معاشی بحالی کے لئے کیا اقدامات کرنا ہوں گے؟
بزنس ایڈیشن
حامد ولید
13ستمبر کو ہونے والا وفاقی کابینہ کااجلاس کئی اعتبار سے اہم تھا کیونکہ اس سے پیشتر افواہوں کا بازار گرم تھا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے مسلم لیگ (ن) کے پیش کردہ وفاقی بھٹ پر نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے جس کے ٹحت گشزشتہ دور حکومت میں ٹیکس استثنیٰ میں بھی ترمیم لائی گائے گی۔ مختلف مققر روزمانوں کے ذرائع کا دعویٰ تھا کہ نون لیگ کی حکومت نے 12لاکھ روپے تک سالانہ آمدن والوں کو انکم ٹیکس سے استثنیٰ دیا تھا لیکن اب وفاقی حکومت اس حد کو کم کرکے 8لاکھ تک کرے گی۔ نئے وفاقی بجٹ میں 400ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جائیں گے۔ ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کی جائے گی اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا امکان ہے۔ ان ذرائع کے مطابق حکومت ٹیکس تیونیو بڑھانے کئے لئے فنانس بل میں تجاویز پیش کرے گی جبکہ تمام درآمدری اشیاء پر ایک فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کی تجویزی دی جائے گی جس سے حکومت کو خاطر خواہ آمدنی حاصل ہونے کا امکان ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ خبریں بھی گردش کر رہی تھیں کہ حکومت نے پی ایس ڈی پی میں 400ارب روپے کمی کا فیصلہ کیا ہے جس کے لئے نئی بجٹ تجاویز کابینہ کے اجلاس میں پیش کی جائیں گی جس کی منظوری کے بعد ان بجٹ تجاویز کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔
قبل ازیں وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے فنانس ایکٹ 2018میں تمیم کا عندیہ دیا تھا اور ٹیکس مراعات کو واپس لینے کی بات کی تھی۔ ذرائع کے مطابق فنانس ایکٹ 2018میں دی گئی ٹیکس مراعات کو واپس لیا جائے گا جبکہ غیر منقولہ اثاثون کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔ اس کے علاوہ سگریٹ سمیت دیگر مصنعوات پر ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کا بھی امکان ہے۔ پانچ ہزار سے زائد درآمدی اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافے کی تجویز ہیاور منی بجٹ میں جاری کھاتوں کے خسارے اور بجٹ خسارے کے نئے اہداف مقرر کیے جائیں گے کیونکہ رواں مالی سال کے پیش کردوہ اہداف سے جاری کھاتوں کا خسارہ اور بجٹ حسارہ بہت آگے جاچکا ہے۔ اسی طرح جی ڈی پی ، افراط زر کے اہداف پر بھی نظر ثانی کرکے نئے اہداف مقرر کیے جائیں گیاور ایف بی آر کے ریونیو ہدف کو بھی تبدیل کرکے حقیقت پسندانہ کیا جائے گا۔دوسری زرات تجارت کے ذرائع کیمطابق برآمدات میں اضافے کے لئے برآمدی پیکج بھی پیش کیا جا سکتا ہے جبکہ درآمدات میں کمی کے لئے درآمدی اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی اور اضافی ڈیوٹی عائد کیے جانے کا امکان ہے۔
تاہم وفاقی کابینہ کے اجالسہ کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی کابینہ نے بیرون ملک سرمانئے اور اثاثہ جاتی کی واپسی کے لئے ریکوری یونٹ کے قیام کی منظوری دے دی ہے۔ سی ڈی اے کو وزات داخلہ کے ماتحت کردیا گیا ہے جبکہ وزارت خیڈ ڈویژن ختم کرکے، سرکاری ٹی وی کے بورڈ آف ڈائیریکٹرز، اداروں میں ریگولیٹری نظام کیکارکردگی ب ڑھانے کے لئے ٹاکس فورس قائم کرنے اور کھاد کی کمی دور کرنے کیلئے ایک ٹن لاکھ کھاد درآمد کی منظوری دی گئی ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ ابھی نہیں کیا گیا ہے تاہم انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس لانے کی بجائے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ڈیم فیڈ کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے ، کابینہ کے اجلاس میں بجلی مہنگی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور نہ ہی گیس کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وزری اعظم ہاؤس کی گاڑیوں کی نیلامی 16ستمبر کو کی جائے گی تاہم چار ہیلی کاپٹروں کی نیلامی کا فیصلہ نہیں کیا گیا ہے ۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس سے برآمد ہونے والی یہ خبر عوام کے لئے انتہائی اطمینان بخش ہے کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جا رہا ہے ۔ تاہم عوام میں پائی جانے والی بے چینی اس بات پر ہے کہ ایک دن پہلے حکومت کی طرف کچھ اور عندیہ دیا جاتا ہے اور اگلے روز اس کے برعکس بات کردی جاتی ہے ۔ عوامی حلقے اس کو بھی یوٹرن سے تعبیر کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر اوگر ا کی جانب سے گیس کی قیمتوں میں 46فیصد اضافے کی وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے منظوری کی خبر اخبارات کی زینت بنی تو عوام میں تذبذب کی لہر دوڑ گئی ۔ اس کے بعد تسلسل کے ساتھ یہ تاثر دیا جاتا رہا کہ حکومت کے پاس سبسڈی کی واپسی کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے ۔ تاہم کابینہ کے اجلاس میں یوٹرن لے لیا گیا اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا کہ گیس اور بجلی کی قیمتوں میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا ہے ۔ اگرچہ عوام نے اس پر اطمینان کا سانس تو لیا ہے لیکن وہ گومگو کی کیفیت سے باہر نہیں نکلے ہیں اور اکثر یہ شکائت کرتے نظر آرہے ہیں کہ ان کو بجلی اور گیس کے بل بڑھا کر بھیجے گئے ہیں۔ اس اعتبار سے اس کے باوجود کہ کابینہ نے ایسی کوئی منظوری نہیں دی ہے عوام میں تشویش کی لہر ایسی دوڑی ہے کہ وہ پرانی قیمتوں پر وصول ہونے والے یوٹیلیٹی بلوں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے ایسی بے یقینی کا اظہار کیوں کیا جا رہا ہے ۔ بجائے اس کے کہ حکومت کے آغاز پر عوام کے ریلیف پیکج کا اعلان کیا جاتا اور ملکی ترقی کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کئے جاتے ، حکومت ایک ہاتھ سے فیصلہ کرتی ہے اور دوسرے سے واپس لیتی نظر آتی ہے ۔
معاشی ماہرین کا ماننا ہے کہ اس کا سبب حکومت کا گورنینس سے ناواقفیت کا اظہار ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو ابھی تک سمجھ نہیں آرہی ہے کہ اس نے عوام کو پہلے انڈہ دینا ہے یا مرغی !....جس طرح کہا جاتا ہے کہ جنگ کھیڈ نئیں ہندی زنانیاں دی اسی طرح یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حکومت ہر ایرے غیرے کی بس کی بات نہیں ہوتی کیونکہ اس میں آپ کو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنا ہوتا ہے اور کروڑوں عوام کامستقبل آپ کے ہاتھوں میں ہوتا ہے ۔ عوام حکومت کی گاڑی میں بیٹھ کر جلد از جلد اپنا سفر طے بھی کرنا چاہتے ہیں اور محفوظ بھی رہنا چاہتے ہیں ۔ یوں گاڑی تب تک نہیں چل سکتی جب تک کہ ڈرائیور اپنے کام میں ماہر اور مشاق نہ ہو۔ موجودہ حکومت کا یہی مسئلہ ہے اور خود وزیر اعظم عمران خان نے اپیل کی ہے کہ انہیں سو دن کی تکمیل سے پہلے بے جا تنقید کانشانہ نہ بنایا جا ئے ۔ اگر پہلے تین ماہ میں وہ اپنے دعدوں کیمطابق اہداف حاصل نہ کرسکے تو بھلے ان کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ دیکھا جائے تو اپوزیشن نے اس حوالے سے حکومت سے اتفاق بھی کرلیا ہے اور حکومت کو تین ماہ دینے پر رضامند بھی نظر آتی ہے لیکن عوام کی بڑی تعداد مسائل کا فوری حل چاہتی ہے اور اپوزیشن سے زیادہ اوتاولی نظر آتی ہے ۔ چنانچہ حکومت کو اس طبقے سے نپٹنے کے لئے ایسے ٹھوس اور فوری اقدامات لینے ہوں گے جس سے ان طبقات کی دلجمعی یقینی بنائی جا سکے۔
ایسے ہی طبقات میں ایک طبقہ پاکستانی ایکسپورٹروں کا بھی ہے ۔ روائتی طور پر پانچ ایکسپورٹ اندسٹریوں کو حکومت کی جانب سے ہر طرح کی مراعات یقینی بنائی جاتی ہیں تاکہ وہ بغیر کسی تکلیف اور پریشانی کے برآمداتی اشیاء تیار کرکے ایکسپورٹ کرکے ملک کے لئے قیمتی زرمبادلہ کماسکیں اور ان ذخائر میں اضافہ کرسکیں جس سے پاکستان کی عالمی برادری میں ساکھ قائم ہوسکے۔
