کیا پولیس لکیر پیٹنے کے لئے رہ گئی ہے؟
وزیر اعلیٰ پنجاب کے پی آر او ایک ہی نوعیت کا بیان جاری کردیتے ہیں، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہوتا ہے کہ عوام کو ریلیف دیں گے اور ہر شعبے میں تبدیلی نظر آئے گی، اب لوگ یہ کہنے لگے ہیں کہ باتیں بہت ہوگئیں کچھ عملی اقدامات بھی اٹھائیں۔ معاملات تو جوں کے توں چل رہے ہیں، ہسپتالوں کے باہر وہی آہ و بقا ہے، حتیٰ کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے اپنے ڈویژن ڈیرہ غازی خان کے ہسپتال میں زچہ کو جگہ نہیں ملتی اور وہ باہر سڑک پر بچی کو جنم دیتی ہے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد ایک سلجھی ہوئی خاتون ہیں اور حد درجہ شریف النفس بھی، وہ ڈاکٹروں کو میٹھی زبان میں سمجھا رہی ہیں، لیکن مروان ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر کے مصداق اس طرح کیا تبدیلی آسکتی ہے، جب تک کوئی ہیلتھ پالیسی نہیں بنائی جاتی، حالات بہتر نہیں ہوسکتے۔
سنا ہے پنجاب حکومت سرکاری ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی لگا رہی ہے، سرکاری وقت کے دوران سینئر ڈاکٹر پرائیویٹ کلینکوں پر بیٹھے ہوتے ہیں، یہ بہت بڑی بدعت ہے، تاہم اسے ختم کرانا آسان نہیں، کیونکہ اس میں اربوں روپے کے مفادات شامل ہیں۔ پنجاب کے بارے میں بہت کہا گیا تھا کہ اس میں پانی پت کی جنگ لڑی جائے گی اور سب کچھ ٹھیک کردیا جائے گا، مگر لگتا ہے ابھی تو حکومت کو کوئی سراہی نہیں مل رہا کہ تبدیلی کہاں سے کرنی ہے؟ پانی میں مدھانی کے مصداق ایک ہی طرح کے دعوے کئے جارہے ہیں، وہی پرانے افسران ہیں اور وہی بے حسی کا حامل رویہ ہے، عوام نئے پاکستان کو ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔
گزشتہ روز بھی روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کے صفحہ اول پر خبر چھپی ہے کہ لاہور میں ہر تین گھنٹے بعد ایک واردات ہو رہی ہے۔ ڈاکوؤں، چوروں اور قاتلوں نے لاہور میں ات مچا رکھی ہے، مگر پولیس ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ 8ماہ میں سترہ ہزار وارداتیں ہوئی ہیں، جو رپورٹ نہیں ہوئیں، وہ الگ ہیں۔ ابھی ہم کراچی کو رو رہے ہیں کہ وہاں سٹریٹ کرائمز میں خوفناک اضافہ ہوگیا ہے، نئے آئی جی کی تعیناتی کے باوجود کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا۔ جو لاہور کے اعدادوشمار سامنے آئے ہیں، انہیں دیکھتے ہوئے تو کہا جاسکتا ہے کہ لاہور تو کراچی سے بھی آگے نکل گیا ہے، اس آٹھ ماہ کے عرصے میں شہباز شریف کی بھی حکومت تھی اور نگران حکومت بھی، اب عثمان بزدار بھی صوبے کو سنبھالے ہوئے ہیں، گویا لاہور میں پولیس کی ناکامی کسی ایک دور سے تعلق نہیں رکھتی، بلکہ ہر دور میں اُس کے نقش ثبت ہوتے رہے ہیں، لیکن ماضی کو کوئی نہیں دیکھتا، سب حال کی بات کرتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار پر ہی اس کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ لاہور میں شہریوں کوڈاکوؤں، چوروں اور قاتلوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں۔ پنجاب میں نئے آئی جی آ چکے ہیں، انہیں لاہور کو پہلا ٹاسک بنانا چاہئے، پولیس صوبے کے دارالحکومت کو محفوظ نہیں بنا سکتی تو وہ صوبے کو کیسے محفوظ بنائے گی۔ ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ لاہور میں محفوظ ایس ایچ اوز نے شہر کو یرغمال بنا رکھا ہے،
