مولوی سعید اظہر۔۔۔ اللہ تجھے مکمل صحت دے!
مَیں خوداپنے آپ سے شرمندہ تھا اور ہوں کہ لاپرواہی کی اور یہ معلوم ہی نہ کیا کہ اُس کا کیا حال ہے اور اس کے پراسٹیٹ کا جو آپریشن ہوا اس کی کیفیت کیا ہے۔یہ تو بھلا ہو، میاں حبیب اور راجہ ریاض کا کہ انہوں نے فیس بُک پر تصویر پوسٹ کر دی، جس کے مطابق وہ دونوں اور ان کے ساتھ صوبائی مشیر چودھری اکرم پیارے دوست مولوی سعید اظہر کی عیادت کر رہے تھے،چودھری اکرم اطلاع ملنے کے بعد گئے اور نہ صرف عیادت کی، بلکہ یہ اہتمام بھی کیا کہ مولوی سعید اظہر جیسے نابغہ کا علاج بھی سرکاری طور پر کرایا جائے، یہ دیکھ اور جان کر پھر سے مولوی سعید اظہر کے موبائل پر فون کیا،جو اب ندارد، اس کے بعد بھی کوشش کی پھر رابطہ نہ ہو سکا، یہ جمعرات کی بات ہے کہ میرے موبائل نے پکارا تو دیکھا سعید اظہر کی کال تھی، فوراً جواب دیا اور حال احوال پوچھا، نقاہت سے بول رہے تھے۔ بتایا کہ تمہاری کال دیکھ تو لی تھی، لیکن جواب دینے سے مجبور تھا، آج صاحبزادے سے نمبر ملوا کر بات کر رہا ہوں، خیر خیریت دریافت کی تو پتہ چلا کہ مناسب علاج جاری اور کچھ افاقہ بھی ہے، پھر دریافت کرنے پر بتایا کہ سروسز ہسپتال میں زیر علاج ہیں اور پرائیویٹ روم نمبر1میں فروکش ہیں،ہم نے کافی دیر پہلے یہ سب دیکھا ہوا تھا اس لئے اگلے روز(جمعہ) آنے کا وعدہ کر لیا۔
جمعہ کو دفتری امور سے فارغ ہوا تو برخوردار عاصم آ گیا،اسے پہلے ہی بتایا تھا کہ گھر واپسی سے پہلے سعید اظہر کی عیادت کے لئے جانا ہے، چنانچہ دفتر سے سیدھے پہلے سروسز ہسپتال ہی گئے، مَیں اپنی پرانی معلومات اور یادداشت کے سہارے جب دائیں بائیں گھوما تو معلوم ہوا کہ اس جگہ جو کمرے تھے وہ اب انتظامیہ کے دفتر میں تبدیل ہو چکے، پھر پوچھنا پڑا اور دریافت کر کے جب کمرے کی طرف چلے تو راستے میں ایک بلاک ایسا ہے جہاں پر معمار اور دیگر فنکار کام کر رہے اور کمرے تیار کر رہے تھے، بمشکل ادھر سے گزر کر دوسرے حصے میں پہنچے تو عاصم نے نشاندہی کی روم نمبر1 سامنے ہی تھا، دروازہ کھلا اور آڑ لگائی ہوئی تھی کہ تازہ ہوا کا گزر ہو،اندر جھانکا تو حضرت کروٹ لئے لیٹے ہوئے تھے، مَیں نے عاصم سے کہا کہ سو رہے ہیں۔یہ سُن کر مولوی نے فوراً رُخ بدلا اور پہچانتے چہرے پر رونق سی آ گئی اور پھر ہم گلے مل کر آبدیدہ ہو گئے کہ رفاقت بھی کوئی ایک دو سال کی نہیں، بیسیوں برس پر محیط ہے اور بڑے سُکھ، دُکھ اکٹھے دیکھے اور نمٹائے ہوئے ہیں۔یہ بھی ہمارا ایک تعلق ہے کہ ہمارے مشترکہ دوستوں میں سے ایک ’’اہم‘‘ دوست سے میری قطعی ’’کٹی‘‘ اور سعید اظہر کے اس کے ساتھ ذاتی تعلقات کے باوجود ہمارے مراسم میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔
علالت کی تفصیل معلوم کرنے پر بتایا کہ کچھ عرصہ قبل ’’پیش آب‘‘ میں رکاوٹ پیش آئی تو ڈاکٹر سے رجوع کیا، بتایا گیا کہ پراسٹیٹ گلائنڈ بڑھ گئی جو خراج کی راہ میں رکاوٹ ہے اسے آپریشن سے ہٹانا پڑے گا،چنانچہ نجی ہسپتال میں اِس مرحلے سے گزر گئے،اِس دوران میرا بھی رابطہ ہوا تھا اور بہتری کی اطلاع سے مطمئن ہو گیا، اس کے بعد سعید کے کالم بدستور شائع ہوتے چلے آ رہے تھے، اِس لئے یہی تصور ہوا کہ وہ صحت مند ہو چکے ہیں،لیکن حقیقت میں ایسا نہ ہو سکا، مولوی سعید اظہر کے مطابق وہ پھر سے اسی تکلیف میں مبتلا ہوا، تو ایک اور نجی ہسپتال سے رجوع کیا، بات نہ بنی، کئی مسائل سامنے تھے، چنانچہ سروسز ہسپتال کا رُخ کیا جہاں باقاعدہ یورالوجی کا شعبہ اور ماہر ڈاکٹر ہیں، یہاں آ کر انفیکشن کا پتہ چلایا گیا اور علاج شروع ہوا، جس سے افاقہ ہو رہا ہے اور اب بہتری کے آثار ہیں۔
مولوی سعید اظہر ایک درویش صفت صحافی ہے، جو پی ایف یو جے کے آئین کے بالکل مطابق صحافی کا درجہ رکھتا ہے کہ اُس کی روٹی روزگار اسی پیشے سے وابستہ ہے،اُس نے بھی بہت گرم و سرد دیکھے، مختلف اداروں اور بڑے بڑے نام والے حضرات کے ساتھ کام کیا، تحریر میں پختگی اور بانکپن بھی ہے،گفتگو میں مزہ اور دلائل ہیں،ادب کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے۔میرے ساتھ بہت دیرینہ تعلق پیش�ۂ صحافت، رات کی محافل اور ٹریڈ یونین کے حوالے سے بھی ہے اور ہم دونوں انتہائی بے تکلف بھی ہیں، مولوی سعید اظہر حقیقی سینئر ہے، دو نمبر نہیں کہ آج جب سینئر کہا جائے تو مجھے بھی حیرت ہوتی ہے کہ ہر کوئی سینئر ہے۔
اب ذرا بات ہو جائے اس امر کی جس نے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا، سعید اظہر بھی ہم جیسا ہے تو اس کے ساتھ سلوک بھی ویسا ہی ہوا وہ اپنی تکلیف لئے خود ہی پھرتا پھراتا اور خرچ کرتا رہا،ہم جیسے صحافی حضرات کو کوئی پوچھنے والا نہیں،اِس لئے مولوی سعید اظہر اپنے اہل خانہ کے ساتھ مارا مارا پھرا، اِس پورے عرصے میں اس نے کالم لکھنے میں کوئی ناغہ نہیں کیا کہ اس کا گزر بسر ہی یہی ہے اور ہم پرانے لوگوں کو کام کی بھی عادت ہے،مَیں نے جب کمرے پر نظر ڈالی تو خود ہی شرمندہ ہو گیا،اسے کمرہ تو ہر گز نہیں کہا جا سکتا، یہ ایک کوٹھری ہے، جس میں ہوا کے لئے پنکھا ہے، مَیں اس پر بھی چودھری اکرم کی تعریف کروں گا کہ جو ہمارے بھائیوں (حبیب، راجہ) کے بتانے پر خود گئے اور علاج کی سہولت بہم پہنچا دی، کہ اب تو سعید اظہر اِس حوالے سے بھی کچھ پریشان ہو چکے تھے، حالانکہ ہمارے کئی حضرات نے خیال کیا، محترم مجیب الرحمن شامی بھی مسلسل رابطے میں ہیں۔
میری عرض یہ ہے کہ حکومتیں آتی اور جاتی رہتی ہیں، اعلان بھی ہوتے ہیں، صحافیوں کی دلجوئی بھی کی جاتی ہے، لیکن کوئی خود کار نظام ایسا نہیں کہ سعید اظہر جیسا درویش براہِ راست مستفید ہو سکے، یہاں تو ہم جیسے حضرات سے مہربانی اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب کوئی دوست کسی ذمہ دار کی توجہ حاصل کر لیں، قارئین! لیکن حتمی مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے پیشہ میں بھی تفریق ہے، جن حضرات نے بوجوہ نام حاصل کر لئے ان کی علالت حکومتوں، انتظامیہ اور اداروں کے لئے بھی فوری توجہ کا باعث بنتی ہے، منتظر ہیں، جب یہ تفریق ختم ہو۔
مولوی سعید اظہر! حوصلہ رکھ،جلد تندرست ہو کر آ کہ تجھ سے بے تکلفی والا سلسلہ رُکا ہوا ہے۔