یومِ تدریس یومِ تشکر بھی ہوگا 

یومِ تدریس یومِ تشکر بھی ہوگا 
یومِ تدریس یومِ تشکر بھی ہوگا 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


آجکل ہر دوسرے چوتھے دن کوئی نہ کوئی یوم منانے کا رواج چل پڑا ہے۔ عید بقرعید، شبِ برات اور محرم تو پہلے بھی تھے۔ پاکستان بنا  تو آزادی کی سالگرہ، 23 مارچ کا دن اور جنرل ایوب کے دَور میں یومِ انقلاب کا سلسلہ بھی چل نکلا۔ اب سوشل میڈیا نے فادر، مدر یا سسٹر ڈے، انسدادِ امراض کے مختلف دن اور یومِ اساتذہ جیسی علامتی تقریبات منانا بھی آسان تر کر دیا ہے۔ تازہ اضافہ ہینڈ واشنگ ڈے ہے جسے ’یومِ دست شوئی‘ کہنا چاہیے۔ اِس پس منظر میں اگر مجھ جیسے عمررسیدہ عینک پوش کی طبیعت مچلے تو وہ  بھی کسی رسمِ قُل یا چہلم کی محفل سے ہٹ کر خود اپنا کوئی یوم منانے کی سوچ سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اِس کی بدولت ٹاک شو ماہرین کو مذہبی، اخلاقی اور نفسیاتی بحث کے لئے ایک اچھا موضوع  مِل جائے۔ ٹاک شو یوں اہم ہیں کہ کیبل ٹیلی ویژن دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے کئی دوستوں کے لئے ماہانہ تنخواہ اور لاہور میں ایک چینل مالک کی بیکری کے ہوتے ہوئے مفت کیک پیسٹری کا وسیلہ بھی بن گیا ہے۔ 


   منانے کو تو ذاتی حوالے سے کوئی بھی یوم منا لیا، لیکن اُس کا ایک ہلکا پھلکا حقیقی یا خیالی جواز تو لانا پڑے گا۔ جیسے کسی بیٹی بیٹے کا کانووکیشن، خانہ آبادی، بچوں کی اولاد کا نوٹیفیکیشن، عقیقہ یا مسلمانیاں۔ یہ خانے خالی دیکھ کر سوچا کہ اکتوبر کا مہینہ ہے اور گرمی کی شدت کم ہو چکی ہے۔ کسی نومولود کے بجائے 15 اکتوبر کو اپنی پیدائش کا جشن بھی تو منایا جا سکتا ہے۔ فیس بُک پر ’ایچ بی ڈی‘ کے پیغامات سے سوشل میڈیا کا پیٹ بھی بھر جائے گا اور وہ بھی مفتو مفت۔ پر جی، ہر اخبار نویس کے اندر ایک چھوٹا موٹا ایڈیٹر بھی چھپا ہوتا ہے۔ پھر اخبار نویس بھی معمولی ساخت کا نہیں بلکہ براڈ کاسٹ جرنلسٹ جسے متن کے مفہوم اور الفاظ کے صوتی تاثر میں یکساں دلچسپی ہوتی  ہے۔ ’شاہد ملک 69 سال کے ہو گئے۔‘ مگر یہ کیا سُرخی ہوئی؟ انہتر۔۔۔ یہ تو لفظ ہی غیر شفاف ہے۔ نیوز اینکر یہ ہندسہ پڑھنے میں غلطی کرے ہی کرے۔ اگلے سال ستر برس ہو جائیں تو راؤنڈ فِگر کی بدولت سُرخی شگفتہ اور رواں ہو جائے گی۔


سالگرہ کی خبر مسترد ہوتے ہی خیال آیا کہ اکتوبر میں تو اور بھی بہت کچھ ہوچکا ہے۔ بالکل پہلی نظم نے وزیر آغا کے ماہنامہ اوراق میں جگہ پائی تو یہی مہینہ تھا۔ ایک سال بعد اکتوبر ہی میں ہم تین طلبہ کا شعری مجموعہ گورڈن کالج راولپنڈی کے شعبہء انگریزی نے شائع کیا۔ ’لوحِ سفال‘ کا یوم منا کر صدرِ شعبہ ڈاکٹر فرانسس زیوئر کو بھی یاد کر لیں گے جنہوں نے پیش لفظ میں بائیبل کی آیت درج کر کے ہماری حوصلہ افزائی کی تھی۔ فرمایا: ”یہ کتاب ہمارے کالج کے اُن معترضین کو خاص طور پر ہمارا جواب ہے جو پوچھتے ہیں ’کیا ناصرت سے کوئی اچھی چیز نکل سکتی ہے؟‘ (یوحنا ۱، ۴۶)۔“ اب اِن امکانی خبروں کے ٹِکر نکالنے  کی جو کوشش کی تو اولین نظم کی اشاعت کو اِسی مہینے انچاس سال ہوئے تھے اور کتاب کو اڑتالیس۔ رہی اکتوبر میں شروع ہونے والی سفارت خانے کی اولین نوکری تو اُس کی گولڈن جوبلی میں ہنوز چھ سال باقی ہیں اور نکاح کی سلور جوبلی میں تاحال دو برس۔ سو، بات بنتی نہیں۔


اپنا یوم منانے کے لئے میرا اضطراب تشویش میں بدلنے لگا تھا کہ ایک خوشگوار دھماکہ ہوا۔ یہ تھا کوویڈ سے نمٹنے والے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کا واشگاف اعلان کہ پیِر 11 اکتوبر سے تمام تعلیمی ادارے بلا لحاظِ رنگ و نسل و ملت معمول کے مطابق تدریس شروع کر دیں گے۔ کورونا پھوٹ پڑنے کے نتیجے میں تعلیم و تدریس کے ساتھ جو کچھ ہوا شعبہء صحت کے بعد ہمیں درپیش سب سے بڑا چیلنج وہی ہے۔ پرائمری اسکولوں سے لے کر کالج اور یونیورسٹی کی سطح تک کبھی آن لائن کلاسیں اور کبھی ہائی برِڈ۔ یہ نہیں کہ تعلیمی اداروں کے اندر تدریسی عمل بحال کرنے کی کوشش نہ ہوئی۔ کوشش تو بار بار کی گئی  لیکن وبا کا یہ حال کہ ایک تسلسل کے ساتھ موج در موج طغیانیوں کا سامنا رہا۔ ایک دھارا پلوں کے نیچے سے گزر نہ پاتا کہ نئی لہر آ جاتی اور آن کیمپس ٹیچنگ ہی نہیں، امتحانوں کا شیڈیول بھی بہا لے جاتی۔ دائرہ در دائرہ ہم اِن تجربات سے کتنی دفعہ گزرے، آپ کسی اُستاد سے بھی پوچھیں تو جواب ملے گا: ”پپو یار، تنگ نہ کر۔“ 


لیں جی، اب تدریس کی بحالی پر ذاتی تیاری کی جھلک۔ مَیں ہفتہ بھر کے لئے اتوار کی شام کپڑے پیشگی استری کر لیتا ہوں۔ جوتوں کا ایک آدھ جوڑا بھی (زیادہ تو ہئیں نہیں) لشکا دیا جاتا ہے۔ عام پالش نہیں بلکہ واٹر پالش جسے دیکھ کر منفرد صحافی اور میرے کزن خالد حسن  نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا: ”پروفیشنل ٹچ“۔ کلاس روم میں پہلا لیکچر تھا، ایک ٹراپیکل پتلون کوٹ بھی نکال لیا۔ کیا یہ موسم کا تقاضا تھا؟ اوہو، بات موسم کی نہیں ہوتی۔ ایک تو اتنے عرصہ بعد یونیورسٹی میں حاضری۔ دوسرے مَیں بلوچ رجمنٹ کے ایک حوالدار سے بھی متاثر ہوں جو عین 14  اگست 1947ء کی صبح اپنے جوانوں سمیت اُس ٹرین کی چھت پر سوار تھا جس پہ میرے والد اور دیگر مسافر فساد ات سے بچ بچا کر سیالکوٹ پہنچے۔ ابا بتاتے ہیں کہ حوالدار صاحب دُور ہی سے کسی بھی بڑی داڑھی والے پگڑی پوش آدمی کو سِکھ سمجھ کر گولی چلا دیتے۔ جب وجہ پوچھی تو جواب  مِلا: ”فکر نہ کرو، ہمارے پاس ایمونِیشن بہت ہے۔ خوچہ مرے گا نہیں تو ڈرے گا تو سہی۔“


