سکولوں میں اسلحہ فروشی کی مہم

سکولوں میں اسلحہ فروشی کی مہم
سکولوں میں اسلحہ فروشی کی مہم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آج ایک انوکھی سی خبر نظر سے گزری جس کی تفصیل تو آگے چل کر بریک کروں گا فی الوقت یہ بتانا چاہوں گا کہ حالیہ برسوں میں جب پاکستان میں تخریب کاری زوروں پر تھی، پاکستان کے طول و عرض میں قتل و غارتگری کا بازار گرم تھا اور بالخصوص کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ایک معمول بن چکی تھی تو کئی صوبوں کے محکمہ ہائے تعلیم نے اپنے زیرِ انتظام چلنے والے پرائمری، مڈل اور ہائی سکولوں کے ہیڈماسٹروں / پرنسپلوں کے نام یہ ہدایت نامہ جاری کیا تھا کہ بچوں / لڑکوں کو ایسے کھلونے سکولوں میں لانے کی اجازت نہ دی جائے جو فائری ہتھیاروں کے مشابہ ہوں مثلاً بندوق، رائفل، مشین گن، کاربائن، پستول، ریوالور وغیرہ۔۔۔ وجہ یہ بیان کی گئی تھی کہ ان سے ننھے دماغوں میں تخریب کاری کا شوق پروان چڑھتا ہے جو مستقبل میں ان کو ڈاکو، قاتل اور دہشت گرد بنا سکتا ہے۔ کہا گیا کہ بچوں کے اذہان بڑے حساس ہوتے ہیں اور اوائل عمری میں احساسات و جذبات کی جو تربیت ہو جاتی ہے وہ بڑھاپے تک قائم رہتی ہے۔


میں خود انہی دنوں ڈیفنس لاہور میں اپنے نواسے کے لئے چند کھلونے خریدنے گیا تو دکاندار نے شکوہ کیا کہ چین کے بنے ہوئے درجنوں فائری کھلونے بیکار ہو گئے ہیں کیونکہ اب ان کو خریدنے والا کوئی نہیں۔فائری ہتھیاروں کے مشابہ وہ کھلونے جن کے ٹرگر دبانے سے تڑتڑ کی آوازیں آتی اور چنگاریاں نکلتی تھیں، ان کے خریدار تو بہت ہی کم ہوتے جاتے ہیں۔۔۔ اس کی بات سن کر مجھے ایک ذاتی واقعہ یاد آ گیا۔۔۔۔
ہم لاہور سے ساہیوال آ رہے تھے۔ اے سی کُوپے میں سوار ہونے لگے تو ریلوے پولیس کے ایک سپاہی نے مجھے پہچان کر مصافحہ کیا۔ وہ میرا گرائیں تھا۔ ہم کچھ دیر باتیں کرتے رہے۔ دریں اثناء میں نے دیکھا کہ میرا بیٹا سہیل جس کی عمر اس وقت 4سال تھی، اسی سپاہی کی رائفل کو بغور دیکھے جا رہا ہے۔

جب گاڑی چل پڑی تو سہیل نے کہا: ’’ابو جی! مجھے ویسی گن لا دیں جو آپ کے دوست کے کاندھے پر تھی۔ میں یہ سن کر ہنس دیا اور کہا کہ ابھی تم چھوٹے ہو، بڑے ہو کر لے لینا۔ لیکن وہ تمام راستے یہی رٹ لگاتا رہا کہ اس نے وہ رائفل ضرور لینی ہے۔ جب ہم ساہیوال اسٹیشن پر اترے تو اس کی والدہ نے اصرار کیا کہ پہلے میرے بیٹے کو وہ گن خرید کر دو۔ اس وقت تک اسلحہ نما کھلونے بازار میں نہیں آئے تھے۔ کئی دکانوں سے پتہ کیا لیکن انہوں نے کہا کہ اس قسم کا کوئی کھلونا چار پانچ برس کے بچے کے لئے سارے بازار میں دستیاب نہیں ہوگا جو بندوق یا رائفل سے ملتا جلتا ہو۔ ایک صاحب نے البتہ بتایا کہ فلاں ’’اسلحہ سوداگران‘‘ کے پاس جائیں، اس سے شرّوں (Pallets)والی کوئی ائرگن بیٹے کو خرید دیں۔ ہم وہاں گئے تو ایک چھوٹے سائز کی ’ڈیانا‘ ائر گن مل گئی جو اٹالین ساختہ تھی۔ ہم نے وہی خرید لی اور سہیل کے ہاتھوں میں تھما دی۔اس کو بیرل کو سرے سے پکڑ کر دہرا کیا جاتا تھا تو وہ لوڈ ہو جاتی تھی اور ٹرگر دبانے پر ’ٹک‘ کی آواز آتی تھی۔۔۔ سہیل اسی آواز کا دلدادہ تھا!


