پاکستان میں پانی کی کمی۔۔۔۔۔۔سنجیدگی سے غور کی ضرورت
ضیاء الحق سرحدی پشاور
ziaulhaqsarhadi@gmail.com
پاکستان میں 2025تک پانی کے بحران کا اتنا شدید ہو جائے گا کہ ہم بوند بوند کو ترسیں گے۔علاقائی حالات کا اگر جائزہ لیا جائے تو انڈیا جس تواتر کے ساتھ ہمارے دریاؤں کے پانی پر قبضہ کر رہا ہے اس سے ہمارا زرعی شعبہ بھی تباہ وبرباد ہو جائے گا۔سندھ طاس معاہدہ جس کے تحت کچھ دریاؤں پر ہمارا حق تسلیم کیاگیا تھا اور کچھ پر بھارت کا،ہماری گزشتہ حکومت نے معاہدے کے تحت ہندوستان کی آبی جارحیت کو لگام ڈالنے کے لئے بین الاقوامی اداروں سے جو اس معاہدے میں گارینٹر تھے رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ اس معاہدے میں ان اداروں کا کردار بہت محدود ہے۔اس کے علاوہ ایک عام بات گردش کر رہی ہے کہ ہمارا مقدمہ بہتر طریقے سے پیش ہی نہیں کیا گیا ۔شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ اس میں حکومت نے جن افراد کو شامل کیا تھا ان کا تعلق پاکستان سے نہیں تھا۔بھارت جس نے ان دریاؤں پر جو کہ اس کے علاقے سے بہہ کر آتے ہیں 60سے زیادہ ڈیم تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔جس میں سے تقریباً 27ڈیم مکمل کر چکا ہے۔اس معاملے کی سنگینی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اگر وہ دریائے نیلم کے پانی کا رخ موڑے تو اس خطے کی کئی لاکھ ایکڑ اراضی بنجر ہو جائے گی۔اس سلسلے میں ہماری کار کردگی یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد ہم نے صرف دو ڈیم بنائے ہیں ان میں بھی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بہت کم رہ گئی ہے۔چونکہ ان ڈیموں میں ریت بھر چکی ہے ۔ایک شارٹ ٹرم منصوبے کے تحت ان ڈیموں اور دریاؤں سے ریت نکال کر پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کر سکتے ہیں مگر لانگ ٹرم منصوبوں کے لیے ہم نے بہت دیر کر دی۔حکومت کے پاس کوئی جاندار اور جامع منصوبہ نہیں ہے۔ دوسری طرف پینے کے پانی کا بحران انتہائی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ایک اطلاع کے مطابق زمینی پانی سینکڑوں فٹ نیچے چلا گیا ہے۔زیر زمین پانی کی مقدار کو موجودہ آبادی اور اس میں اضافے کی شرح کے تناسب سے دیکھیں تو واقعی پینے کے پانی کی مقدار چند سالوں کے لئے ہے۔کچھ ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ اگر صحیح طریقے سے اور کھل کر بارشیں ہوں اور اپنے وقت پر ہوتی رہیں تو زیر زمین پانی کی سطح تھوڑی بلندہو سکتی ہے۔ چونکہ زیر زمین پانی کی سطح کا کم ہونا، بارشیں زیادہ سے زیادہ ہونا یہ سارے قدرتی کام ہیں اور ہمارے کرنے کا جو کام ہے وہ یہ ہے کہ پانی کے ضیاع کو روکیں ،تاکہ پانی کے ذخائر کو زیادہ دیر تک استعمال میں لایا جا سکے۔پانی زندگی کا تسلسل جاری رکھنے کے لیے لازمی جزو ہے اس لئے پانی کے ضیاع کو روکنا کوئی آسان کام نہیں مگر یہ ناممکنات میں شامل نہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ دریا میں بہتے پانی پر ان گنت جاندار چیزوں کا دارومدار ہوتا ہے۔کم ازکم ایک خاص مقدار کا پانی سارے سال بہناچاہیے۔لوگ صدیوں سے دریاؤں کے کنارے آبادہوتے آرہے ہیں کہ یہاں سے پانی ملے گا جس کو وہ اپنی ضروریات اورفصلوں کو اُگانے کے لیے استعمال کریں گے۔دریا خشک ہونے سے ان لوگوں کا کیا حال ہوگا۔ جن دریاؤں کا پانی خشک کیا گیا ہے ان کی90فیصد لمبائی پاکستان میں ہے اور صرف تھوڑا سا حصہ ہندوستان سے گزرتا ہے۔جن لوگوں نے یہ سندھ طاس معاہدہ کیا تھا ان میں ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ شامل تھے۔لوگوں کی اطلاع کے مطابق معاہدہ اتنا سخت نہیں تھا جتنا ہندوستان نے بنا لیا اور دریاؤں کو بالکل خشک کر دیا۔میں سندھ طاس معاہدے کو پاکستان کے خلاف ایک سازش سمجھتا ہوں۔دنیاتماشائی بنی ہوئی ہے۔جن میں امریکہ ،برطانیہ اور تمام بڑے ممالک شامل ہیں۔ہمارے سیاستدان برابر کے اس جرم میں شریک ہیں۔اور اب یہ رٹ لگا رہے ہیں کہ اگلی جنگ پانی پر ہوگی۔مزید فرماتے ہیں کہ 5سال بعد ہم کو پینے کا پانی بھی میسر نہیں ہوگا اور فصلیں خشک ہو جائیں گی۔پاکستان بھی دنیا کے کئی ممالک کی طرح پانی کی کمی اور توانائی کے بحران جیسے مسائل سے دو چار ہے۔یہ مسائل نہ صرف بر قرار ہیں،بلکہ سنگین سے سنگین تر ہو رہے ہیں،گویا صورتِ حال خاصی تشویش ناک ہے۔پاکستان میں پانی کی شدید کمی کا مسئلہ دو وجوہ سے پیدا ہوا ہے۔1960ء میں ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان سندھ طاس معاہدے کے نتیجے میں پاکستان اپنے چھ دریاؤں میں سے تین دریاؤں بیاس،راوی اور ستلج کے پانی کے حق سے محروم ہوا۔اس مسئلے کا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ سال کے جن مہینوں میں پانی کی شدید ضرورت ہوتی ہے،ان دریاؤں میں بالکل پانی نہیں ہوتا،لیکن برسات کے موسم میں جب پاکستان کی سر زمین میں ہر طرف پانی ہی پانی ہوتا ہے تو ہندوستان بھی ان تینوں دریاکے زریعے سیلابی پانی کا رخ ہماری طرف کر دیتا ہے۔اس طرح (پاکستان)پنجاب میں ہر طرف تباہی اور بربادی مچ جا تی ہے اور یہ تماشا کئی سال سے ہو رہا ہے۔پاکستانی سیاسی قیادت اگر دور اندیش اور بصیرت افروز ہو تو اس سالانہ ناگہانی آفت کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔پنجاب اور سندھ کے سرحدی ریگستانی علاقوں چولستان اور تھر کی طرف ہندوستان سے آنے والے سیلابی پانی کا رخ موڑ کر اسے سال کے بقیہ مہینوں کے لیے ذخیرہ کر لیا جائے،ایک مرتبہ ہی پیسے خرچ کر کے بھاری مشینری کے ذریعے زمین کی سطح کو نیچے کر کے مصنوعی جھیلیں اور بڑے تالاب بنا کر ان میں پانی جمع کر لیا جائے۔ان علاقوں سے نکالی جانے والی ریت اور مٹی کو کسی مفید مقصد اور ضرورت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے،اس ذخیرہ شدہ پانی سے مذکورہ علاقوں کی خشک سالی اور پینے کے پانی کی کمی دور کرنے میں مدد ملے گی اور علاقے کی کل معیشت بھی تبدیل ہو جائے گی۔پاکستان میں پانی کی کمی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں بہنے والے دریاؤں میں پانی کی مقدار دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے۔ان دریاؤں میں پانی مقبوضہ وآزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کی جھیلوں ،ندی ،نالوں اور گلیشیئرز کے پگھلنے سے آتا ہے۔ہندوستان اپنے علاقے میں ڈیم پر ڈیم بنا کر پاکستان میں آنے والے پانی کی مقدار مسلسل کم کر رہا ہے۔پاکستان کے احتجاج کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔پاکستان کے دریاؤں میں اگر پانی کی مقدار خاطر خواہ بڑھ جائے،جو بالکل ممکن ہے تو کالا باغ ڈیم سمیت دوسرے ڈیم بنانے کا مسئلہ بھی آسانی سے حل ہو جائے گا۔نیت اور عزم ہو تو
سب کچھ کیا جا سکتا ہے،اگر نہیں تو ایسے ہی گزار ا کرنا پڑتا ہے۔