وہ جب چاہتے ہیں دیئے کی لو کی طرح جرائم کو بڑھا دیتے اور جب چاہیں کم کر دیتے ہیں۔ سیاسی سرپرستی پر تعینات ان ایس ایچ اوز کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا تھا سنا ہے نگران حکومت کے دور میں کچھ کو ادھر ادھر کیا گیا، باقی سب لاہور ہی میں ایک سے دوسرے تھانے میں بھیج دیئے گئے۔ ایک سینئر اور ذمہ دار پولیس افسر نے گزشتہ دنوں مجھے فون کیا اور بتایا کہ موجودہ حکومت پنجاب میں تعینات 96 سے زائد ایسے سینئر پولیس افسروں کو صوبہ بدر کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے جو دس سال سے زائد عرصے تک پنجاب میں تعینات رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فارمولا اس قدر غیر منصفانہ اور احمقانہ ہے کہ اس سے پولیسنگ بہتر ہونے کی بجائے مزید بدتر ہو جائے گی ظاہر ہے ان پولیس افسروں کی جگہ دوسرے صوبوں سے پی ایس پی پولیس افسران کا پنجاب میں تبادلہ کیا جائے گا جو اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں آئیں گے اور یہاں کے پولیس افسر دوسرے صوبوں میں جائیں گے۔ اس طرح کی اکھاڑ پچھاڑ تو مزید مسائل کو جنم دیتی ہے، کیونکہ غیر مطمئن پولیس افسران بد دلی کے ساتھ وقت گزارتے ہیں اور ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی طرح واپس اپنے گھروں کے قریب چلے جائیں۔ ان کی اس بات میں بہت وزن تھا کہ ایک افسر اگر لاہور میں خراب ہے تو وہ پشاور جا کر ٹھیک کیسے ہو جائے گا؟
ہم نے آج تک تو یہی دیکھا ہے کہ نظام کو بہتر نہیں کیا گیا، البتہ چہرے ضرور تبدیل کر دیئے گئے ہیں۔ لوگ بدل جاتے ہیں، مگر رویئے تبدیل نہیں ہوتے۔ لاہور میں اگر جرائم بڑھ گئے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ پولیس افسران یا اہلکار برے آ گئے ہیں، اس کا اصل سبب یہ ہے کہ جوابدہی کا کوئی نظام موجود نہیں۔ پولیس کی کارکردگی بہتر بنانے کی ضرورت ہے نہ کہ پرانے چہرے ہٹا کر نئے چہرے بٹھا دیئے جائیں۔ روزنامہ پاکستان میں جو خبر چھپی ہے اس میں پولیس کا موقف یہ ہے کہ ہم نے گشت بڑھانے کا حکم دے دیا ہے۔ گشت بڑھانے کے لطیفے تو ہر دور میں سنائے جاتے ہیں، سابق وزیر اعلیٰ نے کبھی گھڑ سوار پولیس اور کبھی ڈولفن فورس بنا کر سٹریٹ کرائمز پر قابو پانے کی حکمت عملی اختیار کی۔ جرائم تو کیا کم ہونے تھے الٹا یہ خبریں آنا شروع ہوئیں کہ خود ڈولفن فورس کے اہلکار ڈکیتیوں اور چوریوں میں ملوث ہیں۔ کراچی اور لاہور ملک کے دو بڑے شہر ہیں، کراچی کی سائنس تو کچھ مختلف رہی ہے، کیونکہ وہاں رہبروں نے راہزنوں کا کردار اپنا لیا تھا۔
کراچی آگ اور خون کے اس کھیل سے نکل کر آج امن کی طرف تھوڑا بہت گامزن ہوا ہے، تاہم اس کے باوجود اس کی جڑوں میں مجرموں کا تانا بانا اب بھی موجود ہے۔ دن دیہاڑے لوگوں کو لوٹنا اور مزاحمت پر قتل کر دینا وہاں معمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔ ابھی تو شکر ہے کہ وہاں رینجرز تعینات ہے، اگر رینجرز نہ ہو تو ایک مرتبہ پھر یہ روشنیوں کا شہر اندھیرے کی نذر ہو جائے۔ وہاں تو یہ کہا جاتا ہے کہ حکومت کی سیاسی ول نہیں کہ امن قائم کر سکے۔ حکومتی صفوں میں گھسے لوگ ہی مختلف مافیاز کی سرپرستی کرتے ہیں، اس لئے کراچی میں لاقانونیت ختم نہیں ہو سکتی، مگر سوال یہ ہے کہ لاہور کیوں کراچی بنتا جا رہا ہے؟ اتنے بڑے پیمانے پر جرائم تو خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔ بے خوفی کا یہ حال ہے کہ سڑک کنارے کھڑی گاڑی میں سے خواتین کی چوڑیاں اور بالیاں اُتر والی جاتی ہیں۔ پہلے تو یہ الزام دیا جاتا تھا کہ شریف فیملی کے لئے ہزاروں پولیس اہلکار ڈیوٹی دیتے ہیں۔ لاہور کے شہریوں کو ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، اب تو وہ سارے پولیس والے واپس بلا لئے گئے ہیں، پھر لاہور میں جرائم کیوں بڑھ رہے ہیں؟ اب یہ ذمہ داری کس پر ڈالی جا سکتی ہے؟ کیا ساری نفری تھانوں کے اندر دبک کر بیٹھ گئی ہے اور شہر کو مجرموں کے حوالے کر دیا ہے؟
صوبے میں مثالی امن و امان کی فضا تو نجانے کب قائم ہو گی، اس وقت تو چیلنج یہ درپیش ہے کہ صوبائی دارالحکومت لاہور کو کرائم فری کیسے بنایا جائے۔ کلیم امام آئی جی بن کر سندھ گئے تو انہوں نے جاتے ہی اپنے گلے سے بلا اتار کر سندھ حکومت کے گلے میں ڈال دی اور کہا کہ کراچی کو سیف سٹی بنانے کے منصوبے پر عمل نہیں کیا گیا، وہ اب یہ منصوبہ لے کر سندھ حکومت کے پاس جائیں گے۔ سیف سٹی اگر کیمرے لگانے سے بنتا ہے تو عرض یہ ہے کہ کراچی میں ہر سٹریٹ کرائم کی وڈیو فوٹیج سامنے آ جاتی ہے، اب تو ڈاکو اتنے بے خوف ہو گئے ہیں کہ چہرے بھی نہیں ڈھانپتے، مگر اس کے باوجود پولیس انہیں گرفتار کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، اسی لاہور میں وڈیو کیمروں کے بغیر پولیسنگ کا نظام اتنا اچھا اور مضبوط تھا کہ ڈاکو بچ نہیں سکتے تھے۔
کراچی والے لاہور کے پُرامن ہونے کی مثالیں دیتے تھے۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے جرائم پر قابو پانے کی حکمتِ عملی تبھی کارگر ثابت ہو سکتی ہے، جب انسانی کارکردگی بھی مثالی ہو۔ اگر پولیس بزدل اور سست ہے، تو ڈاکو سامنے سے گزر جائیں گے، اسے خبر نہ ہوگی۔ ایک زمانہ تھا کہ پولیس عوام کے تعاون سے ٹھیکری پہرہ دیتی تھی، اب اس نے انسانوں سے تعلق توڑ کر کیمروں سے تعلق جوڑ لیا ہے۔ بے جان کیمرے واردات کے بعد کی خبر تو دے سکتے ہیں، اسے وقوع پذیر ہونے سے روک نہیں سکتے۔ یہ کام صرف عوام ہی کر سکتے ہیں، اگر پولیس ان کے ساتھ مل کر چلے۔ ایس ایچ او کو اپنے علاقے کی صرف نگرانی کرنی چاہیے ،لیکن اسے تو دیگر مسائل میں الجھا دیا گیا ہے۔ وہ عدالتوں میں کیس بھی بھگتاتا ہے، تفتیش بھی کرتا ہے، افسروں کے اردل روم کی سختیاں بھی جھیلتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اپنے مخبری نظام کے ذریعے پورے علاقے کا عکسِ شجرہ ایس ایچ او کے سامنے ہوتا تھا۔ ہر گلی محلے کی اسے خبر ہوتی تھی کہ کون وہاں نیا آیا ہے اور کون کیا کر رہا ہے؟ یہ سب چیزیں اب قصہ ء پارینہ ہو چکی ہیں، آج کی پولیسنگ موبائل فون اور سی سی ٹی وی کیمروں تک سکڑ گئی ہے، حالانکہ یہ چیزیں جرائم روکنے کے لئے نہیں، بلکہ جرم کے بعد مجرموں کو پکڑنے کے لئے استعمال ہوتی ہیں، اس لئے جرائم بڑھ گئے اور پولیس صرف لکیر پیٹنے کے لئے رہ گئی ہے۔