ہماری منزل پاک پتن شہر تھی جو بس میں ایک گھنٹے کے سفر پر تھا۔ ہم بس میں بیٹھے تو سہیل نے سارا راستہ اس ائر گن کو ’سینے‘ سے لگائے رکھا حالانکہ اس کا سائز اس کے قد سے بڑا تھا اور وزن بھی کچھ ایسا کم نہیں تھا۔
اس کے آگے کی داستان یہ ہے کہ جب وہ میٹرک کر چکا اور جونیئر کیڈٹ بٹالین (JCB) میں جانے کے قابل ہوا تو سب رشتہ داروں کے روکنے کے باوجود آرمی میں جانے کی ضد کی۔ ہم اس کو میڈیکل شعبے میں بھیجنا چاہتے تھے لیکن اس کے اصرار کو دیکھ کر ہم نے زیادہ مخالفت نہ کی۔ یہ بھی خیال تھا کہ آئی ایس ایس بی (ISSB) سے کلیئر ہونے کے چانسز خال خال ہوں گے۔ لیکن جب اس نے اکیلے کوہاٹ جا کر وہ ٹیسٹ کلیئر کر لئے تو ہمیں خوشی اور حیرت کا ملا جلا احساس ہوا۔ جے سی بی کا کورس دوسال کا تھا اور اس کے بعد پی ایم اے کا کورس بھی دو سال کا تھا۔ جب پاسنگ آؤٹ قریب ہوتی ہے تو ہر کیڈٹ سے پوچھا جاتا ہے کہ اس نے کس شعبے (Arm/Service) کو جوائن کرنا ہے۔ جب سہیل سے پوچھا گیا تو اس نے لکھ کر دے دیا کہ اس کا فرسٹ چوائس انفنٹری ہے۔۔۔ چنانچہ اسے فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن مل گیا۔
میں نے یہ واقعہ اس لئے آپ کو سنایا ہے کہ بچپن اور لڑکپن کی پسند و ناپسند اور رومانس اتنے شدید اور دیرپا ہوتے ہیں کہ جوانی اور بڑھاپے تک ’’تنگ‘‘ کرتے رہتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہوگی کہ حکومتِ پاکستان کے محکمہ ء تعلیم نے اسلحہ نما کھلونوں کی خرید ممنوع قرار دے دی تھی۔۔۔ لیکن ہتھیاروں سے عالمِ طفلی کی یہ محبت عالمِ جوانی میں منفی نتائج ہی کی حامل ہو یہ ضروری نہیں۔ یہ اور اس قسم کے دوسرے طفلانہ جذبے دو دھاری تلوار ہوتے ہیں۔ ان سے دشمن کا گلا بھی کاٹا جا سکتا ہے اور دوست کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اگر کسی شخص نے بڑے ہو کر ڈاکو اور قاتل ہی بننا ہے تو اس کی آرزو کے پس پردہ اور محرکات بھی ہوتے ہیں۔۔۔


ترقی یافتہ ممالک میں اس موضوع پر سیر حاصل تجزیئے ہو چکے ہیں۔ مثلاً امریکہ جیسی دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور جمہوریت میں نہ تو کسی فائری اسلحہ پر پابندی ہے اور نہ ہی تعدادِ اسلحہ ممنوع ہے۔ آپ جتنی رائفلیں، کاربائنیں اور ریوالور رکھنا چاہتے ہیں، اسلحہ فروش کی دکان پر جائیں، پسند کریں، قیمت ادا کریں اور خرید کر گھر لے آئیں۔۔۔کسی بور پر کوئی لائسنس نہیں۔ امریکہ میں پچھلے دنوں اس موضوع پر بہت سے مباحثے کروائے گئے لیکن ری پبلکن اور ڈیمو کریٹ دونوں پارٹیوں نے نہ تو لائسنس بنوانے کے حق میں ووٹ دیا، نہ ہی کسی بور پر پابندی عائد کی اور نہ ہی تعدادِ اسلحہ کی کوئی حد مقرر کی! لیکن پاکستان میں لائسنس کے اجراء، بور کی حدود قیود اور فائری اسلحہ کی تعداد پر پابندیاں عائد ہیں۔
اب اُس ’’انوکھی سی‘‘ خبر کی کچھ تفصیل جس کا ذکر کالم کے شروع میں کرچکا ہوں۔۔۔ یہ خبر برطانیہ کے اخبار ’’گارجین‘‘ میں یکم ستمبر 2018ء کو شائع ہوئی تھی اور اس کا عنوان تھا:’’ اسلحہ سازی کی صنعت، ہر سال لاکھوں پاؤنڈ، سکولوں میں، مختلف برانڈز کے اسلحہ جات کی پروموشن پر صرف کررہی ہے۔‘‘۔


اس خبر کی مزید تفصیل یہ ہے کہ برطانیہ کے پرائمری اور ہائی سکولوں میں اسلحہ ساز کمپنیاں ہر سال لاکھوں پاؤنڈ اپنے اسلحہ کی نمائش اور اس کی پروموشن پر صرف کر رہی ہیں۔ یہ وہ اسلحہ ساز کارخانے اور کمپنیاں ہیں جو ماضی میں اربوں پاؤنڈ کے ہتھیار اور ان کا گولہ بارود اُن ملکوں کو بھی فروخت کرچکی ہیں جن میں بنیادی انسانی حقوق کا شعور نہائت ابتر حالت میں ہے۔ یہ کارخانے سکولوں میں اپنے برانڈز کی نہ صرف نمائش کے پُر کشش اقدامات کرتے ہیں بلکہ طلبا/طالبات کے کلاس روموں میں جاکر ایسا مطالعاتی مواد بھی فراہم کررہے ہیں جو ان کی پروڈکشنز کے بارے میں معلومات افزاء ہوتا ہے۔ یہ ریڈنگ میٹریل خصوصی طور پر لکھوایا اور تیار کروایا جاتا ہے، رنگین اور جاذبِ نگاہ ہوتا ہے، خاکے اور ڈایا گرام بڑے سادہ لیکن واضح ہوتے ہیں، زبان و بیان قابلِ ہضم ہوتا ہے اور آسانی سے طلبا کے احاطۂ تفہیم میں آجاتا ہے۔ نہ صرف یہ تحریری باتصویر مواد سکولوں کو فراہم کیا جاتا ہے بلکہ اس کی تدریس کے لئے اساتذہ کی فراہمی بھی انہی اسلحہ ساز کارخانوں کی ذمہ داری ہے۔ وقفے وقفے سے مختلف شہروں کے مختلف سکولوں کے درمیان مقابلے بھی کرائے جاتے ہیں اور انعامات وغیرہ بھی تقسیم کئے جاتے ہیں۔


البتہ ان سکولوں کا انتظام و انصرام ویسا نہیں ہوتا جیسا ہمارے پاکستان میں ہے۔ وہاں ہر سکول کا ہیڈ ماسٹر/پرنسپل یہ استحقاق رکھتا ہے کہ اپنے شاگردوں کی تعلیم و تدریس کا نصاب خود منتخب کرسکے۔ اس کے باوجود اس پریکٹس کے بہت سے نقاد اور نقطہ چیں بھی پورے برطانیہ میں پائے جارہے ہیں۔ ان کا موقف وہی ہے جو میں نے سطورِ بالا میں عرض کیا ہے یعنی ننھے بچوں اور جواں سال اذہان میں اگر ابھی سے فائری اسلحہ جات کا شعور اجاگر کردیا جائے تو اس کا انجام زیادہ بخیر نہیں ہوگا۔ لیکن اس تنقید کا جو جواب دفاعی سیکٹر کے ناخدا دیتے ہیں وہ بھی بڑا چشم کشا ہے۔ وہ کہتے ہیں:’اگر برطانیہ نے انجینئروں کی اگلی نسل پیدا کرنی اور اس کی آبیاری کرنی ہے تو ہماری اس اپروچ کو اپنانا ہوگا۔‘‘
آجکل یہ بحث پورے برطانیہ میں زوروں سے چل رہی ہے کہ کیا اس اپروچ کو قبول کرلیا جائے یا رد کردیا جائے؟۔۔۔اپروچ کے مخالفین کا کہنا یہ بھی ہے:’’یہ کمپنیاں جو سکولوں میں ترویجِ اسلحہ کی تبلیغ کررہی ہیں انہوں نے دنیا بھر میں اپنے اسلحہ جات اور گولہ بارود بیچ بیچ کر اربوں ڈالر کما لئے ہیں اور دنیا کے کئی خطوں میں دہشت گردی کو فروغ دینے میں ایک بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ہمارے معاشرے کے لئے سکولوں کی اہمیت واضح ہے۔ ان کو کمرشل بنیادوں پر چلانے کے نتائج ہولناک بھی ہوسکتے ہیں۔ اب وقت ہے کہ ان اسلحہ فروش کمپنیوں کو ہمارے سکولوں کے کلاس روموں سے اٹھا کر باہر پھینک دیا جائے!‘‘


استعمالِ اسلحہ کے ان برطانوی حمایت کاروں اور مخالفوں کو سن کر مجھے اقبال کی وہ نظم یاد آتی ہے جو یہ ہے:

فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے


دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر

لیکن جنابِ شیخ کو معلوم کیا نہیں؟
مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سُود و بے اثر

تیغ و تُفنگ دستِ مسلماں میں ہے کہاں
ہو بھی، تو دل ہیں موت کی لذّت سے بے خبر

کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل
کہتا ہے کون اُسے کہ مسلماں کی موت مر

تعلیم اُس کوچاہیے ترکِ جہاد کی
دنیا کو جس کے پنجہ ء خونیں سے ہو خطر

باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے
یورپ زِرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر

ہم پُوچھتے ہیں شیخِ کلیسا نواز سے

مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر؟

حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہء یورپ سے درگزر!

حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اور اسلحہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ انگریز تواپنے سکولوں میں اب جاکر نونہالوں کو اسلحہ کی ٹریننگ دے رہے ہیں۔لیکن ہماری مساجد میں تو ’محراب‘ اسی لئے بنائی گئی تھی کہ مسلمان نمازبھی پڑھنے آئیں تو اسلحہ بردار ہوں اور اس کو محراب (سامانِ حرب رکھنے کی جگہ) میں اپنے سامنے رکھ کر نماز ادا کریں۔۔۔۔
برطانوی سکولوں میں اس ’انوکھی سی‘ خبر کا نوٹس ہم سب پاکستانیوں کو بھی لینا چاہئے اور اپنے سکولوں کے نصاب میں دفاعی امور اور دفاعی اسلحہ جات کی تدریس و تربیت کا اہتمام کرنا چاہئے۔

مزید :

رائے -کالم -