہیں کر سکتا۔ ہندوستان کو لداخ میں چین پہلے ہی شکست سے ہمکنار کر چکا ہے دنیا میں صرف ایک ہی ایسی طاقت ہے جو چین کی حقیقی حریف ہو سکتی ہے،بلکہ اس بات کو دوسرے انداز میں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ دنیا میں جس طاقت کو چین کے تعمیر و ترقی اور عروج کی طرف اُٹھتے ہوئے قدموں سے خطرہ ہے اسی کے خلاف چین نے جنگ کی تیاری کا حکم جاری کیا ہے یہ حکم روایتی قسم کا نظر نہیں آ رہا،بلکہ یہ آنے والے دنوں کی ایک ممکنہ تصویر دکھا رہا ہے۔
گزرے ایک سو سالوں کے دوران عالمی منظر سیاست و معیشت پر ایک ہی قوم چھائی ہوئی نظر آتی ہے اور وہ ہے امریکہ جنگ عظیم اوّل نے برطانوی استعمار کے حال پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا تھا، جبکہ دوسری جنگ عظیم نے یہ طے کر دیا کہ برطانیہ عظمیٰ سپر طاقت نہیں ہے،بلکہ امریکہ لاریب سپر طاقت بن چکا ہے امریکہ نے جنگ اور جنگ کو عالمی سیاست میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی طرح ڈالی امریکی خارجہ پالیسی جنگ اور صرف جنگ کے گرد گھومتی نظر آ نے لگی جنگ کے ذریعے اپنے تزویر اتی مقاصد حاصل کرنے اور جنگ کے ذریعے ہی اپنے اقتصادی مفادات کا تحفظ کرنا امریکی پالیسی قرار پایا۔

امریکہ کی کسی بھی ملک و خطے میں آمد کا اعلان،جنگ کے ذریعے ہوتا اور امریکی افواج کے انخلاء کے بعد خطے کو لاقانونیت اور خانہ جنگی کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ امریکہ کا آنا بھی خطر ناک اور وہاں سے نکلنا بھی شہریوں کے لئے سوہان روح آپ گزری 7/8دہائیوں کی عالمی تاریخ کا مطا لعہ کر کے دیکھ لیں آپ کو ہر طرف جنگ و جدل کے شعلے اٹھتے نظر آئیں گے 90ء کی دہائی سے پہلے کمیونزم کو شکست دینے کی آڑ میں ہر جگہ گرم و سرد جنگ کا ماحول طاری نظر آئے گا۔جہاں بھی تضاد و تصادم ملے گا وہاں امریکی مفادات نظر آئیں گے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ایران عراق کی جنگ دیکھ لیجئے امریکہ نے ایران اسلامی انقلاب کے خلاف محاذ قائم کیا اسے عرب و عجم کی لڑائی میں تبدیل کر کے صدام حسین کو شہ دی کہ وہ ا یران پر چڑھ دوڑے عرب شیخ سب مل کر ایران کے خلاف عراق کے ممدو مددگار ٹھہرے امریکہ علی الاعلان ایران کے خلاف عربوں کا سر پرست تھا اور بظاہر وہ ایران کی انقلابی حکومت کو گرانے ختم کرنے کے در پے نظر آتا تھا ایران عراق جنگ کی بھٹی دھکانے میں بھی یہی نظریہ کار فرما نظر آتا تھا،

لیکن ہم نے اسی دور میں ایران کو امریکی اسلحہ کی ایک بڑی کھیپ مہیا کئے جانے کا سکینڈل بھی دیکھا،یعنی ایک طرف عراق کی سرپرستی /پشت پناہی کہ وہ ایران پر حملہ آور ہو اور اس کی انقلابی حکومت ختم کر دے اس لئے اسے دھڑا دھڑ امریکی اسلحہ دیا جا رہا تھا عربوں کو بھی اس کی امداد کے لئے تیار کیا گیا تھا اور امریکہ یہ کام نظریاتی اور جمہوری اخلاقیات کی بنیادوں پر سر انجام دے رہا تھا اقوام عالم اس حوالے سے اس کے ساتھ تھیں دوسری طرف اپنا عسکری کمپلیکس چلانے اور چلتا رکھنے کے لئے، کیونکہ اسے خریداروں کی ضرورت تھی اِس لئے اس نے چپکے سے اسلحہ سے لدے جہاز اسے فروخت کر دئیے۔یہ سب کچھ امریکی پالیسی کے عین مطابق تھا،جس کا درج بالا سطور میں ذکر کیا گیا ہے۔ 


جنگ اور صرف جنگ امریکی خارجہ پالیسی کا ایک اہم ہتھیار ہے، جس کے ذریعے امریکی معیشت ترقی کرتی رہی ہے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے 90ء کی دہائی میں اشتراکی سلطنت کے خاتمے کے بعد سرد جنگ کا خاتمہ ہو گیا تھا امریکہ کو ایک نئے دشمن کی تلاش تھی تا کہ اس کی آڑمیں ایک نیا اتحاد تشکیل دے کر ایک نئی جنگ کا آغاز کیا جا سکے اور اس طرح اسلحے کی فروخت کا کاروبار جوں کا توں چلتا رہے امریکہ نے تہذیبی جنگ کا شوشہ چھوڑ کر عالم اسلا م کو اپنا دشمن قرار دے کر نئی جنگ شروع کی۔خلیج میں ہونے والی جنگ،بلکہ جنگیں اسی پالیسی کے تحت لڑی گئیں۔آپریشن ڈیزرٹ سٹارم اور ڈیزرٹ شیلڈ کے ذریعے عربوں کے خزانے خالی کئے گئے پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ چھیڑی گئی۔افغانستان اور پھر عراق پر حملہ آور ہو کر عرب و عجم کے مسلم ممالک کا بھر کس نکال دیا گیا۔


اس جنگ میں دو مقاصد حاصل کئے گئے ایک نظریاتی اور دوسرا معاشی۔نظریاتی طور پر مسلمانوں کی قوتِ مزاحمت کو کچل کر رکھ دیا گیا اور صہیونی ریاست کی تکمیل کی راہ ہموار کر دی گئی۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل گریٹر اسرائیل کی تکمیل کے ایجنڈے کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہے عرب اس کے آگے سرنگوں ہوتے چلے جا رہے ہیں تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر کی باتیں بلند آہنگ میں کی جا رہی ہیں امریکی صلیبی سوچ صہیونی ریاست کو موثر و مستحکم بنا چکی ہے دوسرا امریکی ملٹری کمپلیکس کی نمو کا مقصد بھی حاصل کرنے کی کاوشیں کی گئیں۔


9/11کے بعد گزری دو دہائیوں میں امریکہ ایسے ہی مقاصد کی تکمیل میں مصروف رہا ہے، لیکن اس عرصے میں چین بڑی خاموشی اور سرعت کے ساتھ آگے بڑھتا رہا اور اپنی معاشی و سفارتی پوزیشن مستحکم کرتا رہا اب جبکہ امریکہ مشرق وسطیٰ اور افغانستان کی جنگوں سے تقریباً فارغ ہو چکا ہے تو اسے ایک اور نئے دشمن کی تلاش ہے، جس کی آڑ میں وہ اپنی بیان کردہ پالیسی کو آگے بڑھا سکے اور وہ دشمن حقیقتاً چین ہی ہے امریکی قیادت ایک عرصے سے دھیمے سروں میں چین کے خلاف برسریپکار رہی ہے،کبھی تجارتی جنگ کی صورت میں کبھی سفارتی میدان میں للکار کر چین کو چتاؤنی دینے کی کاوشیں کی جاتی رہی ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -