17ستمبر 1948 جنوبی ہند کی عظیم مسلم ریاست حیدر آباد دکن کے خاتمےکے حوالے سے تاریخ کا اہم موڑ ہے ۔ریاست حیدرآباد دکن برطانوی ہندوستان میں واقع دیگر چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی طرح کوئی چھوٹا سا راجواڑہ نہیں تھی بلکہ ایک بڑی مملکت کی حیثیت رکھتی تھی جس کا رقبہ 2لاکھ 15 ہزار مربع کلومیٹر سے زائد تھا۔ تقسیم برصغیر کے وقت اس کی آبادی 1کروڑ 64لاکھ تھی جن میں مسلمان 30 لاکھ ، ہندو وبرہمن ڈھائی لاکھ ، ہندو تلنگے اور مرہٹے 24لاکھ ، ویرسوامی اور لنگایت40 لاکھ ، عیسائی سکھ اور پارسی 7 لاکھ اور دراوڑین پست اقوام غیرآریا 60 لاکھ تھے،ریاست کی سالانہ آمدن 32 کروڑ تھی، 2بڑے دریا 8معاون دریاوں کے ساتھ بہتے تھے۔ 4بڑے ڈیم ریاست میں واقع تھے۔کوئلے ، ابرک ، گریفائیٹ ، سیلوکا پتھر ، سنگ مرمر کی کانیں ریاست میں واقع تھیں۔ ضلع رائچور میں سونا بھی ملتا تھا ، اناج میں خود کفیل تھی اور ہندوستان کی 15فیصد کپاس اور 40فیصد روغنی اجناس پیدا کرتی تھی ۔شکر سازی ، کاغذ سازی ، سیمنت ، پارچہ بافی کے کارخانے اور گھریلو صنعتیں بھی یہاں واقع تھیں ۔ 11ہزار کلومیٹر سڑکیں 2100کلومیٹر ریل علاوہ روڈ ٹرانسپورٹ بھی موجود تھی جو سرکاری ملکیت تھی ، شہر حیدرآباد میں ڈبل ڈیکر بسیں بھی چلتی تھیں اور دکن ایئرویز بھی موجود تھی۔ ڈاک کا اپنا نظام ، اپنی مخصوص کرنسی قومی زبان اردو میں کرنسی نوٹ ، اپنا پرچم ، فوج ، ٹیلی اور تار کی سہولتیں ، 6ہزار سکول جن میں 65ہزار اساتذہ موجود تھے عدلیہ اور انتظامیہ الگ تھیں۔سب کچھ تو تھا اس ایک ریاست کے پاس ۔
، یہ امیر ترین ریاست اس وقت نہ صرف ہندوستان کے تمام اسلامی اداروں کی کھل کر سرپرستی کرتی تھی بلکہ پورے ہندوستان کے مسلمان مشاہیر کو وظائف بھی پیش کرتی تھی ۔اردو کی ترقی کے لیے جامعہ عثمانیہ جیسے ادارے کا قیام بھی اس ریاست کا کارنامہ تھا ۔صرف یہی نہیں مکہ اور مدینہ تک میں متعدد ترقیاتی کام بھی اسی ریاست نے کروائے اور وہاں مستقل رقم بھیجی جاتی رہی ۔تحریک پاکستان کی بھرپور مالی مدد اور قیام پاکستان کے موقع پر بھی بڑی مالی مدد کرنے والی حتی کہ اپنے زوال کے آخری دن بھی پاکستان کے اکاونٹ میں 10ملین پاونڈز جمع کروا گئی تھی۔
یہ تو تھا ریاست کا مختصر تعارف ،اب بات ہو جائے ذرا اس کی تاریخ کی ، جنوبی ہند میں مسلمان ریاستوں کے قیام کا سلسلہ تو علاوالدین خلجی کے 1294ء میں فتوحات سے شروع ہوا اور کچھ ہی عرصے بعد بہمنی سلطنت قائم ہوئی جو 1525ءتک قائم رہی ۔اس کا شیرازہ بکھرنے پر اس کی آخری نشانی قطب شاہی سلطنت بھی 1687ء میں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے ہاتھوں فتح ہوئی ، حیدرآباد دکن کی ریاست قمرالدین خان نظام الملک آصف جاہ اول نے اس وقت قائم کی جب نادر شاہ کے ہاتھوں 1739ء میں دلی پامال ہوئی اور مغلیہ سلطنت خلفشار کا شکار ہوئی تونظام الملک آصف جاہ اول دکن کی صوبے داری پر چلے گئے اور اسے خودمختار سلطنت کی شکل دی ۔اس وقت اگرچہ یہ ایک بہت بڑی ریاست تھی اور مدراس جیسی بندرگاہیں بھی اس کا حصہ تھی لیکن مسلسل گھٹتے گھٹتے زوال کے وقت تک اس کا رقبہ نصف رہ گیا تھا۔ اگرچہ اس ریاست نے ہر افتاد کے وقت برطانوی ہندوستان کی بھرپور مدد کی تھی لیکن خود اس ریاست کو جب بھی برطانوی مدد کی ضرورت پڑی اسے خاطر خواہ تو کیا معمولی سی مدد بھی نہ مل سکی ،
تحریک پاکستان کے دور میں مسلسل یہ ریاست قائداعظم کے معاون کا کردار ادا کرتی رہی تھی ، لیکن قیام پاکستان کے وقت یہ ریاست پاکستان کے دونوں حصوں سے دور اور بھارت میں گھری ہوئی تھی ۔اس لیے پاکستان میں تو اس کی شمولیت کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا اور نہ ہی اس دور میں نظام حیدرآباد دکن میر عثمان علی خان سے ایسا کوئی اشارہ ملتا ہے ۔ماسوائے اس ایک ملاقات کے جو حیدرآبادی وفد کی لارڈ ماونٹ بیٹن سے ملاقات میں وفد کے سربراہ نواب آف چھتاری نے کہا تھا تھا کہ اگر حیدرآباد کو مجبور کیا گیا تو وہ بدرجہ مجبوری پاکستان سے الحاق کے امکانات کا جائزہ لے گا ، لیکن نظام حیدرآباد دکن کی جانب سے اس ریاست کو خودمختار اسلامی سلطنت بنانے کی خواہش ضرور دکھائی دیتی ہے اور برطانوی ہند کے حکمرانوں کے اعلانات کے ریاستوں کو اپنے مستقبل کے فیصلے کی اجازت ہو گی یہ خوش کن امید باندھنا کوئی غلط بھی نہیں تھا۔
ریاست میں مسلمانوں کا اہم سرکاری مناصب اور سرکاری ملازمتوں اور جاگیروں میں غالب حصہ تھا ، دوسری طرف ریاست میں مسلمانوں کو آباد کر کے آبادی کو اعتدال پر لانے کی کوششیں پہلے ہی ناکام بنائی جا چکی تھیں جن میں بڑا ہاتھ خود ریاستی مسلمان رہنماوں کا بھی تھا جنہوں نے مہاسبھائیوں کی شہہ پر فرزند زمین کا ناقص تصور پیش کیا اور اسی بنیاد پر مسلمانوں کی ریاست میں آباد کاری کی مخالفت کی جو سرعلی امام چاہتے تھے ،ان میں پہلے مالابار کے موپلوں کی آبادکاری اور پھر روس کی جان بسے قبضے کے بعد مظالم کا شکار وسط ایشیا کے مسلمانوں کی ریاست میں آباد کاری بھی شامل تھی ،اگرچہ آبادی کا تناسب نظام میرعثمان علی خان کی خواہشات سے مطابقت نہیں رکھتا تھا لیکن ریاست کی عوام خود بھی خوشحال اور فرقہ پرستی سے آزاد تھی ۔اس لیے غالب اکثریت آزادی کے حق میں تھی لیکن بھارت کی چالبازیوں اور پراپیگنڈے نے آبادی کے کچھ حصے کو متاثر بھی کیا ، ریاست میں قائم مسلمان تنظیم اتحاد المسلمین کو لے کر بھی بھارت نے بہت پراپیگنڈہ کیا ۔اگرچہ اس تنظیم کے قائدین بھی اس وقت حالات کا درست ادراک نہ کر سکے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت ہر قیمت پر اس ریاست کو ہڑپ کرنے پر تلا ہوا تھا اگرچہ ایک اور افواہ آج بھی سننے کو ملتی رہتی ہے کہ بھارت حیدرآباد کے بدلے کشمیر پاکستان کو دینے کو تیار تھا لیکن اس کے متعلق شواہد نہیں ملتے۔ ماسوائے قائداعظم کی حیدرآبادی نمائندے سے کراچی ملاقات کے ،جس میں قائداعظم نے انہیں یہ کہا تھا کہ مجھے یہ بھی پیشکش ہے کہ حیدرآباد بھارت لے لے تو وہ کشمیر سے دستبردار ہو جائے گا لیکن کیا حیدرآبادی عوام بھیڑ بکریاں ہیں کہ میں ان کا سودا کر لوں ، دوسری طرف پاکستان سے ہی ریاست حیدرآباد کی مدد کا ایک بندوبست بھی کیا گیا تھا جو کہ سڈنی کارٹن ایک انگریز پائیلٹ مہم جو کی صورت میں تھا جو پاکستان سے روزمرہ استعمال کی ضروری ایشاء اور گولہ و بارود حیدرآباد منتقل کرتا اور وہاں سے ضروری کاغذات اور کچھ خزانہ بھی پاکستان منتقل کرتا رہا۔
لیکن اس ریاست کے ساتھ بھارت کا صورتحال کو جوں کا توں رکھنے کا ایک سالہ معاہدہ ختم ہونے کے دوران ہی بھارتی حکومت اس پرقبضے کا منصوبہ بنا چکی تھی ۔اس مقصد کے لیے حیدرآباد میں رضاکاروں کے مظالم اور جنگی تیاریوں کی جھوٹی کہانیوں کا پراپیگنڈہ پوری دنیا میں کیا گیا تھا تاکہ جب بھارتی فوج ریاست حیدر آباد دکن پر حملہ آور ہو تو دنیا کو باور کرایا جا سکے کہ بھارتی فوج تو صرف امن و امان کی بحالی کے لیے حیدرآباد میں داخل ہوئی ہے، ریاست کی معاشی ناکہ بندی اتنی بھر پور کی گئی کہ ضروری اشیاء اور خوراک کے علاوہ ادویات اور پولیس کے لیے ضروری گولہ بارود کی سپلائی بھی بند کر دی گئی تھی پانی صاف کرنے کی دوا کلورین نہ ملنے کی وجہ سے ریاست میں ہیضے کی وباء بھی پھوٹ پڑی تھی اور مریضوں کو ادویات تک نہیں مل پارہی تھیں اور ریاست کے سرحدی علاقوں میں حملوں کے ساتھ ریاست کے اندر بھی دہشت گردی کا سلسلہ جاری تھا۔
، بھارتی حملہ اگرچہ قائداعظم محمدعلی جناح کی وفات کی وجہ سے 12ستمبر کو شروع ہو گیا تھا لیکن بھارتی فوج کو توقع تھی کہ مکمل فتح پانے میں 15 دن لگ جائیں گے اور اس دوران کشمیر کے محاذ پر پاکستان کے بڑے حملے کی بھی توقع تھی۔ اس لیے انگریز سی این سی جنرل بچر اس حملے کے خلاف تھا لیکن آپریشن پولو کے نام سے بھارتی فوج حملہ آور ہوئی۔ 50ہزار فوجی ، ایک لاکھ رضاکار، ایک سو طیارے ، ایک سو توپیں اور سات سو ٹینک اس حملے میں شریک ہوئے جبکہ مقابلے میں نظام کی دس ہزار فوج تھی حیدرآباد کا سپہ سالار حبیب العید روس جو کئی ماہ تک بھارتی فوج کو روکے رکھنے کے دعوے کر رہا تھا وہ دفاعی منصوبوں پر بھی مکمل عمل درآمد نہ کروا سکا اور بھارتی فوج چند مقامات پر بھر پورمزاحمت کے علاوہ تیزی سے آگے بڑھی فوج کے راستے میں آنے والے دریاوں ، ڈیموں اور ندیوں نہروں کے پل اور پشتے بروقت نہ اڑائے جا سکے اور بھارتی فوج اس جال میں پھنسے بغیر آگے بڑھی لیکن صرف ہنگولی ، اورنگ آباد اور عثمان آباد کے شہر ہی بھارتی قبضے میں کر سکے، باقی جنگ ہنوز جاری تھی کہ 16 اور 17ستمبر کو حیدرآبادی حکام کو اطلاع ملی کہ بھارتی ٹینک بی بی نگر ریلوے سٹیشن کے پاس دریائے موسی سے گزر کر دارلحکومت کی طرف بڑھ رہے ۔اس اطلاع کے بعد وزیراعظم میرلائق علی بھی مستعفی ہو گئے اور نظام نے بھی ہتھیار ڈالنے کا اعلان کر دیا اور 18دسمبر کو حیدرآباد بھارتی فوج کے حوالے کر دیا گیا۔
دوسری طرف حیدآبادی وفد نے اقوام متحدہ پہنچ کر 13ستمبر کو بھارتی حملے کے پیش نظر فوری شنوائی پر زور دیا۔ کاروائی کے دوران 17ستمبر کو جنگ بندی کے لیے بھی ارکان سے رابطہ کیا۔برطانوی نمائندے سرالیگزینڈرکیڈوگن نے خود قرارداد پیش کرنے کی یقین دہانی کروائی اور 17ستمبر کی شام ہی ہنگامی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کے لیے بھی آمادگی کا اظہار کیا۔ اسی دن حیدرآباد کا سقوط ہو گیا اور صورتحال بدل گئی لیکن حیدرآباد کا مقدمہ نظام کے 22ستمبر کو مقدمہ واپس لینے کا خط لکھ دینے کے باوجود باقی رہا۔ پاکستان بھی اس بحث میں شریک ہوتا رہا اور اس پر آخری بحث 19مئی 1949 کو ہوئی تب سے اس مقدمے پر مکمل خاموشی ہے لیکن مقدمہ ابھی تک اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے۔
حیدرآباد کے زوال کے اسباب بھی یاد رکھنے کی ضروت ہے۔ سب سے پہلے تو یہ امر حیران کن ہے کہ جون 1948ء میں حیدرآباد کے بھارت کے ساتھ مذاکرات ختم ہو گئے اور نظر آرہا تھا کہ بھارت حیدرآباد پر جلد حملہ اور ہو جائے گا لیکن اقوام متحدہ سے رجوع کرنے میں 3ماہ لگا دیے گئے۔سیکرٹری وزارت خارجہ ظہیر احمد نے مشیروں کی مدد سے 21اگست کو اقوام متحدہ کے سامنے مقدمہ پیش کر دیا گیا لیکن اقوام متحدہ بھیجے جانے والے وفد کی تشکیل میں اتنے دن لگ گئے کہ وفد10ستمبر کو کراچی پہنچا اور 11ستمبر کو امریکہ روانہ ہوا ۔آخر 3 ماہ کی تاخیر کی اس خوفناک سستی کی کیا وجہ تھی؟ نظام حیدرآباد دکن نے حقیقت جاننے کے باوجود کہ آبادی کی اکثریت غیر مسلم ہے جمہوری اداروں کی تعمیر وترقی کی طرف توجہ نہ دی ، حکومت برطانیہ سے اپنی کوئی بندرگاہ واگزار کروانے کی کوشش نہیں کی ، فوج کی تعمیر کی طرف توجہ نہ دی گئی ، حیدرآبادی اکابرین اس نازک وقت میں بھی کابینہ اور حکومت کا حصہ بننے کے لیے تگ و دو میں لگے رہے ، مستقبل کا درست ادراک نہ کیا گیا بھارتی حکومت سے کوئی بہترین اور زمینی حقائق کے مطابق معاہدہ کرنے کے لیے بھی سنجیدہ اقدامات نہیں کیے گئے ، نظام سیاسی رہنماوں سے بلیک میل ہوتے رہے، پوری دنیا میں بھارتی رویے کا پراپیگنڈہ نہ کیا جا سکا ،لیکن سب سے بڑا سبق مشکل وقت میں اعصاب پر کنٹرول ہے جو حیدرآبادی وزیراعظم میر لائق علی ، سپہ سالار سید حبیب العید روس اور خود نظام حیدرآباد دکن بھی نہ رکھ سکے ، بی بی نگر سے ٹینکوں کے گزرنے کی صرف اطلاع پر میرلائق علی وزارت کا مستعفی ہونے کا فیصلہ اور نظام کا ہتھیار ڈالنے کا اعلان ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ کمزور اعصاب کے لوگ کبھی کبھی میدان جنگ اور مذاکرات کی میز پر نہیں جیت سکتے ۔
۔۔
ادارے کا بلاگر کے ذاتی نقطہ نظر سے اتفاق ضروری نہیں ہے۔