ان برآمداتی صنعتوں میں ٹیکسٹائل انڈسٹری سب سے بڑھ کر ہے جو ان دنوں حکومتی عہدیداروں سے ملاقاتوں کا اہتمام کررہی ہے اور جلد از جلد ایک برآمداتی پیکج کو فائنل کرنا چاہتی ہے ۔ اس ضمن میں آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کی مرکزی قیادت گروپ لیڈر گوہر اعجاز کی قیادت میں وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر اور مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد سے ملاقات کی اور انہیں تفصیل سے انڈسٹری کی صورت حال سے آگاہ کیا اور مطالبہ کیا فوری طور پر انڈسٹری کی پیداواری لاگت کو کم کیا جائے اور نہ صرف ریجن میں بلکہ خود ملک کے اندر بھی انرجی کے ذرائع، بشمول بجلی اور گیس، کی قیمتوں میں یکسانیت کو یقینی بنایا جائے تاکہ لیول پلیئنگ فیلڈدستیاب ہو سکے۔ انڈسٹری ذرائع کہتے ہیں کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں برآمداتی پیکج کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہ ہونے کے سبب سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ قبل ازیں جب ٹیکسٹائل انڈسٹری کا ایک وفد وفاقی وزیر خزانہ اور مشیر تجارت سے ملا تھا تو اس وقت انڈسٹری حلقوں میں یہ تاثر عام تھا کہ اگلے دو ہفتوں میں حکومت برآمداتی پیکج کا اعلان کرتے ہوئے ملک کے اندر بجلی اور گیس کی قیمتوں کے ضمن میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لئے ایک سپیشل ٹیرف کا اعلان کردے گی ۔ لیکن دو ہفتے مکمل ہو چکے ہیں اور اس حوالے سے خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ انڈسٹری حلقوں کی تشویش میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس ضمن میں فوری طور پر اعلان کو یقینی بنائے اور ایسے اقدامات کرے جس سے انڈسٹری کے حلقوں کی تسلی ہو سکے کیونکہ بے جا تاخیر کے سبب اگر انڈسٹری کی ملیں ایک مرتبہ بند ہوگئیں تو انہیں دوبارہ سے چلانا ممکن نہ ہوگا۔
اسی طرح ملک کے اندر جاری معاشی عدم استحکام کا خاتمہ بھی ضروری ہے ۔ سٹاک مارکیٹ تسلسل سے مندی کا شکار ہے ، روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہونے کا اندیشہ قائم ہے ، ڈویلپمنٹ ورک نہ ہونے کی وجہ سے ملک بھر میں لگ بھگ چالیس کے قریب انڈسٹریاں خاموش کھڑی ہیں جس وجہ سے ملک بھر میں معاشی جمود کا دور دورہ ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت فوری طور پر ترقیاتی بجٹ کے اجراء کو یقینی بنائے تاکہ لوگوں کے ذریعہ آمدن میں تسلسل برقرار رہے۔ دوسری جانب اخباری صنعت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے کیونکہ انتخابات سے قبل ہی اس صنعت کی زبوں حالی کا آغاز ہو گیا تھا ۔ اے پی این ایس کے ایک اخباری اشتہار کے مطابق 1.6ارب روپے حکومتی اداروں کے ذمے واجب الادا ہیں لیکن نہ تو ان رقوم کے اجراء پر کوئی پیش رفت ہوئی ہے اور نہ ہی نئے اشتہارات کا اجراء یقینی بنا ہے جس وجہ سے اخباری صنعت سے وابستہ ہزاروں لاکھوں افراد کی نوکریاں خطرے میں ہیں اور وہ جو کہ نوکریوں پر قائم ہیں ان کو بروقت تنخواہوں میں وصولی میں مشکلات کا سامنا ہے ۔ حکومت کو اس ضمن میں بھی فوری پالیسی کا اجراء کرنا چاہئے تاکہ اس صنعت کو بچایا جاسکے۔
ملک کی موجود معاشی صورت حال اس امر کی گواہی دیتی ہے کہ تاحال وہ معاشی سرگرمیاں شروع نہیں ہوسکی ہیں جن کی موجودہ حکومت سے توقع کی جا رہی تھی ۔ لیکن حکومتی حلقوں کا ماننا ہے کہ عوام نے توقعات کی فوری تکمیل کی آس لگالی ہے اور حکومت کو اپنے ہاتھ پاؤں بھی سیدھے کرنے کی اجازت دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ ملک کے سیاستدانوں کو انتخابات کے دوران اپنے وعدوں اور دعوں کے ضمن میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے ۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے حوالے سے عمومی تاثر یہ تھا کہ حکومت میں آتے ہی یہ جادو کی چھڑی گھمائے گی جس سے دولت کی ریل پیل ہو جائے گی، بیرون ملک مقیم پاکستانی ڈالرون اور پاؤنڈوں کی بارش کرتے ہوئے ملک میں سرمایہ کاری کا آغاز کردیں گے لیکن ایساکچھ نہ ہو ا اور اس کے برعکس سی پیک کے حوالے سے بھی خدشات نے سر اٹھانا شروع کردیا ہے۔ حکومت کی جانب سے اگر حالات پر بروقت قابو پانے کے اقدامات نہ کیے گئے تو معاملات مزید بگاڑ کا شکار ہو سکتے ہیں ۔
سرخیاں
ٹیکسٹائل انڈسٹری ایک مرتبہ بند ہوگئی تو دوبارہ سے چلانا ممکن نہ ہوگا
عوام مسائل کے فوری حل کے لئے اپوزیشن سے زیادہ اوتاولی نظر آتی ہے
عوام پرانی قیمتوں والے یوٹیلیٹی بلوں کو بھی شک سے دیکھ رہے ہیں
تصاویر
وزیر اعظم عمران خان
وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری
ٹیکسٹائل انڈسٹری