سوچا شام باہر گزاری جائے، مصری معاشرے میں جو تکلیف دہ بات دیکھی وہ ہر جگہ پر دھوکہ دہی اور ناجائز طریقے سے پیسے بنانے کی کوشش تھی

Oct 17, 2024 | 10:23 PM

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:33
 عصر سے ذرا پہلے جب ہم شہر پہنچے تو مجھے یاد آیا کہ مجھ کچھ ڈالر کیش کروانے ہیں۔ میں نے عبدو کو کہا،اس نے ڈرائیور کو ہدایت دی اور وہ ہمیں ایک چھوٹے سے بازار میں لے آیا۔ وہاں اس نے گاڑی کھڑی کی تو ایک آدمی بھاگتا ہوا آیا۔ اسے بتایا گیا کہ400ڈالر کیش کروانے ہیں۔ وہ کہنے لگا لاؤ پیسے دو میں 5 منٹ میں لا کر دیتا ہوں۔ میں نے سن رکھا تھا کہ یہ لوگ اس بہانے سے پیسے لے کر بھاگ جاتے ہیں اور پھر ہاتھ نہیں لگتے۔ میں نے انکار کر دیا اور اس سے کہا کہ ہم یہیں کھڑے ہیں، تم بھاگ کر جاؤ اور مطلوبہ مصری کرنسی لے آؤ، میں فوراً ڈالر دے دوں گا۔وہ تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو اپنے چغے کی اندرونی جیب سے کچھ بڑے نوٹوں کے ساتھ چھوٹے نوٹوں کی ایک گڈی مجھے تھما دی۔ عبدو نے آہستگی سے میرے کان میں کہا کہ میں ان گڈی والے نوٹوں کو ایک دفعہ گن لوں۔ جب گنا تو وہ 95نوٹ تھے۔ جب اس کو بتایا تو بظاہر اس نے بڑی حیرانگی کا اظہار کیا پھر جیب سے 5 کھلے نوٹ نکال کر مجھے دے دیئے اور میں نے اسے ڈالر ادا کر دیئے۔ وہ اپنی اس حرکت پر ذرا بھی پشیمان نہیں تھا، بس کھڑا دانت نکالتا رہا۔
میں نے دو تین دن میں مصری معاشرے میں جو سب سے زیادہ تکلیف دہ بات دیکھی وہ ان کی ہر جگہ پر دھوکہ دہی اور ناجائز طریقے سے پیسے بنانے کی کوشش ہوتی تھی اور ہمارے جیسے غیر ملکیوں کے ساتھ تو سب لوگ یہ کام عبادت سمجھ کر ہی کرتے تھے۔
مجھے ہوٹل پر اتار کر ٹیکسی ڈرائیور اپنا معاوضہ اور بخشش لے کر چلتا بنا۔ عبدو کو ابھی مزید2 دن میرے ساتھ رہنا تھا، اس لئے اسے کچھ نہ دیا،سوچا اکٹھا حساب بے باق کر دوں گا۔ اس نے بتایا کہ وہ ایم بی اے کا طالب علم ہے اور پارٹ ٹائم گائیڈ کا کام کرتا ہے۔ وہاں بلامبالغہ ہزاروں کی تعداد میں نوجوان لڑے لڑکیاں باقاعدہ راہبری اور میزبانی کی تربیت لیتے ہیں پھر وہ سارے مصر میں پھیل جاتے ہیں،کیونکہ دنیا میں اگر کسی عرب ملک میں اتنے سیاح آتے ہیں تو وہ مصر ہی تھا۔ اس لئے ان کی کہیں نہ کہیں کھپت ہو ہی جاتی ہے۔ یہاں کی تقریباً تمام یونیورسٹیوں میں قدیم مصری تاریخ کو ایک مضمون کی حیثیت سے پڑھانے کا خاص اہتمام کیا جاتاہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کو کوئی ایک غیر ملکی زبان بھی پڑھائی جاتی ہے۔ اپنی تعلیم اور تربیت مکمل کرنے کے بعد وہ ہوٹلوں میں بطورگائیڈ اپنی رجسٹریشن کر وا لیتے ہیں اور جب کسی ہوٹل سے سیاحوں نے سیرو تفریح کو جانا ہوتا ہے تو انتطامیہ والے ان میں سے کسی ایسے شخض کو منتخب کر لیتے ہیں جو ان سیاحوں کی اپنی زبان بولتا اور سمجھتا ہو۔ پاکستانی اور ہندوستانی سیاحوں کو اس کی ضرورت پیش نہیں آتی، کیونکہ وہ دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے کسی بھی انگریزی بولنے والے سیاحوں کے گروپ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ پھر بھی ان کی درخواست پر وہ کہیں سے اردو بولنے والے گائیڈ کا اہتمام کر ہی لیتے ہیں۔
سہ پہر کو کھائے ہوئے مرغن پلاؤ کا اثر تھا یا تھکاوٹ کا حملہ کہ کمرے میں آتے ہی اپنے سیاحتی کپڑوں سمیت بستر میں گھس گیا اور پھر میں اسی بے وقتی نیند کے جھونکوں کے ہاتھوں مغلوب ہو کر اپنی شام کی چائے بھی گنوا بیٹھا۔ حالانکہ نیچے ڈائننگ ہال میں بیٹھ کر شام کی چائے پینے کا اپنا ہی مزہ تھا تاہم ایک رسم پوری کرنے کے لیے چائے کمرے میں ہی منگوا لی۔سوچا کہ شام باہر گزاری جائے اور کھانا بھی اپنے ہوٹل کے بجائے کسی روایتی مصری ریسٹورنٹ میں کھایا جائے۔ (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزیدخبریں