فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر521

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر521
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر521

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کہتے ہیں کہ کلاسیکی تخلیقات ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ اس کی مثال حال ہی میں سامنے آئی ہے اور یہ ہے بھارت میں بنائی جانے والی فلم ’’دیوداس‘‘ ۔اس فلم میں شاہ رخ خان نے دیوداس کا مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ اس وقت تک بھارت میں بنائی جانے والی فلموں میں سب سے مہنگی فلم ہے جس پر ۵۰۰ ملین بھارتی روپیہ صرف ہو اہے۔ اس کا شور اور پبلسٹی اتنی زیادہ ہے کہ فلم جہاں بھی نمائش کے لیے پیش کی گئی وہاں سے پذیرائی ملی۔ بھارت کے علاوہ یورپ اور امریکا میں بھی اسکی کامیاب نمائش ہو ئی ہے۔ کان کے بین الاقوامی فلمی میلے مین اسے دکھایا گیا۔ اس تقریب میں فلم کے تمام اداکاروں اور ہنر مندوں نے شرکت کی۔شاہ رخ خان کی فلموں کے فیسٹیول بھی یورپ کے ملکوں میں منعقد کرائے جا رہے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ بھارتی فلموں کی وجہ سے اس ملک کو کس قدر عالمگیر شہرت مل رہی ہے اس کی ثقافت اور فنون لطیفہ کے بارے میں دنیا والوں کو دلچسپی پیدا ہو رہی ہے۔ ملک کا نام بھی ہو رہا ہے اور دولت کمانے کا کام بھی جاری ہے۔ اس سے پہلے عامر خان کی فلم ’’لگان‘‘ کو بھی اسی طرح ساری دنیا میں متعارف کرایا گیا تھا اس کو آسکر ایوارڈ کے لیے منتخب کی جانے والی پانچ غیر ملکی زبانوں کی فلموں میں بھی شامل کیا گیا تھا۔ اگرچہ یہ آسکر نہ حاصل کر سکی مگر شہرت اتنی ملی کی یورپ اور امریکا میں یہ ڈالروں کے انبار جمع کررہی ہے۔ دوسروں کی ترقی پر رشک کرنا جائز ہے لیکن اپنی حالت پر اشک بہانا بھی ضروری ہے۔ بھارتی فلمی صنعت اس وقت دنیا بھر میں مقبول ہے۔ اپنے ملک اپنے کلچر اور حکومت کا پراپیگنڈا کرنے میں بھی پیش پیش ہے۔ غیر ملکی زر مبادلہ بھی کما رہی ہے۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر520پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس وقت ’’دیوداس‘‘ کا قصہ سنئے۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ موجودہ فلم ’’دیوداس‘‘ پچاس کی دہائی میں بنائی جانے والی ’’دیوداس‘‘ کے بعد دوسری بار بنائی گئی جس میں دلیپ کمار نے دیوداس کا کردار اداکیا تھا مگر ’’دیوداس‘‘ کی اصل کہانی بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ’’دیوداس‘‘ کوئی فلمی کہانی نہیں ہے۔ یہ بنگالی زبان کا ایک معروف و مشہور ناول ہے جسے بنگلہ ادب میں کلاسیکی ناول کا مرتبہ حاصل ہے۔ ’’دیوداس‘‘ کے مصنف سرت چندر چٹوپا دھیہ ہیں جنہیں بنگلہ ادب میں بہت بلند مقام حاصل ہے۔ ان کا یہ ناول بیسویں صدی کے آغاز میں شائع ہوا تھا اور فوراً ہی اس کو کلاسیک کا درجہ دے دیا گیا۔ اس کے کئی ایڈیشن دیکھتے دیکھتے نکل گئے۔ یہ خالص ہندو بنگلہ تہذیب، مزاج اور پس منظر کی حامل کہانی ہے۔ اس میں سرت چندر چٹوپا دھیہ نے اپنے عہد کی سچی اور انتہائی موثر کن تصویر پیش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنگالیوں نے اسے سر آنکھوں پر جگہ دی اور آج بھی ’’دیو داس‘‘ ایک کثرت سے فروخت ہونے والا بنگلہ ناول ہے۔
جب ہندوستان میں فلمیں بنانے کا آغاز ہوا تو سیٹھوں اور دوسرے کاروباری لوگوں نے عام لوگوں کی دلچسپی کے لیے عامیانہ قسم کی فلمیں بنانے کا آغاز کر دیا۔ اچھے لکھنے والے مصنف اور اداکار کچھ عرصے بعد اس میں آئے۔ یہ بیشتر اسٹیج کے لکھنے والے اور اسٹیج پر کام کرنے والے فنکار تھے جنہیں تجربہ کار فنکار ہونے کی وجہ سے فلموں میں شامل کر لیا گیا۔ اگرچہ اسٹیج اور فلم کی تکنیک میں بہت فرق تھا لیکن ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ ہندوستان میں فلمی صنعت کاآغاز ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد نے کیا تھا۔ سرمایہ داروں نے تجوریوں کے منہ کھول دیئے تھے اور غیر ملکی ہنر مندوں اور ماہرین کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ گویا بھارتی فلمی صنعت کا آغاز ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں نے کیا تھا۔
ناول ’’دیوداس‘‘ کو پہلی بار ۱۹۲۸ء میں خاموش فلموں کے دورمیں بنایا گیا تھا۔ یہ ایک جذباتی اور رومانی داستان ہے جس میں آواز ، مکالموں اور موسیقی کو نمایاں حیثیت حاصل ہونی چاہئے مگر اس کہانی کا ایک اپنا تاثر اس قدر بھرپور تھا کہ خاموش فلموں کے دور میں بھی یہ ایک کامیاب فلم ثابت ہوئی۔ بنگالیوں کے دھیمے مزاج، رومانیت اور جذبات کی عکاسی کرنے والی یہ فلم بے زبانی کے باوجود سارے بنگال کی زبان بن گئی تھی اورہر طرف اسکا چرچاہونے لگا تھا۔ یہ کلکتہ کا واقعہ ہے جہاں فلمی صنعت بہت قدیم ہے۔ یہاں پہلے بنگلہ زبان میں فلمیں بنا کر تی تھیں۔ خاموش فلموں کے زمانے میں تو زبان کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی مگر جب ناطق فلموں کا دور آیا تو سرمایہ کاروں کو احساس ہوا کہ سارے ہندوستان میں بہت بڑی مارکیٹ سے قطع نظر کرکے محض بنگال تک محدود رہنا کاروباری اعتبار سے مناسب نہ ہوگا۔ چنانچہ یہاں مختلف فلم ساز اداروں نے مختلف زبانوں میں فلمیں بنانے کا آغاز کر دیا۔
نیو تھیٹرز نئے رجحانات اور نئے نئے تجربات کرنے کے حوالے سے ایک منفرد فلم ساز ادارہ تھا۔ دوسرے بڑے فلم ساز ادارے بھی کلکتہ میں موجود تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کلکتہ میں اردو فلموں کے عالوہ پنجابی زبان میں بھی فلمیں بنا کرتی تھیں۔ اہل بنگال تو خوب صورت چہرے اور جسم دیکھ کر ہی خوش ہو جاتے تھے مگر یہ فلمیں پنجاب، سرحد اور سندھ میں اور اس کے بعد ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں بھی بہت مقبول ہونے لگیں۔ ذرا سوچئے کہ اگر کلکتہ نہ ہوتا تو میڈم نور جہاں جیسی بے مثال فنکارہ کہاں سے سامنے آتیں؟
’’دیوداس‘‘ کو ناطق فلموں کے زمانے میں نیو تھیٹرز نے بڑے اہتمام سے بنایا۔ اس فلم کے ہدایت کار پی سی بروا تھے جو بذات خود بھی بہت اچھے اداکار تھے اور انہوں نے کئی فلموں میں کام کیا تھا۔ بروا ایک زمانے میں غیر منقسم فلمی صنعت کا ایک بہت بڑا نام تھا۔ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تخلیق کار اور فنکار اپنی نا قابل فراموش یادوں کے نقوش چھوڑ گیا ہے۔
بروا نے ’’دیوداس‘‘ میں مرکزی کردار کے لیے اس عہد کے معروف ترین گلوکار کے ایل سہگل کا انتخاب کیا۔ یہ ستم ظریفی بھی دیکھئے کہ سہگل کا تعلق پنجاب سے تھا مگر وہ بنگال میں اپنی اردو گائیکی اور غزلوں کے حوالے سے مشہور ہوئے تھے۔ کہنے کو وہ پنجابی تھے مگر اس قدر مرنجان مرنج، دھان پان،نازک اندام تھے کہ لکھنوی نظرآتے تھے۔ ان کو قدرت نے دو ایسی صفات سے نوازا تھا جو بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہیں۔ پہلی خوبی انکی خوب صورت ، سریلی اور دردمیں ڈوبی ہوئی آواز تھی اور دوسری خوبی ان کاچہرہ تھا۔ وہ سرتاپاایک مظلوم، مغموم اور دنیا کے ستائے ہوئے انسان نظر آتے تھے۔ بولتے تھے تو پُرسوز اور درد بھری آواز دلوں میں اتر جاتی تھی۔ گاتے تھے تو سننے والا مسحور اور مغموم ہوجاتا تھا۔
بروا نے ’’دیوداس‘‘ میں سہگل کی آواز کو سب سے زیادہ اہمیت دی تھی۔ اس فلممیں ایک کے سوا تمام گانے سہگل کے گائے ہوئے تھے۔ہر گانا سچویشن پر نگینے کی طرح جڑا ہوا لگتا تھا اور اس کو سن کر ایک دل شکستہ ، مایوس اور غمگین انسان کی تصویر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی تھی۔ اس فلم کے تمام گانے سپرہٹ ہوئے تھے۔
(جاری ہے۔۔۔اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)