کالا پہلوان 1928ء میں چوہٹہ مفتی باقر لاہور میں پیدا ہوا۔اس کے والد بڑے ملنسار اور نیک انسان تھے لیکن ان کی طبیعت کراری اورزود اثرتھی۔کسی غلط بات پر جلد غصہ میں آجاتے تھے۔ کالا کے والد خلیفہ چنن دین فن پہلوان سے غائیت درجہ محبت کرتے تھے۔ ان کا گھرپہلوانوں کی سرائے بن گیا تھا۔ جب بھی لاہور میں کسی دنگل کا اہتمام ہوتا ۔ اکثرٹھیکیدار اورپہلوان ان کے ہاں ٹھہرتے۔کشتیوں کے انعقاد کے سلسلے میں خلیفہ چنن دین کی رائے اور صلاح مشورہ سے قدم اٹھاتے تھے۔
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر68 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
کالا پہلوان ابھی بچہ ہی تھا کہ اسے بڑے پہلوانوں کی صحبت ملنے لگی ۔وہ اپنے مہمان پہلوانوں کے ساتھ چمٹا رہتا اور شاہ زوروں سے منسوب واقعات وکہانیاں سنا کرتا۔پہلوان بھی اسے اٹھا کرطاقت و فن کے اس کھیل سے منسوب لوریاں سناتے۔اس عہد میں پنجابی شعراء پہلوانوں کی شان میں قصیدے اوربولیاں لکھا کرتے تھے۔
کالا اپنے بچنے میں ہی ان لوریوں کو اپنے اندرجذب کرنے لگا۔کالا پہلوان ساتھ ساتھ اپنی تعلیم بھی حاصل کررہا تھا۔اس نے ابتدائی تعلیم چوتھی جماعت تک شاہ محمد غوث کے سکول میں حاصل کی۔اس کے بعد شیرانوالہ ہائی سکول آگیا۔ چھٹی جماعت تک وہاں تعلیم حاصل کی اورپھر سکول کو خیرباد کہہ دیا۔اس کے سکول چھوڑنے کا واقعہ بھی بڑا دلچسپ تھا۔ ان دنوں میلہ چراغاں تھا اورخلیفہ چنن دین نے ایک بڑے دنگل کا اہتمام کرایا تھا۔ کالا پہلوان کوسکول میں چھٹیاں تھیں مگرامتحانات کی وجہ سے اسے پڑھائی میں مشغول رکھنے کے لیے بھرپور توجہ دی جارہی تھی لیکن کالا رسیاں تڑا کردنگل جانے کی تیاریوں میں تھا۔آخریہی ہوا۔وہ سب کی نظر سے چھپ کر دنگل دیکھنے چلا گیا۔دوران کشتی خلیفہ چنن دین کی نظرپڑ گئی۔وہ دوڑتا ہوا آیا اورکالا کوگردن سے پکڑ کراوپر اٹھا دیا اورغصہ سے دھاڑا۔
’’کمبخت توپڑھائی چھوڑکرکیوں آیا ہے؟‘‘
کالا پہلوان نے بڑی خود اعتمادی سے جھوٹ بولا۔’’ابا جی کون کافرپڑھائی چھوڑ کر آیا ہے۔ میں تواماں سے اجازت لے کر آیا ہوں۔ صبح سے پڑھ پڑھ کر میرا دماغ چکرکھانے لگا تھا۔ اماں نے کہا کہ ٹھیک ہے اب تم تفریح کرلوتومیں ادھر آگیا۔‘‘
’’تیری زبان بڑی چلتی ہے کالے۔‘‘خلیفہ چنن دین نے کہا۔’’اگر تو نے تفریح ہی کرنی تھی تو کچھ اور کھیل دیکھتے۔ہزاروں کے مجمع میں آکرکشتیاں دیکھنے کیوں آیا ہے۔ اگر کوئی گڑ بڑ ہو گئی، بھگدڑ مچ گئی تو لوگوں کے پاؤں تلے مسلا جائے گا۔ چل دفع ہواور سیدھا گھرپہنچ جا۔‘‘
’’ابا جی!‘‘کالا یکدم روہانسا ہوکربولا۔ ’’ابا جی ایک کشتی دیکھ لینے دیجئے پھر میں چلا جاؤں گا۔‘‘
دنگل کا ٹھیکیدار بھی اس وقت قریب تھا۔اس نے خلیفہ چنن دین سے کہا۔’’خلیفہ جی بچے کوشوق پورا کرنے دیں۔کیوں اس کا دل توڑ رہے ہیں۔‘‘
’’بھئی میں اس کی عادتیں خراب نہیں کرنا چاہتا۔یہ کون سی اصیل بوٹی ہے کہ میں اس کوپہلوانی کی لذت سے آشنا کردوں۔ ناں بھئی پہلوانی بڑا’’روکھا پیشہ ہے‘‘ میں اس کوپڑھانا لکھانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’خلیفہ جی!‘‘ٹھیکیداربولا۔ ’’یہ توبڑا ظلم ہے۔خود دنگل کراتے پھرتے ہیں اور اپنے بچے کے لیے پہلوانی شجر ممنوعہ قرار دے رہے ہیں۔‘‘
خلیفہ چنن دین کوپھرغصہ آگیا اورٹھیکیدار سے بولا۔ ’’تو اس کا مامانہ بن اوراپنے کام سے کام رکھ۔میں بہترجانتا ہوں کہ مجھے اپنے لڑکے کوکیا بنانا ہے۔‘‘
کالا پہلوان اپنے والد اور ٹھیکیدار کی نوک جھونک کے دوران طرح دے گیا تھا اور ہجوم میں غائب ہوگیا۔ اس دوران دنگل میں ایک عجیب اعلان ہوا۔ انتظامیہ نے بڑی اورچھوٹی جوڑوں کے درمیان شوقیہ جوانوں کوپہلوانی کی طرف راغب کرنے کے لیے اکھاڑے میں مدعوکیا اوراس کے لیے اعلان کیا۔
’’جو نوجوان یا بچہ شوقیہ کشتی لڑنا چاہتا ہے۔ اکھاڑے میں آجائے۔‘‘
پرہجوم دنگل میں سے تیس سے لگ بھگ پندرہ سالہ سال کے لڑکے لنگرلنگوٹ کس کرمیدان میں آگئے۔ کالا بھی اپنے والد سے آنکھ بچاتا ہوا لنگوٹ کس کرقطار میں کھڑا ہوگیا۔ اس نے کسی پہلوان سے تیل لے کر اپنے بدن پرمالش کرلی تھی اورخود کو چھپانے کے لیے اپنے چہرے پرمٹی کا لیپ کرلیا تھا۔ خلقت تواس کی اس ہیئت پرمسکرا رہی تھی مگروہ اپنے بچاؤ کے لیے یہ سب کچھ کررہا تھا۔ اسے خوف تھا کہ کہیں والد پہچان کرسب کے سامنے اس کی درگت نہ بنا دیں۔سب لڑکوں کی جوڑیں طے کی جانے والی تھیں کہ بارہ سالہ کالا نے اکھاڑے میں قدم رکھ دیا اوراس قطار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
’’ان میں سے جو بھی مجھ سے لڑنا چاہے۔ آجائے۔ میں باری باری سب کو دعوت دیتا ہوں۔‘‘
لوگ اس نوخیر پہلوان کی تعلّی پر مسکرائے۔ منصفین نے اس کے چیلنج کا احترام کیا اوردنگل کودلچسپ بنانے کے لیے اس کے مقابل ایک بڑے لڑکے کو اکھاڑے میں اتارا۔ جونہی وہ لڑکا سامنے آیا،کالا نے اسے ڈھاک مارکرگرا دیا۔ خلقت اس کی تیزی طراری پرعش عش کراٹھی۔ پھر دوسرا لڑکا میدان میں اترا۔ کالا نے اس کے پٹ کھینچ لیے اوروہ بھی چت ہوگیا۔ پھرتوصرف دس منٹ کے دوران ہی کالا نے تمام شوقیہ پہلوانوں کوپچھاڑ کررکھ دیا۔ اس دوران کالا پہلوان کے چہرے سے مٹی کا لیپ اتر چکا تھا۔خلیفہ چنن دین نے اپنے دیوانے فرزند کو پہچان لیا تھا۔ کالا پہلوان کا شوق اس سے پوشیدہ تھا۔ وہ وفور مسرت سے اکھاڑے میں گیا۔
یہاں بڑی دلچسپ صورت حال بن گئی۔ کالا نے جونہی اپنے باپ کواکھاڑے کی طرف آتے دیکھا جھٹ سے دوڑا اورلمحوں میں ہجوم چیرتا ہوا چلا گیا۔ کالا رکا نہیں۔ اس نے اپنی شامت اعمال کو آواز دی تھی۔ اس نے ایک بار بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اورسیدھا گھرپہنچ کرسانس لی۔ والدہ نے اس کی حالت دیکھی تو ڈنڈا لے کر اس کے پیچھے پڑ گئی۔ کالا نے سارا ماجرا صاف صاف سنا دیا تو ماں اپنے بچے کی جوانمردی پر نہال ہوگئی۔ اس نے کالا کا منہ چوما اور تسلی دی۔’’کالے پتر میں آج تک تیرے ابا کے آگے بولی نہیں مگر آج تجھے ان سے مار نہیں پڑنے دوں گی۔‘‘
شام کو خلیفہ چنن دین گھر آیا تو آتے ہی کالا کوطلب کیا۔ کالا کی بجائے اس کی ماں وکیل صفائی کے طورپرپیش ہوئی اورکہا۔’’آج آپ میرے کالے کو کچھ نہیں کہیں گے۔ہاں۔۔۔اگر اسے شوق ہے تواسے اب پہلوانی ہی سکھائیں گے۔‘‘
خلیفہ چنن دین نے بچے کی وکالت میں ماں کوخم ٹھونک کرکھڑے ہوتے دیکھا تونرم پڑ کربولا۔
’’بھاگاں والیے! میں اس شیدائی کوکیا کہوں گا۔میں توخدا کا شکرگزار ہوں کہ اس نے چراغ سے چراغ جلا دیا ہے۔ بس اب میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ میرا کالیہ سکول نہیں جائے اورصبح سے اکھاڑے میں ہی اس کی درس و تدریس ہو گی۔‘‘
کالا نے فیصلہ سنا تو شاد ہوگیا۔ وہ چاہتا بھی تویہی تھا۔ خلیفہ چنن دین نے اسے بابا چنگا کی شاگردی میں دے دیا۔ بابا چنگا کے ہاتھوں سے بڑے بڑے شاہزور نکلے تھے۔ وہ نیک دل اوراچھا انسان تھا۔ کالاپہلوان نے بارہ سال کی عمر میں گوندی والے اکھاڑے میں پہلوانی شروع کی۔بابا چنگا نے اس خام پہلوان کوبہت جلد کندن بنا دیا اور آنے والے دنوں میں لاہور میں جوبھی دنگل ہوتا کالا پہلوان کی جوڑضرورہوتی۔
1939ء میں جب کہ کالا ابھی ساڑھے بارہ سال کے قریب تھا،کشن چند کوگرا کرسب کی نظروں میں آگیا تھا۔وہ شوقیہ کی بجائے اب پیشہ ورپہلوان بن گیا۔ ان دنوں چھوٹی جوڑ کوکشتی لڑنے کا معاوضہ 5روپے ملتا تھا اورکشتی گرا کردس بارہ روپے بطور انعام ہو جاتے تھے۔ کالا ان روپوں کو پس انداز کرلیتا اوراپنے اخراجات خود اٹھانے لگا۔ اچھے دن آنے لگے اور کالا کا معاوضہ بڑھتا گیا۔
کالا نے کرامت پہلوان کو اپنا آئیڈیل بنا لیا تھا۔ اس دور میں لاہور میں کرامت کا طوطی بول رہا تھا۔کالا دل میں خواہش کرتا کہ کاش وہ بھی کرامت جیسا شاہ زور بن جائے۔ ایک دن اس نے بابا چنگا سے بھی اپنی اس خواہش کا اظہار کر دیا توجواب ملا۔’’کالے پتر، شیراں نال کشتی کرن لئی شیربننا پیندا اے۔‘‘
’’با با جی! میں توشیر بننے کے لیے بے چین ہوں۔آپ بسم اللہ کریں اورمجھے جس مشقت میں سے گزاریں گے میں گزروں گا۔‘‘
پھرچند سال بعد ہی کالا پہلوان شیر بن گیا۔ اس نے کرامت پہلوان سے کشتی کی ضد کی اورٹھیکیداروں نے ان کا ایک کانٹے دار جوڑ طے کردیا۔ آخروہ وقت بھی آگیا جب کالا کرامت سے جوڑپکا ہوگیا۔ یہ کشتی منٹوپارک میں ہوئی۔ کالا پہلوان نے کرامت کوچت کردیا۔ملک واحد کرامت پہلوان کے بہت بڑے حامی تھے۔ انہوں نے شور مچا دیا۔
’’ایہہ ڈگ ڈیہہ نہیں ہوسکتی۔۔۔ جب کالا کرامت کا جوڑ ہی نہیں تو وہ کیسے کرامت کوصاف چت کرسکتا ہے۔یہ کشتی دوبارہ ہوگی۔‘‘
’’ملک جی کچھ خدا کا خوف کرو۔‘‘خلیفہ چنن دین نے کہا۔’’لوگ اندھے تونہیں۔صاف نظر آیا ہے کہ کالا نے کرامت کوگرا دیا ہے۔ خواہ مخواہ پکھنڈ بازی نہ کریں۔‘‘
’’توباپ ہے اس لیے بیٹے کی حمایت کررہا ہے۔ اگرتوسچا پہلوان ہے توصاف صاف بتاؤ کہ کالا کرامت کا جوڑ ہے۔ وہ توکئی درجے نیچے ہے۔‘‘ملک واحد نے ہاتھ نچا کرکہا۔
’’جوڑ تھا توتبھی میدان میں آیا ہے۔‘‘خلیفہ چنن دین نے جواباً آستین چڑھاتے ہوئے کہا۔
’’ناں بھئی!ہم اس فیصلے کو نہیں مانتے۔ اگرتمہیں اتنا ہی وثوق ہے کہ تمہارا کالا جیت گیا ہے تومیں تمہیں دوبوری بادام، دوٹین دیسی گھی اور تین ہزار روپیہ نقد انعام دیتا ہوں اورکالا سے کہو دوبارہ کرامت سے کشتی لڑے۔‘‘
خلیفہ آگ بگولا ہو گیا اور تیز لہجے میں کہا۔’’ملک اگر تومرد کا بچہ ہے تو میدان سے نہ بھاگنا۔ تم دو بوری بادام اوردوٹین دیسی گھی اورتین ہزار روپیہ ادھر رکھو۔ میرا کالا ابھی کشتی لڑ کر دکھائے گا اوراسوقت تک کالا میدان سے نہیں نکلے گا جب تک تم اسے نہیں کہوگے۔‘‘
ملک واحد صاحب حیثیت شخصیت تھا۔ اس نے بندے دوڑائے اورانعام کی مطلوبہ چیزیں اوررقم منگوا کر میدان میں رکھ دیں۔دنگل میں سناٹا چھا گیا اور لوگ اپنی نشستوں پریہ طرفہ تماشا دیکھنے لگے۔ کرامت اورکالا دوبارہ میدان میں آگئے مگرکالا نے آتے ہی فیصلہ کردیا اورصرف ایک منٹ میں کرامت کودھوبی پاٹ مارکرچٹ کردیا اورخود کرامت کی چھاتی پربیٹھ کراپنا منہ ملک واحد کی طرف کرلیا۔(جاری ہے)
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر70 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں