کیا یہ جناح ؒ کا پاکستان ہے ؟

کیا یہ جناح ؒ کا پاکستان ہے ؟
کیا یہ جناح ؒ کا پاکستان ہے ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app




 اگر فرشتے بانی پاکستان محمد علی جناحؒ کو آج کے پاکستان ، جس میں مذہب اور فرقے کی بنیاد پر بلا روک وٹوک خونریزی ہو رہی ہے یا دیگر اہل ِ مذاہب کو جبری طور پر مسلمان کیا جا رہا ہے، کی خبریں سنائیں تو وہ یقینا اپنے مزار میں بے چینی سے کروٹیں بدلنے لگیں گے۔ یہ وہ پاکستان نہیںہے جس کا خواب قائد یا تحریک کے دیگر رہنماﺅں نے دیکھا تھا۔ اگر وہ اکابرین دوبارہ اس دنیا میں آجائیں توشاید آزادی کی ایک اور تحریک چلائیںگے اس مرتبہ اس ملک کو اس طاقتور سہ فریقی گروہ ، جس نے اس کے اداروں پر قبضہ جماکر اس کی آزادی کی روح کو بھی اپنے پنجوں میں جکڑ لیا ہے، کے چنگل سے نجات دلانے کے لئے۔ یہ گروہ دفاعی اداروں، مذہبی رہنماﺅں اور جاگیرداروں پر مشتمل ہے۔ اس گروہ نے ریاست اورمعاشرے پر جو طاقت اور اختیار حاصل کررکھا ہے، اُس نے پاکستان حاصل کرنے کے تصور کو دھندلا دیا ہے۔
قیام ِ پاکستان کا تصور جمہوریت کے حقیقی اصولوں پر مبنی تھا۔ اس ریاست میں اس بات کو یقینی بنایا جانا تھا کہ عوام کو بااختیار کیا جائے اور اُن کا جو بھی رنگ، نسل یا عقیدہ ہو، ریاست کے وسائل اُن کی فلاح لئے بلاتخصیص استعمال کئے جائیں۔ بانیانِ پاکستان آئین اور قانون کی بالا دستی اور عدل و مساوات کے سنہرے اصولوں پر یقین رکھتے تھے اور انہی اصولوں کی بنیادپر اس ریاست کا ڈھانچہ تعمیر کیا جانا تھا۔اجتماعیت اور قانون کی حکمرانی کے سوا نظریہ¿ پاکستان کا کوئی تصور نہیں تھا۔ نظریہ¿ پاکستان کی اس کے علاوہ جتنی بھی تشریحات کی گئیں، وہ سب سیاسی اور ذاتی مفاد کے لئے تھیں اور ملک حاصل کرنے کی اصل غرض وغایت ان تشریحات کے غبار میں کہیں بہت دور کھو گئی ہے۔ آج کے پاکستان کی شناخت مسخ ہو چکی ہے۔
چار مرتبہ جمہوریت کو پٹری سے اتار کر جاگیرداروں، ملاﺅں اور ملٹری نے اس ملک کی تقدیر اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے انہوںنے جناحؒ صاحب کے تصور کو ناصرف مسخ کر دیا ہے ،بلکہ اس کے حصول کے راستے میں ہر ممکن رکاوٹیں بھی کھڑی کردی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ نہ تو جمہوری قدروں کا پاس کرتے ہیں اور نہ ہی آئین اور قانون کی حکمرانی اُن کو بھاتی ہے اور نہ ہی وہ سماجی افکار کو پروان چڑھتا دیکھ سکتے ہیں۔ درحقیقت ، جمہوریت کے نام پر انہوںنے غیر جمہوری رویوں کی ترویج کی ہے۔    
شاید ہمیں اندازہ نہیںہے کہ صرف ایک ملا نے ایک بچی، رمشا مسیح ، پر بے بنیاد الزام لگا کر (جو بذات ِ خود ایک قابلِ مواخذہ گناہ ہے )قوم کا کتنا نقصان کر دیا ہے۔ عالمی میڈیا نے لمحہ بھر میں اس واقعہ کو پوری دنیا کے سامنے آشکار کر دیا اوردنیا کو ہمارے ماضی اور حال کا بخوبی علم ہے اور اُ ن کی ہمارے بارے میں سوچ اتنی غلط بھی نہیںہے۔ کیا ایک معاشرہ گراوٹ کی اتنی حدوں کو چھو سکتا ہے کہ ایک نوعمر لڑکی ، جس کا تعلق ایک اقلیت سے ہو، کئی ہفتوں تک لاک اپ میں بند رہے ،جبکہ اُس کی ضمانت بھی نہ ہو سکے ؟اور یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، سینکڑوں واقعات ایسے ہیں ،جن میں مذہب کا نام استعمال کرتے ہوئے کسی مخصوص گروہ کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا بعد میں پتا چلتا ہے کہ مذہبی جذبات ابھار کر کسی نادیدہ ہاتھ نے اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کو یقینی بنایا۔ اگر ایسے گروہ یا سوچ معاشرے میں پروان چڑھ رہی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ سول سوسائٹی یا پارلیمنٹ کہا ں ہے اور ان کی کیا ذمہ داری ہے؟
اربابِ اقتدار اور بااثر افراد کا ایسے معاملات میں ردِ عمل یا کارکردگی دیکھ کر خون کھولنے لگتا ہے۔ میں ملک میں شائع ہونے والے اخبارات بڑی تعداد میں پڑھتا ہوں اور برقی میڈیا پر بھی میری نگاہ ہے، مگر یہ دیکھ کر شدید دکھ ہوتا ہے کہ نہ تو نوجوانوں کی کسی تنظیم نے اس پر احتجاج کیا نہ کسی سیاسی جماعت کی طرف سے ا س کی تنقید کی گئی نہ ہی کسی سیاسی رہنما نے ذاتی طور پر رمشا کی داد رسی کی۔ ناانصافی، ظلم اور مفاد پرستی کے خلاف ہماری مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے پاکستان میں خوف کی فضا چھائی ہوئی ہے ۔ معاشرے کے مذکورہ طاقتور دھڑے عوام کی بے بسی اور خاموشی سے تقویت پاتے ہوئے جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں۔      
اندھیروں کی اتھاہ گہرائیوں میں گرنے سے بچنے اور امید کی کوئی شمع روشن کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم بانی¿ پاکستانؒ کے تصور کو اجاگر کریں اور پاکستان کوروادارانہ رویوں کا حامل ایک جمہوریت پسند ملک بنائیں۔ اس مقصد کے لئے ہم نے خاموشی کو ختم کرنا ہے، گھر سے باہر نکل کر پر امن احتجاج کرنا سیکھنا ہے۔ اب چونکہ ہمارے پاس ایک موقع آرہا ہے، ہم ووٹ کے ذریعے تبدیلی کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔

مصنف، معروف کالم نگار، تجزیہ نگار اور ”LUMS“ کے ڈین ہیں۔

مزید :

کالم -