وراثت میں بہنوں کا حصّہ کیوں نہیں۔۔!!!
" دیکھنے میں زندگی بہت ہی خوبصورت اور حسین نظر آتی ہے، دنیاکی کون سی نعمت ہے جو گھر میں موجودنہ ہو۔ لاکھوں، کروڑوں کا کاروبار اور اربوں کی گوجرانوالہ میں مختلف جگہوں پر زمینیں اور دُکانیں ہیں جن سے کروڑوں روپیہ ہر مہینے کرایہ کے طور پر وُصول ہوتا ہے"۔ میں اپنے دوست عدنان کی باتیں بڑے غور سے سُن رہا تھا جو ایک مہنگی ہاؤسنگ سوسائٹی میں رہائش پذیر ہے اور اپنے ہمسائے میں رہنے والے حارث نامی شخص کے معاملات بارے مجھے بتا رہا تھا۔حارث اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا اور چار بہنوں کا بھائی ہے۔ والدین بچپن میں ہی انتقال کر گئے تھے، مگر اب تمام منقولہ وغیرمنقولہ جائیداد کا اکیلا وارث خود کو سمجھتا ہے۔ اللہ پاک نے اُس کو ایک بیٹے سے بھی نوازا ہے، مگر بہنوں میں سب سے چھوٹا ہونے کے باوجود اُس نے اپنی بہنوں کی شادیاں نہیں کیں۔ میرادوست کہنے لگا کہ ایک دن میں نے اُس سے پوچھ ہی لیا،تو کہنے لگا کہ بہنوں کی شادی کر کے خود کوہی مصیبت میں ڈالنا ہے، پھر بعد میں وراثت کی تقسیم کون کرتا رہے گا۔ عدنان نے جواب میں حارث کو کہا کہ آپ کی بہنوں کی عمریں تو بہت زیادہ ہو چکی ہیں اور اب اگر مزیدوقت گزرا تو شادیوں کا امکان ختم ہو جائے گا۔ وہ سخت دل انسان حارث کہنے لگا کہ ”میں ایسا ہی تو چاہتا ہوں ……!“ میں جب عدنان کی باتیں سُن رہا تھا تو میرے جسم کا رُواں رُواں اس ظلم کی شدت کو محسوس کر رہا تھا۔ کچھ غم، تکالیف اور مظالم جب میں اپنے اِردگرد دیکھتا ہوں تو میرے دل کی دیوار پر ایسے چسپاں ہو جاتے ہیں کہ پھر اُترنے کا نام ہی نہیں لیتے، کافی دنوں سے یہ غم و تکلیف اِس دیوار پرمیں بہت ہی نمایاں محسوس کر رہاہوں۔
وراثت کا معاملہ بہت اہم، ضروری اور نازک ہے۔ آپ اگر اپنے معاشرے کا بغور مطالعہ اور تحقیق کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ہر دس میں سے نو گھروں میں وراثت کے جھگڑے ہیں، جہاں کوئی ایک یا دو کسی اپنے ہی بھائی یا بہن یا اولاد کا حق مارنے کی کوشش میں نظر آئے گا۔یا والدین خود ہی ایک بیٹے یا بیٹی کو سب کچھ ہبہ کر کے باقی تمام اولاد کی حق تلفی کر کے اُن کو بالکل ہی محروم کر کے خود کو دوزخ کا مستحق ہوتے دکھائی دیں گے۔ یہ حق تلفی آپ کو بہنوں کے معاملے میں سب سے زیادہ ملے گی۔ بہنوں یا بیٹیوں کے معاملے میں ہمارے گھروں میں ایسا سخت رویہ ہے جیسا عرب میں اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں ترکہ صرف ان بیٹوں کو ملتا تھا جو جنگ و جدل کرنے کے اہل ہوتے تھے، عورتیں اور نابالغ بچوں کو وراثت سے محروم کر دیا جاتا تھا۔ اب زیادہ تر ہمارے گھروں میں میت کے ترکہ کی جب تقسیم ہوتی ہے تو بہنوں کو صاف انکار کر دیا جاتا ہے یا پھر گھر کا بڑا Emotional Blackmailکر کے وراثت کے کاغذات پر signature کروا لیتا ہے۔ یا پھر اکثر گھروں میں بھائی صاف صاف بول دیتے ہیں کہ اگر تم نے حصّہ لیا تو "تمھارا اور میرا جینا مرنا ختم“ آج کے بعد کبھی نہ تم گھر کی دہلیز پر قدم رکھنا اور نہ تمھارا شوہر اور تمھا ری اولاد ہی ہم سے میل ملاپ رکھیں۔ قرآن پاک میں سورۃ النساء آیت نمبر ۱۱ میں اللہ پاک فرماتا ہے کہ ”اللہ تمھاری اولاد (کی وراثت کے حصّوں) کے متعلق تمھیں حکم دیتا ہے کہ (میت کے) ایک بیٹے کا حصّہ دو بیٹیوں کے برابر ہے۔“ اِلاماشااللہ وراثت کے معاملے میں ہمارے معاشرے میں بہنوں کی اہمیت صرف پانی کے اوپر آنے والی جھا گ کی مانند ہی ہے جو کہ چند لمحوں بعد غائب ہو جاتی ہے۔ اسلام نے وراثت کے معاملات کو اتنی زیادہ اہمیت دی ہے کہ اس کو ”علم الفرائض“ کہا ہے اور اس کو شریعت کے علم کا آدھا حصہ بھی قرار دیاہے۔
قرآن پاک میں وراثت کے بارے میں سورۃ النساء کی آیات نمبر ۱۱، ۱۲،۱۳،۱۴،۱۷۴ تفصیلی احکامات موجود ہیں اور کتاب و سنت میں ذوی القروض کے سات قسم کے حصّوں کا ذکر آیا ہے جس میں 2/3, 1/2, 1/3, 1/4, 1/6, 1/8اور پورا ترکہ شامل ہیں۔ تین چیزیں ایسی ہیں جو تقسیم خیرات پر مقدم ہیں ان پر مال خرچ ہونے کے بعد جو کچھ باقی بچے گا وہ میراث وارثوں میں تقسیم ہوگی ورنہ نہیں۔ ان تین چیزوں میں پہلی تجہیز و تکفین، دوسری قرض اور تیسری وصیت (جس کی مقدار شریعت نے تہائی مال تک مقرر کی ہے) شامل ہیں۔ آپ اگر بہت نیک، پرہیز گار اور متقی ہیں، آپ نے بہت زیادہ مسجدیں بنوائی ہیں، آپ سب نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں،مگر وراثت کی تقسیم کتاب و سنت کے مطابق نہیں کرتے تو آپ کو قرآن پاک کی یہ آیت وراثت کے معاملات کے بعد جو بیان کی گئی سورۃ النساء آیت نمبر14کو ہر وقت ذہن نشین کر لینا چاہیے،فر مایا گیا ”اور جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کرے گا اور اُس کی حدود سے تجاوز کرے گا اللہ اس کو دوزخ میں داخل کر دے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اُس کے لئے ذلت والا عذاب ہے“۔ تاریخ میں سکندر اعظم کا نام آج بھی زندہ ہے، شاید اس لئے بھی کہ وہ پوری دنیا کا فاتح تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ اُس کی نصیحت جو اُس نے مرتے وقت اپنے حواریوں کو کی تھی کہ جب میں مرجاؤں تو میرے ہاتھ میرے کفن یا تابوت سے باہر نکال دینا۔ اس کے حواریوں میں سے کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو جواب میں کہنے لگا“……تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ پوری دنیا کا فاتح بھی اس دنیا سے کچھ نہیں لے کر جارہا سوائے اپنے کفن کے“۔ اگر آپ اپنے گھر کے سب سے بڑے ہیں یا آپ پر منحصر ہے کہ وراثت کو تقسیم کرنا تو اللہ کے لئے اس کو کتاب و سنت کی روشنی میں تقسیم کریں، کیونکہ اس دنیا سے آپ نے بھی صرف کفن ہی لے کر جانا ہے۔