جنّاتی ...جنات کے دوست اور رازداں کے قلم سے۔۔۔ (پہلی قسط)

جنّاتی ...جنات کے دوست اور رازداں کے قلم سے۔۔۔ (پہلی قسط)
جنّاتی ...جنات کے دوست اور رازداں کے قلم سے۔۔۔ (پہلی قسط)

  

’’جنات کا غلام ‘‘کا پارٹ ٹو۔۔۔جادواور جنات کی دنیا کے حیرت انگیز اور تہلکہ آمیزواقعات پر مبنی الف لیلوی داستان جو ظاہر ی اور ماورائی مخلوقات کے اسرار و رموز سے آشنا کرتی ہے۔انسانوں پر جنات کے اور جنات پر انسانوں کے اثرات کی انوکھی اور تیکھی ،تحقیقی اور ڈرامائی سرگزشت

شاہد نذیر چودھری

مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میرے تجویزکردہ بسم اللہ شریف اور اسمائے ربیّ کے مرکبات کا ذکر اوروظیفہ کرنے والوں کے دن پھرنے شروع ہوجائیں گے۔یہ سب اچانک نہیں ہوا تھا۔ اس میں برسوں کی گریہ زاری اور ریاضت شامل تھی ۔ مجھ پر باطنی کیفیت طاری ہونے کا سلسلہ ابھی کچھ ہفتے پہلے ہی شروع ہواتھا اور اس حالت میں میں اگر کسی کو کوئی وظیفہ تجویز کردیتا تو بندے کا کام بن جاتا۔لیکن مجھے اسکا کوئی ادراک نہیں ہورہاتھا نہ شعور بتارہا تھا کہ جذب کی غیر اختیاری حالت میں میرے منہ سے نکلنے والا کوئی بھی وظیفہ کیا رنگ لاسکتا ہے۔اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہواجب میں اپنے دوست کے ہاں گیا ہواتھا۔ان دنوں دوست کی بیوہ بہن اپنی بیٹی کی شادی کے لئے پریشان تھی۔حالانکہ بچی کی عمر انیس بیس سال تھی ،لائق بچی تھی لہذا سکالرشپ پر جی سی یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھی۔اور اسکی شادی تعلیم مکمل کرائے بغیر مناسب نہیں لگتی تھی۔۔دوست کی بہن نے میری کتاب پڑھ رکھی تھی اور اس حوالے سے بڑی بے تاب تھی کہ میں اسے جنات کے بابا جی سے ملا کر اسکے مسائل حل کیوں کراتا۔میں کیسا دوست ہوں جو اپنے دوست کی بیوہ بہن کے درد کا علاج نہیں کرتا۔میں خاتون کے جذبات اور حالات کو سمجھتاتھا۔وہ خود دار خاتون خود بھی ایم ایس سی پاس تھی مگر قابلیت سے کمتر جاب کررہی تھی۔بھائی اسکا بہت خیال رکھتے تھے لیکن بھابیوں نے اسکو طعنے دے دے کر زندہ درگور کردیا ہواتھا۔

’’بھائی آپ کو تو علم ہے میں کسطرح زندگی گزار رہی ہوں ،خدا کے لئے اپنے بابا جی سے یاکسی اور اللہ والے سے کہہ کر میرے لئے دعا کرائیں۔ثنا کی شادی ہوجائے تو میں اپنی نوکوری میں گزارہ کرکے جیسے تیسے باقی عمر گزارلوں گی‘‘

آپا کے دلگدازلہجے نے جیسے میرے اندر تک بلیڈ اتار دئے تھے۔میرے سر میں چیونٹیاں سی رینگنے لگیں اور لذت آمیز درد سے کنپٹوں میں گرمی سی محسوس ہوئی ۔یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی رینگ رینگ کرمیری کھوپڑی سے باہر آنا چاہ رہا ہے۔اسی حالت میں ،میں نے آپا سے گھٹی گھٹی سی آوازمیں کہا’’آپا پریشان نہ ہوں،آج سے آپ اور ثنا صبح اور عشاء کے بعدبسم اللہ شریف کی تین تین تسبیح پڑھنا شروع کردیں اور دعا کیا کریں لیکن جو طریقہ سمجھا رہا ہوں اسے لازمی سمجھ لیں۔انشاء اللہ چالیس دن کے اندر اندر ثنا کا رشتہ آئے گا اوریہ رشتہ بہت اچھا ہوگا اوریہ پاکستان میں نہیں رہے گی ،خوشحالی اس اسکے گھر کو جنت بنادے گی۔۔۔۔۔۔‘‘ آپا کو بسم اللہ شریف کی تسبیح دیکر اور انکی دعائیں لیکر میں گھر چلا آیا مگر راستہ بھر یہی سوچتا رہا کہ میں نے اتنے وثوق سے یہ کیا کہہ دیا ہے۔وظیفے تو تقریباً ہر ضرورت مند پڑھتا ہے اور کتابوں سے ،رسائل اور اخبارات سے بھی اور جہاں جہاں سے مل جائے وہ لیکر پڑھتا ہے لیکن اسکی مرادیں پوری نہیں ہوپاتیں تو کیا آج سے میری بھی ذلت اور شرمندگی شروع ہورہی ہے ۔میرے دئیے ہوئے وظیفہ سے ان کا مسئلہ حل نہ ہوا تو میں بھی عنقریب ان لوگوں کی صف میں کھڑا ہوتانظرآؤں گا جوخیرو برکت کے لئے وظائف اور اذکار کا بہت ذکرکرتے ہیں لیکن اسکی آڑ میں کاروبار چمکاتے یا غیر معمولی پذیرائی حاصل کرنے کی ہوس میں لگے رہتے ہیں۔لوگوں کو امیدیں دلا کر اپنے پیچھے لگائے رکھتے ہیں اور جب انکی مرادیں پوری نہیں ہوتیں تو وہ اللہ سے دور ہوجاتے ہیں۔