تدریسی ایمونیشن تو اُس روز میرے پاس بھی بہت تھا۔ تو پھر ہوا کیا؟ جو ہوا وہ بتانا چاہوں تو اپنے تایا کی کہانی سنانی پڑے گی جو تھے تو بلوچ رجمنٹ والے مجاہد سے کہیں سینئر عہدے پر۔ مگر علی گڑھ کے تعلیم یافتہ اور انگریز فوج میں ہوتے ہوئے پی ٹی اور مارچ پاسٹ سے نالاں۔ پِیر کے دن جب کبھی یونٹ کی ماہانہ پریڈ ہوتی تایا جان بچنے کے لئے کہِیں ادِھر اُدھر ڈیوٹی لگوا لیتے۔ کئی دفعہ صرف مقررہ تاریخ کو میڈیکل ایمرجنسی کے بہانے سی ایم ایچ پہنچے۔ یہ نہ ہو سکا تو اٹینڈ سی یا ’سِک اِن کوارٹر‘۔ ریٹائرمنٹ قریب سوچا کہ عمر بھر اِس مسئلے پر جو خفت رہی اب وہ دُور کر دی جائے۔ چنانچہ یونیورسٹی کے لئے مَیں نے گزشتہ پیر جس چاؤ سے تیاری کی تایا نے بھی ایک سوموار کی صبح ویسے ہی جذبے کے ساتھ اپنی ٹرن آؤٹ سنواری تھی۔ اُس دن ٹریننگ کے ایام کو چھوڑ کر شاید پہلی بار پریڈ گراؤنڈ گئے تو خوب کلف دار وردی، سُتھری چمکدار پیٹی اور چمکدار بُوٹ زیبِ تن تھے۔ 


وعدے کی رو سے اب یہ بتانا ہے کہ ہوا کیا۔ یونٹ میں سب سے سینئر جانتے ہوئے کمانڈنٹ نے مارچ کرنے والے دستے کی قیادت بزرگوار کو سونپ دی۔ سلامی کے چبوترے تک پہنچے اور بڑی شان و شوکت سے گزر گئے۔ یکایک احساس ہوا کہ کہِیں کوئی بنیادی غلطی سرزد ہو گئی ہے، مگر کونسی غلطی یہ سمجھ میں نہ آیا۔ پریڈ ختم ہونے تک خود کو اندازہ ہو گیا کہ سلیوٹ کرنا یاد نہیں رہا۔ ظاہر ہے سالار کی پیروی میں باقی پلٹن نے بھی سلامی نہ دی۔ فوجی نظم و ضبط کو دیکھیں تو ایسی کوتاہی کی مثال دنیا کی عسکری تاریخ میں ڈھونڈے سے ملے گی۔ لیکن انگریز اگر سخت گیر حاکم تھا تو بشرطِ مصلحت معاف کر دینا بھی جانتا تھا۔ میرے ساتھ ہوا کہ کلاس روم واپسی کے دن سلیوٹ کرنا مجھے تو یاد تھا یونیورسٹی انتظامیہ کو شاید یاد نہیں رہا۔ پتا چلا کہ سرکاری حکم  کے باوجود یونیورسٹی سے کلاسیں بحال ہونے کا نوٹیفیکیشن موصول نہیں ہوا۔ جُز وقتی استاد ایک بار پھر آن لائن کلاس پڑھا کر گھر آ گیا۔ اُس کا یومِ تدریس  آئندہ  پیر کو ہے۔ 

مزید :

رائے -کالم -