سجن رے جھوٹ مت بولو
چند دن قبل ایک ٹی ہاؤس پر گیا تو وہاں چائے کے ساتھ ملک کے سیاسی حالات پر گرماگرم بحث چل رہی تھی۔کچھ شناسا چہرے حکومتی پارٹی کے گیت گا رہے تھے اور کچھ حکومت کے چہرے سے نقاب اتارنے کی کوشش میں تھے۔ایک بڑی عمر کے بابا جی بھی وہیں بیٹھے تھے، مگر سوچوں میں کہیں بہت دور پہنچ چکے تھے۔بظاہر ان کا وہاں ہونے والی گفتگو کی طرف بالکل دھیان نہیں لگ رہا تھا۔خیرسلام دعا کے بعد میں اپنی باری کے انتظار میں ایک طرف بیٹھ گیا,اخبار کے ورق الٹنے پلٹنے لگا۔چائے والا بڑی سادگی سے پی ٹی آئی کے متوالے سے پوچھ رہا تھا جناب اس حکومت نے ایک سال میں ریکارڈ قرض لیا ہے۔دوست اسلامی ممالک سے لے کر آئی ایم ایف,ورلڈ بینک اور ایشیائی بینک کے دروازے پر بھی جا پہنچے ہیں۔نیب کو استعمال میں لا کے اس حکومت نے حکومت مخالف سیاست دانوں سے ہر ممکن پیسہ نکلوایا ہے۔ ایمنسٹی سکیم کے ذریعے بھی بہت سا مال حکومت نے اکٹھا کیا ہے۔پچھلے دور میں ہونے والی اربوں کی منی لانڈرنگ رک چکی ہے۔روز کروڑوں کی رشوت اور سرکاری مال کی چوری پر بھی ’پابندی‘لگی ہوئی ہے،مگراس سب کے باوجود ملک میں آج تک یہ حکومت ایک خوشی کی خبر نہیں سنا سکی ہے۔پٹرول,ڈیزل اور گیس کا نرخ ہر ایک ماہ بعد بڑھا دیا جاتا ہے۔بازار میں ضروریات زندگی کی ہر چیز مہنگی ہورہی ہے۔کارخانہ داروں اور سرمایہ کاروں کے حلق میں انگلی ڈال کے ان سے ملکی خزانے کے لئے مال برآمد کروایا جارہا ہے،لیکن آج تک عمران خان صاحب نے پاکستانیوں سے کیا گیا کوئی وعدہ پورا نہیں کیا ہے۔نوکریاں دینے اور گھر بنا کے دینے کے پرکشش وعدے خیال و خواب ہو چکے۔بیرون ملک مقیم پاکستانی جو وطن واپسی پر اپنے پیاروں کے لئے تحائف لے کر آتے تھے ان پر ان تحائف کی قیمت کے برابر ٹیکس لگاکے بھی مال بنایا جارہا ہے،لیکن اے میرے بھائی ذرہ دلیل سے بتاو یہ پیسہ کدھر جارہا ہے؟
اس سے پہلے کہ حکومت کا حمایتی کچھ بولتا۔بابا جی اپنا گلہ صاف کرتے ہوئے خود ہی بول پڑے۔ جناب پیسہ تو بہت جمع ہورہا ہے،لیکن یہ پیسہ ان کی جیبوں میں جارہا ہے۔جنہوں نے بائیس سال خان صاحب کو پالا تھا۔جو اس کے گھر کا خرچ,اس کے سفر کا خرچ,اس کی شادیوں کے معاملات اور اس کے بیرونی دوروں کے ذمہ دار تھے۔یہ پیسہ وہ وصول کر رہے ہیں جو حکومت بنانے کے لئے جہاز بھر بھر کے ممبران اسمبلی عمران خان کے پاس پہنچا رہے تھے اور یہ پیسہ ان کے پاس جا رہا ہے جنہوں نے اس چابی والے کھلونے کے سر پاکستانی حکومت کا تاج سجا یا ہے۔بابا جی بولے ایک بات بتاؤ کیا پچھلے سال گنے کی فصل کم کاشت ہوئی تھی؟کیا ملک میں کوئی بحران آگیا تھا۔نہیں ناں؟ تو پھر جو چینی بازار میں پچپن روپے فروخت ہورہی تھی وہ پچاسی روپے کیسے فروخت ہونے لگی۔بیٹا یہ بھی انہیں کے منافع کا سبب تھی جو عمران خان اور جمہوریت کی خدمت کے لئے بندے توڑ توڑ کر لانے کا کام کرتے تھے۔
