عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 71
’’ہر قل‘‘ یا قسطنطین سوئم‘‘ جو 610ء سے 641ء تک قسطنطنیہ کا شہنشاہ تھا۔ اس لئے مشہور ہے کہ اس کی طرف نبی کریم ﷺ نے 630ء میں خط لکھا تھا اور اسے دعوت اسلام دی تھی۔ ’’سلطان محمد فاتح‘‘ کے زمانے میں قسطنطنیہ پر قسطنطین نامی بارہویں شہنشاہ کی حکومت تھی۔ زمانۂ قدیم میں ’’روم‘‘ ، ’’ایتھنز‘‘ اور قسطنطنیہ کی عظمت کا بڑا شہرہ تھا اور یہ شہر گیارہ سو سال سے رومی سلطنت کا ایک بڑا مرکز تھا۔
قاسم بن ہشام قسطنطنیہ کے بارے میں یہ ساری معلومات پہلے سے جانتا تھا۔ اسے تو عیسائی مذہب اور فرقوں کی بھی بہت سی معلومات تھیں اور وہ شہنشاہ کے حسب و نسب سے بھی خوب واقف تھا۔ وہ جانتا تھا کہ قسطنطنیہ کے قیصر نے جب عیسوی مذہب قبول کیا تو عیسوی سلطنت اور ’’ایران‘‘ کی مجوسی سلطنت میں بار بار لڑائیاں ہوئیں۔ یہ ’’قیصر و کسریٰ‘‘ یا ’’روم و فارس‘‘ کی لڑائیاں تھیں۔ ان لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ ’’ملک عرب‘‘ میں اسلامی سلطنت نے قائم ہو کر مجوسیوں اور عیسائیوں دونوں کو مبہوت کر دیا۔ مجوسی سلطنت تو مسلمانوں کے ہاتھوں پاش پاش ہو کر معدوم ہوگئی۔ لیکن قسطنطنیہ کی عیسائی سلطنت عرصہ دراز تک قائم رہی۔ لیکن آج قاسم عیسائی سلطنت کے خاتمے کا نقیب بن کر اس قدیم شہر میں داخل ہو چکا تھا۔
وہ رومیل کے گھر میں ایک رضا کار کی حیثیت سے رہ رہا تھا۔ رومیل نے اس کا نام رضا کاروں میں لکھوا دیا تھا لیکن اسے سرکاری بیرکوں میں بھیجنے کی بجائے اپنے پاس ہی رکھا۔ قاسم بھی یہیں رہنا چاہتا تھا۔ رومیل نے اروس پڑوس کے لوگوں کو بتا دیا تھا کہ مورگن اس کا بھائی ہے اور بوسنیا سے آیا ہے۔ رومیل نے قاسم کا گھوڑا بھی محصول چونگی سے چھڑوا لیا تھا۔ اب قاسم کے لئے اپنا کام کرنے کا کھلا موقع تھا۔ کیونکہ قسطنطنیہ میں اسے اس کی توقع کے برعکس انتہائی محفوظ اور گھر جسیا ماحول میسر آگیا تھا۔ اسے سب سے زیادہ خوشی ’’بریٹا‘‘ سے مل کر ہوئی تھی۔ کیونکہ بوسنیا میں عباس اور مریم کی پڑوسن ہونے کے ناطے قاسم ’’بریٹا‘‘ سے قرابت دارانہ انس محسوس کرتا تھا۔
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 70پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