ندامت کا احساس مجھے کچوکے لگا رہا تھا کہ یہ میں نے کیا کردیا۔۔۔اس رات میں ٹھیک سے سویا بھی نہیں ،نماز فجر کے بعد آنکھ لگی تو خواب میں باباتیلے شاہ سے ملاقات ہوگئی۔انہوں نے میرا کاندھا تھپتھپایا ’’شہزادے گھبراتے کیوں ہو۔ایک تو بڑی دیر کردی ہے ادھر آتے آتے اور پھر یقین کا برتن بھی خالی سمجھتے ہو۔اوئے تیرے سائیں ابھی مرے نہیں۔سوہنے کانام لیکر دکھی لوگوں کو کلمے دیتے رہاکر،اور اسکا اجر اس سوہنے پر چھوڑ دے، جس نے وعدہ کیا ہے اور وہ اپنے وعدے کا پکا ہے۔جا پُتر ستے خیراں ‘‘

ایسے بہت سے سہانے اور امیدوں بھرے خواب میں پہلے بھی دیکھتا آرہاتھا لیکن سچی بات ہے میں خوابوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیا کرتا تھا۔کیونکہ کچھ ایسے تجربات سے گزرچکا تھا جب خواب کی رہنمائی میں بربادی کا سودا کربیٹھتا تھا۔ یہ انسان کی خوابیدہ اور آسودہ خواہشوں کا نتیجہ بھی ہوتے ہیں ،مگر ہمارے دین میں جن سچے خوابوں کی وعید بیاں کی جاتی ہے وہ خواب نیک اور پارسا لوگوں کو ہی آسکتے ہیں ۔خیر میں اس معیار پر پورا نہیں اترتا تھا اور کم ازکم یہ بات مجھے تو اپنی حد تک معلوم تھی۔

آپا اس دوران فون کرکے مجھے بتا تی جارہی تھیں کہ انہوں نے وظیفہ شروع کردیا ہے لیکن میں اندر سے بہت زیادہ خوفزدہ تھا ۔لیکن اگلے ہی ہفتے آپا کا فون آگیا’’بھائی ایک انجینئر کا رشتہ آیا ہے ،لڑکا کینیڈا میں ہے اور جلد از جلد شادی کرنا چاہتے ہیں۔وہ تو ثنا کو انگوٹھی بھی پہنا گئے ہیں حالانکہ میں آپکو بلانا چاہتی تھی لیکن یہ سب اتنا اچانک ہوا ہے کہ میں آپ کو اطلاع بھی نہیں دے سکی۔آپ بتائیں کیا کریں‘‘

آپا کی مسرتوں میں ڈوبی آوازسن کر میرے اندر کوئی خوشی سے چیخ چیخ کر کلکاریاں مارنے لگا۔گلا رندھ گیا’’آپا بسم اللہ کرو،صدقہ اتارو،دیر نہ کرنا ،یہ رشتہ اوپر والے نے خاص طور پر بھیجا ہے۔۔۔‘‘میں یہ خبر سن کر نہال بھی ہورہا تھا اور ندامت میں بھی ڈوب رہاتھا۔۔۔کہ میں نے اپنے سوہنے ربّ کانام پڑھنے کو دیا اور گماں میں کمزور رہ گیا۔یقین کوماردیاتھا۔

ثنا کی چند روز میں ہی رخصتی ہوگئی اور پھر آپا نے تو یہ بات دور دور تک پھیلا دی کہ یہ کس کی دعا سے ہوا ہے۔میں آپا کو روکتا رہ گیا لیکن بہت سے اور دکھیارے مجھے دکھی کرنے کے لئے چلے آئے،کسی کو نوکری کا مسئلہ تھا اور کوئی ساس اور نند سے دکھی تھا۔خیر میں نے سب کو وظائف بتائے لیکن جس کو خاص کیفیت میں وظیفہ دیا وہ تر گیا اور جس کو عام حالت میں بتایا اسکا مسئلہ حل ہونے میں دیر لگی یا بالکل نہیں ہوا۔لیکن اس دوران میرے ساتھ خود عجیب و غریب حالات پیش آنے لگے۔

دوسری قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں

مزید :

مافوق الفطرت -