اور تم یاد کرو تو یاد آجائے گا کہ یہ سپورٹر کبھی بھی کسی جماعت کے نظریات کی وجہ سے اس کے ساتھ شامل نہیں ہوتے، بلکہ یہ بدلتی رت دیکھ کے اپنا کار وبار بڑھانے کے لئے کسی بھی جماعت کے ساتھ جا کھڑے ہوتے ہیں۔پیسہ لگاتے ہیں اور ڈالر کماتے ہیں۔بابا جی نے وہ ساری باتیں اس انداز میں کیں کہ وہاں بیٹھے کسی بندے کی زبان سے ایک لفظ تک نہ نکل پایا۔پی ٹی آئی کا حمایتی یہ کہہ کر کہ عمران خان تو کرپٹ نہیں ہے ناں,آنکھیں نیچے کیے وہاں سے چل دیا۔ اور میں سوچنے لگا کہ ہم جو لفظ سوچ سوچ کے تھک جاتے ہیں ایک بزرگ نے کس خوبی سے سب کھول کر بیان کر دئیے۔جناب عالی قوم کو اس سے مطلب ہے کہ خان صاحب ایماندار ہوں,سچے ہوں،مگر قوم کو زیادہ مطلب اس بات سے ہے کہ خان صاحب کے اردگرد بیٹھے،مگر مچھ خان صاحب کی چھتری کو استعمال کرتے ہوئے عوام کاسارا خون نہ نچوڑ جائیں۔وزیر اعلیٰ پنجا ب کے بارے بتایا جاتا تھا کہ بہت سیدھے ہیں اور خاندانی بندے ہیں،لیکن ایک سال میں ہی انہوں نے اور ان کے خاندان نے وہ کمالات دکھائے ہیں کہ ہر بندہ کانوں کو ہاتھ لگا رہا ہے۔ہر پوسٹ اور ہر نوکری کے لئے ان کے بھائی مبینہ طور پر پیسہ بنارہے ہیں۔
سادگی کی انتہا تو دیکھیے کہ وزیر اعلیٰ کے زیر استعمال ہیلی کاپٹر 1 ارب 4 کروڑ کا ہے۔ویسے تو اس کی انشورنس ایک کروڑ میں ہوتی ہے،لیکن ہمارے سادہ وزیر اعلی کے اس ہیلی کاپٹر کی انشورنس7 کروڑ 50 لاکھ میں کروائی۔اب نیب کے کان میں کسی نے پھونک ماری ہے اور نیب ان سے آہستہ آہستہ اس کا حساب مانگ رہا ہے اورہمارے سادہ وزیر اعلی اس کا ریکارڈ دینے سے کترا رہے ہیں۔اور ایک سینئرتجزیہ کار کے مطابق نیب میں ان کی پیشی تیار ہے:ہمارے وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ان کی حکومت کے پہلے 13 ماہ میں کرپشن کا ایک سکینڈل نہیں آیا۔سرکار آپ کو کرپشن کی ضرورت ہی کب ہے؟بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ آپ کو پیسہ کمانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔آپ تو ایک عرصے سے ’معاف کیجئے گا‘دوسروں کی دولت پہ عیش کر رہے ہیں۔پیسہ تو جنہوں نے کمانا تھا وہ پیسہ کما رہے ہیں۔وزیر اعظم ہاوس میں کھڑی کروڑوں کی گاڑیاں جو آپ نے لاکھوں میں بیچیں وہ بھی سنا گیا ہے انہی کے بہی خواہوں نے خریدی تھیں اور وزیر اعظم ہاوس والی اعلیٰ نسل کی بھینسیں بھی انہی کے فارم ہاوس کی زینت بنیں۔
وہ کرپشن تو نہیں کر رہے، مگر ہر مال کا ریٹ بڑھا کے کرپشن سے بڑی وارداتیں ڈال رہے ہیں۔دوائیاں، چینی، گیس کے بل، غرض دیگر سینکڑوں چیزوں کے ریٹ آسمان کو چھو رہے ہیں۔ہسپتالوں میں پچھلی حکومتوں نے جو سستی اور فری دوائیاں دینی شروع کی تھیں آپ نے وہ بھی بند کروادیں۔ٹھیک ہے اس وقت سیاسی قیادتیں آپ نے پردہ سکرین سے ہٹادی ہیں آپ کے ان مصاحبوں کو کوئی نہیں روک رہا ہے، مگر خدا کی لاٹھی کسی وقت بھی حرکت میں آسکتی ہے۔اپنے مخالف سیاست دانوں کو بے شک میزائل سے اڑا دیجیے، لیکن خدا کے لئے خدا کی مخلوق کا بھلا سوچئیے۔