انہی خیالات میں گم اپنے گھوڑے پر سوار وہ ’’آیا صوفیاء‘‘ کے سامنے سے گزرا۔ اس نے اپنے چہرے کو ایک چادر کے پلو کے ساتھ چھپا رکھا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ’’آیا صوفیاء‘‘ میں ابو جعفر موجود تھا۔ وہ ابھی اس کے سامنے نہ آنا چاہتا تھا۔ یہ ’’دی ہولی آرتھوڈکس‘‘ چرچ تھا۔ اور ’’روما‘‘ کے قدیم مرکز کی طرح یہ بھی عیسائی دنیا کا روحانی مرکز تھا۔ اگرچہ قسطنطنیہ روم سے بعد میں قائم ہوا تھا لیکن مذہب کے لحاظ سے قسطنطنیہ قدیم فرقے پر کاربند تھا۔ اس کے برعکس رومن چرچ، رومن کیتھولک مذہب والوں کے ماتحت تھا۔ ’’آیا صوفیاء‘‘کی عمارت دیکھ کر قاسم دنگ رہ گیا۔ یہ عظیم الجثہ عمارت دیو مالائی دور کی یادگار لگتی تھی۔ لیکن اپنی قدامت کے باوجود اس میں بوسیدگی نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ کیونکہ یہ عیسائیوں کا روحانی مرکز تھا اور ہر شہنشاہ اسے سجانے اور خوبصورت بنانے میں کوئی کسر باقی نہ رہنے دیتا۔ عمارت کا دروازہ دو عدد بڑے بڑے برج نما ستونوں کے درمیان چمکدار پیتل کا تھا۔ اس پر سونے سے بنی ایک بڑی صلیب نصب تھی۔ یہ کلیسا ’’قسطنطین اول‘‘ نے سب سے پہلے 360ء میں مکمل طور پر لکڑی سے تعمیر کیا تھا۔ چھٹی صدی عیسوی میں یہ کلیسا جل گیا تو اسی جگہ قیصر ’’جسٹینین‘‘ نے 532ء میں اسے پختہ تعمیر کرنا شروع کر دیا۔ اس کی تعمیر پانچ سال دس مہینے میں مکمل ہوئی۔ دس ہزار معمار اس کی تعمیر پر مامور رہے اور اس پر ’’دس لاکھ پونڈ‘‘ خرچ آیا۔ اس کی تعمیر میں قیصر نے دنیا کے متنوع سنگ مرمر استعمال کئے۔۔۔’’فریجیا‘‘ کا سفید ، ’’لکونیا‘‘ کا سبز، ’’لیبیا‘‘ کا نیلا، ’’سلیٹک‘‘ کا سیاہ اور ’’باسفورس‘‘ کا سیاہ دھاری دار سنگ مرمر منگوایا گیا۔ ’’مصر‘‘ کے ’’سنگ ستارا‘‘ اور ’’سنگ سماق‘‘ بھی منگوا کر اس میں استعمال کئے گئے۔ دنیا بھر کے کلیساؤں نے اس کی تعمیر میں بہت سے نوادرات نذرانے کے طور پر بھیجے۔ اس کی تعمیر میں دنیا بھر کے خاص مسالے استعمال کئے گئے۔
قاسم ’’آیا صوفیاء‘‘ کے سامنے گھوڑے سے نہ اترا۔ وہ ابھی تک اس شاندار عمارت کے سحر سے نہ نکل سکا تھا۔ قاسم نے اپنا گھوڑا اس عظیم چرچ کے باہر قدرے فاصلے پر روکے رکھا اور اس عظیم عبادت گاہ کو دیکھتا رہا۔ اس کے سامنے چرچ میں جانے کے لئے سنہری دروازہ کھلا تھا ۔۔۔گزشتہ ایک ہزار سال سے ’’آیا صوفیاء‘‘ کی عمارت عیسائیوں کے مذہبی اور روحانی مرکز کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ اس کی بیرونی دیوار پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ’’پولیس رسول‘‘ کی بڑی بڑی تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ قاسم نے ’’آیا صوفیاء‘‘ کے دروازے کے نزدیک جانا بھی مناسب نہ سمجھا حالانکہ اس کے گلے میں صلیب لٹک رہی تھی۔ وہ ایک عیسائی عبادت گزار کی حیثیت سے ’’آیا صوفیاء‘‘ میں داخل ہو سکتا تھا۔ لیکن وہ یہاں عبادت کرنے نہ آیا تھا۔ وہ تو ’’آیا صوفیاء‘‘ کو دیکھنے آیا تھا جہاں عنقریب رومی اور بازنطینی کلسیاؤں کے اتحاد کے لئے ایک بڑی مجلس منعقد ہونے والی تھی۔ قاسم چاہتا تھا کہ اس مجلس کی سن گن لے سکے اور جس طرح ممکن ہو سکے وہ کوشش کرے کہ اس موقع پر ان دونوں فریقوں کے مابین اتحاد نہ ہو۔
’’دی ہولی آرتھوڈکس چرچ‘‘ اور ’’رومن کیتھولک چرچ‘‘ کے اتحاد میں ’’سلطان محمد فاتح‘‘ کا بہت نقصان تھا۔ کیونکہ ’’رومہ‘‘ کا بڑا روحانی پیشوا ’’پاپائے روم‘‘ یعنی’’پوپ جان نکلسن پنجم‘‘ پورے مغربی یورپ پر بلا شرکت غیرے اختیار اور عبور رکھتا تھا۔ اور عین ممکن تھا کہ اس اتحاد کے بعد پوپ کے حکم سے قسطنطنیہ کو بچانے کے لئے جرمنی، فرانس ، بیلجیئم ، سپین اور برطانیہ کی افواج بھی آجاتیں۔ کیونکہ آج سے چار سو سال پہلے اسی طرح ایک پوپ ’’پطرس ہرکولیس‘‘ کی درخواست پر مغربی یورپ کے ان تمام ممالک نے ’’سلطان صلاح الدین ایوبی‘‘ کے خلاف ایک بڑا اتحاد قائم کیا تھا اور بے شمار جنگی بیڑے لے کر آئے تھے۔ سلطان نے قاسم کو اسی لئے بھیجا تھا کہ وہ کسی طرح اس اتحاد کو ممکن نہ رہنے دے۔ ابھی دونوں کلیساؤں کی مشترکہ مجلس منعقد ہونے میں چند دن باقی تھے۔
قاسم کچھ دیر تک خاموشی سے کھڑا رہا۔ پھر اسنے اپنے سر کو جھٹکا دیا اور گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔ اب وہ اس چرچ میں داخل ہونے کے منصوبے تجویز دینے لگا تاکہ کسی ایسے حلیے میں داخل ہو جس میں اسے ابوجعفر پہچان نہ سکے۔ وہ یہی کچھ سوچتا ہوا ’’رومیل‘‘ کے گھر لوٹ آیا۔
وہ جب سے قسطنطنیہ آیا تھا، اس کے ذہن پر ’’ابو جعفر‘‘ سے زیادہ کوئی اور چیز سوار نہ رہی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ ابو جعفر ’’آیا صوفیاء‘‘ میں ہے اور اسکا نام ’’ڈیمونان‘‘ ہے۔ لیکن وہ بغیر کسی حکمت عملی کے ڈیمونان پر ہاتھ نہ ڈالنا چاہتا تھا۔ وہ گھر میں آیا تو ’’بریٹا‘‘ اسے اکیلی صحن میں بیٹھی نظر آئی۔ قاسم کو دیکھ کر وہ احترام آٹھ کھڑی ہوئی۔ قاسم نے بھی مسکراہٹ کے ساتھ بریٹا کو سلام کیا پھر قاسم نے پوچھا ’’سولٹن نظر نہیں آرہا؟‘‘
وہ رومیل کے بیٹے کی بات کر رہا تھا۔ بریٹا نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’وہ ابھی مدرسے سے نہیں لوٹا۔۔۔لیکن آپ صبح صبح کہاں چلے گئے تھے؟ میں نے آپ کے لیے کھانا تیار کر رکھا ہے ۔۔۔وہ کھا لیجئے!‘‘
بریٹا کا انداز خالص بھابھیوں جیسا تھا۔ قاسم بھی اسے دیکھ کر مسکرا دیا اس نے کسی قدر افسردہ لہجے میں کہا ’’میں صبح کی عبادت کے لئے آج ’’آیا صوفیاء‘‘ جانا چاہتا تھا لیکن چرچ کے سامنے پہنچ کر میرا ارادہ بدل گیا اور میں نے سوچا کہ میں اس وقت تک اس چرچ میں داخل نہیں ہوں گا جب تک اس کے سر سے مسلمانوں کی ہلالی تلوار کا خطرہ نہیں ٹل جاتا۔۔۔اسے ایک طرح سے میرا قول یا قسم سمجھ لیجئے!‘‘
بریٹا حسرت سے قاسم کو دیکھ رہی تھی اور قاسم دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا کہ اس نے ایک تیر سے دو شکار کر لئے تھے۔ ایک تو یہ کہ بریٹا کے سوال کا جواب دے دیا تھا اور دوسرا یہ کہ اپنی قسم کا حوالہ دے کر اب وہ اتوار کے روز ان لوگوں کے ہمراہ ’’آیا صوفیاء‘‘ جانے سے بچ گیا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو داد دی۔ لیکن بریٹا نے اسے ایک عجیب بات کہہ کر چونکا دیا۔
’’مورگن! آپ کو دیکھ کر نہ جانے کیوں میرا دل یہ کہتا ہے کہ میں آپ کو جانتی ہوں۔‘‘ قاسم فوراً محتاط ہوگیا اور اس نے جلدی سے بہانہ بنایا۔’’ہاں، تو یہ کون سی بڑی بات ہے ۔ ہم دونوں ایک جگہ کے رہنے والے ہیں۔ آپ نے زندگی میں کہیں نہ کہیں مجھے دیکھا ہی ہوگا۔‘‘
بریٹا گہری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے جواب سن رہی تھی۔ معاً قاسم کے دل میں ایک خیال آیا اور وہ اسی کے بارے میں سوچنے لگا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ’’آیا صوفیا‘‘ میں داخل ہونے کے لئے یا آیا صوفیا کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے کسی نہ کسی طرح بریٹا کو استعمال کرے۔ اور اسی خیال کے تحت اس نے بریٹا سے پوچھا۔
’’آب توجاتی رہتی ہوں گی۔۔۔آیا صوفیاء میں۔‘‘
’’جی ہاں! میں ہفتے میں ایک بار’’دی ہولی آرتھوڈ کس چرچ‘‘ ضرور جاتی ہوں۔‘‘
قاسم نے پھر کہا’’پھر تو آپ کا جاننے والا بھی کوئی ہوگا وہاں۔‘‘
’’جی ہاں! وہاں میں کئی راہبوں کو جانتی ہوں۔ بطریق ثانی معزز ’’ڈیمونان‘‘ بھی مجھ پر مہربان ہیں۔۔۔لیکن آپ کو سچ بتاؤں، یہ پادری اور راہب مجھے بالکل اچھے نہیں لگتے۔ میں تو خداوند یسوع مسیح کی عبادت کے لئے وہاں جاتیہوں۔ ورنہ یہ مذہبی رہبر جنہیں ہم اپنامذہبی پیشوا سمجھتے ہیں بہت غلط لوگ ہوتے ہیں۔ مجھے ان میں صرف معزز ڈیمونان پسند ہیں۔ میں ان کا لیکچر بھی سنتی ہوں جومہینے میں ایک بار ہوتا ہے۔‘‘
قاسم کے لئے یہ خبر محتاط کردینے والی تھی۔ بریٹا کے ڈیمونان کے ساتھ تعلقات تھے اور ڈیمونان قاسم کو بڑی اچھی طرح جانتا تھا۔ کیونکہ یہ وہی ابوجعفر ہی تو تھا جس نے ’’ادرنہ‘‘ میں بیس سال بسر کئے تھے اور پھر قاسم کی محبت یعنی مارسی کو زخمی حالت میں لے کر وہاں سے فرار ہوا تھا۔
(جاری ہے)