نوازشریف اور الطاف حسین کے درمیان مشترک 3 اقدار سینئر صحافی سامنے لے آئے لیکن فرق کیا ہے؟

نوازشریف اور الطاف حسین کے درمیان مشترک 3 اقدار سینئر صحافی سامنے لے آئے لیکن ...
نوازشریف اور الطاف حسین کے درمیان مشترک 3 اقدار سینئر صحافی سامنے لے آئے لیکن فرق کیا ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد (ویب ڈیسک) نوازشریف اور الطاف حسین کے درمیان مشترک 3 اقدار سینئر صحافی سامنے لے آئے لیکن فرق کیا ہے ، یہ بھی پتہ واضح ہوگیا۔

روزنامہ جنگ میں سلیم صافی نے لکھا کہ " غور سے دیکھا جائے تو تین چیزیں الطاف حسین اور میاں نواز شریف کے مابین مشترک ہیں۔ پہلا یہ کہ دونوں کی سیاست جنرل ضیا الحق کے زیر سایہ پروان چڑھی۔ دوسری قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں ایک عرصے تک مقتدر حلقوں کے کارندے رہے لیکن پھر ایک وقت آیا کہ ان کو چیلنج کرنے لگے اور تیسری قدر مشترک یہ ہے کہ الطاف حسین نے بھی لندن کو مرکز بنا کر جنگ چھیڑ دی تھی جبکہ میاں نواز شریف نے بھی لندن کو مورچہ بنا لیا لیکن ان تین مشترکہ اقدار کے باوجود میرے خیال میں دونوں کو ایک دوسرے سے ملانا عقلمندی ہے اور نہ نواز شریف کا وہ حشر کیا جاسکتا ہے جو الطاف حسین کا ہوا کیونکہ کچھ اور حوالوں سے دونوں میں کوئی قدر مشترک نہیں۔

دونوں میں سب سے بڑا اور بنیادی فرق تو یہ ہے کہ الطاف حسین صرف اردو بولنے والوں اور دو شہروں کے لیڈر تھے جبکہ میاں نواز شریف پنجاب سے تعلق رکھنے والے قومی لیڈر ہیں اور پاکستان جیسے ملک میں یہ بہت بڑا فرق ہے۔ پنجاب کے لیڈر کو غدار بنانا یا پھانسی چڑھانا اتنا آسان ہر گز نہیں جتنا کہ چھوٹی قومیتوں یا چھوٹے صوبے سے تعلق رکھنے والے سیاسی لیڈروں کو ہوتا ہے۔ دوسرا بنیادی فرق یہ ہے کہ الطاف حسین کبھی ایک صوبے کے وزیراعلیٰ بھی نہیں رہے جبکہ میاں نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ الطاف حسین کی سیاست کو آگے بڑھانے یا انتقام لینے کے لئے ان کی اولاد پاکستان میں موجود تھی اور نہ شہباز شریف جیسا بھائی میدان میں تھا۔

پانچواں بنیادی فرق یہ ہے کہ الطاف حسین کی سیاست تشدد سے عبارت تھی جبکہ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کا تشدد کی سیاست کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ چھٹا فرق یہ ہے کہ الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں کے غیرملکی طاقتوں سے روابط زبان زد عام تھے لیکن میاں نواز شریف کا ایسا کوئی ریکارڈ نہیں بلکہ شروع میں پاکستان کے مقتدر حلقوں کی طرف سے ان کو میڈان پاکستان کہا جاتا تھا۔

ساتواں فرق یہ ہے کہ الطاف حسین کے پاس مظلومیت کا کوئی کارڈ نہیں تھا جبکہ ان کا لہجہ نہایت باغیانہ بن گیا تھا جبکہ میاں نواز شریف اور ان کی پارٹی گالم گلوچ کی بجائے اپنا کیس پیش کررہی ہے اور وہ بھی مظلوم بن کر۔ الطاف حسین کا وہ حشر اس لئے بھی ہوا کہ خود ان کے ساتھی بھی ان کے رویے سے نالاں تھے لیکن میاں نواز شریف کے ساتھ اس وقت جو لوگ کھڑے ہیں، ان کی اپنی سیاسی بقا بھی نواز شریف کی بقا سے نتھی ہے۔ الطاف حسین نے خود کو تنہا کردیا تھا یا پھر حکمت عملی کے تحت ان سے پارٹی کو الگ کردیا گیا لیکن میاں نواز شریف اور پارٹی ایک کشتی کے سوار ہیں۔

اگر الطاف حسین کو بھی تنہا نہ کیا جاتا اور ان کی جماعت کی ساری قیادت کو بھی اگر ان کے ساتھ لپیٹ دیا جاتا تو پھر ان کا یہ حشر کرنا ممکن نہ ہوتا لیکن میاں نواز شریف کے ساتھ ان کی پارٹی کی قیادت کو بھی نتھی کردیا گیا۔ بغاوت کا مقدمہ صرف ان کے خلاف نہیں بلکہ پارٹی کی پوری قیادت کے خلاف درج کیا گیا۔ ایک اور بنیادی فرق یہ ہے کہ جب الطاف حسین وہ کچھ کررہا تھا اور جواب میں ان کے ساتھ جو کچھ ہورہا تھا تو باقی ملک میں ان کے حق میں آواز اٹھانے والی کوئی جماعت موجود نہیں تھی لیکن میاں نواز شریف کے ساتھ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے سوا ملک کی باقی تمام جماعتیں کھڑی ہیں۔ ان کو اگر الطاف حسین بنانے کی کوشش کی جائے گی تو مولانا فضل الرحمٰن سے لے کر بلاول بھٹو زرداری تک، اسفندیارولی خان سے لےکر محمود خان اچکزئی تک اور ڈاکٹر مالک سے لےکر سردار اختر مینگل تک ان کے حق میں آواز اٹھائیں گے۔

مزید :

قومی -