پانچ سو طاقتورترین مسلمان شخصیات اور اکیلا مودی
دنیا کے پانچ سو طاقتور ترین مسلمانوں کی فہرست چھپی ہے اور میں تب سے سوچ رہا ہوں۔ ان سب کے مقابلے میں اکیلا نریندر مودی زیادہ طاقتور ہے جس نے پچھلے بیالیس دنوں سے 80لاکھ کشمیری مسلمانوں کو محبوس رکھا ہوا ہے، ان پر خوراک، ادویات، حتیٰ کہ پانی تک بند ہے، وہ نہ جانے کس حال میں ہیں، کتنے اذیتیں برداشت کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اور کتنے بیماری اور بھوک کے ہاتھوں ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔ یہ کیسے طاقتور ترین مسلمان ہیں کہ ایک مودی کا نرخرہ نہیں دبا سکتے اور دنیا کو مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ شرمناک بے حسی چھوڑ کر بھارت پر دباؤ ڈالے اور کشمیریوں کو اس قید سے آزاد کرائے۔ کیا ہم صرف اس بات پر تالیاں بجائیں کہ ہمارے پاس پانچ سو انتہائی طاقتور مسلمان شخصیات موجود ہیں اور بھنگڑے ڈالیں کہ دیکھو عالمِ اسلام کتنا مضبوط ہو گیا ہے۔
کیا فائدہ اس طاقتوری کا جو زبانوں پر لگے تالے تک نہ کھلوا سکے اور اس چپ کو نہ توڑے جو اب مجرمانہ غفلت کے زمرے میں آ چکی ہے۔... خیر سے اس فہرست میں ملالہ کا نام بھی ہے۔ہاں واقعی بہت طاقتور شخصیت ہے اور مغرب اس کے نام کی مالا جپتا ہے۔ اس نے اس وجہ سے یہ قدر و منزلت حاصل کی ہے کہ جو لوگ تعلیم کے دشمن تھے، ان کے مقابل آکھڑی ہوئی اور یہ شعور اجاگر کیا کہ تعلیم ہر بچے، خاص طور پر بچیوں کا حق ہے، لیکن کشمیر کے معاملے میں ملالہ اتنی بے حس کیوں ہے؟ بڑی مشکل سے اس کا ایک بیان سامنے آیا ہے، حالانکہ اسے خود سامنے آنا چاہیے۔ لندن میں کشمیری اور پاکستانی درجنوں مظاہرے کر چکے ہیں،ملالہ ان میں نظر نہیں آئی۔ مغرب کے کسی مظلوم کا معاملہ ہو تو ملالہ سامنے آ جاتی ہے۔ مسلمانوں کے معاملے میں اس کا یہ حجاب کیوں ہے؟ کیا اسے ڈر ہے کہ مغرب اس سے منہ نہ پھیر لے یا اسے خوف ہے کہ اس پر کہیں مسلمان بنیاد پرست ہونے کی چھاپ نہ لگ جائے۔
اس کی آواز اگر مغرب میں سنی جاتی ہے تو اسے ببانگ دہل اسے بلند کرنا چاہیے۔ ملالہ مظاہروں میں شامل ہو جائے تو مغربی میڈیا انہیں اور زیادہ کوریج دے گا۔ پھر وہ ایوانِ نمائندگان اور حکومتی حلقوں تک بھی رسائی رکھتی ہے، کشمیریوں کا مقدمہ بڑی کامیابی سے لڑ سکتی ہے،لیکن ایسا نہیں کر رہی۔ کیا اسے اس بات کا خوف ہے کہ بھارتی لابی اس کے خلاف نہ ہو جائے اور اسے ملنے والے نوبل پرائز کی واپسی کے لئے مہم چلائے۔ اگر اس قسم کے چھوٹے چھوٹے خوف اور مصلحتیں ملالہ کو اس تاریخی موقع پر کردار ادا کرنے سے روکتی ہیں تو پھر یہ کہنا کیسے قابل قبول ہو سکتا ہے کہ وہ پانچ سو طاقتور ترین مسلمانوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ فہرست میں ممتاز عالمِ دین مفتی تقی عثمانی کا نام بھی پانچویں نمبر پر ہے۔ وہ وزیراعظم عمران خان سے بھی زیادہ طاقتور ہیں، جن کا نمبر19واں ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ مفتی صاحب اس اہم موقع پر کشمیریوں پر ظلم کے خلاف زبان کیوں نہیں کھولتے، ان کے عقیدت مند تو پاکستان، بھارت، بلکہ دنیا بھر میں موجود ہیں، وہ کشمیریوں پر مظالم کے خلاف انہیں سڑکوں پر احتجاج کرنے کی کال کیوں نہیں دیتے؟ وہ خود پاکستان میں ایسے کسی بڑے مظاہرے کی قیادت کیوں نہیں کرتے؟ بھارت ایک درندہ بن کر کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔
وہ کشمیر سے اسلامی تشخص کو مٹانا چاہتا ہے، آر ایس ایس کے غنڈے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں اور عصمتیں پامال کی جا رہی ہیں۔ تقی عثمانی کو اگر اللہ تعالیٰ نے طاقتور ترین ہونے کا رتبہ دیا ہے، تو وہ اسے اس موقع پر بروئے کار لائیں، آزادکشمیر پہنچیں، مظاہرے کی قیادت کریں۔ ان کے آنے سے وہ آواز جو دبی دبی سی لگ رہی ہے، بلندیوں کو چھولے گی۔ پھر وہ عالم اسلام کے دورے کر سکتے ہیں، وہاں کے علمائے کرام کو متحرک کرکے ان ممالک کی حکومتوں پر دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ وہ کشمیریوں پر ہٹلر ثانی نریندر مودی کا ظلم رکوائیں۔وہ بہت کچھ کر سکتے ہیں، بشرطیکہ کرنا چاہیں۔
اگر وہ صرف اس بات پر خوش ہو کر بیٹھے رہتے ہیں کہ ان کا نام بااثر طاقتور مسلمانوں کی فہرست میں صفحہ ء اول پر ہے تو انہیں یہ مرتبہ مبارک، لیکن اس سے مظلوم کشمیریوں کے دکھوں میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ ویسے تو میں ایسی فہرستوں پر یقین نہیں رکھتا۔ اس میں پیسے اور تعلق کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ ان شخصیات کا انتخاب کس طریقے سے کیا گیا ہے، کون سا پیمانہ استعمال ہوا ہے اور نمبرنگ کے لئے کس معیار کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے؟ ایسی فہرستیں تیار کرنے والے شخصیات سے خود رابطہ قائم کرتے ہیں اور مارکیٹنگ کے انداز میں یہ سودا بیچتے ہیں۔ چند بڑی شخصیات کو لے کر باقی اکثریت کے نام ٹانکے جاتے ہیں، جس طرح کسی شعبے کی ڈائریکٹری تیار کرنے والے دکانوں اور دفاتر میں جاتے ہیں اور ڈائریکٹری کے لئے مارکیٹنگ کرتے ہیں، اسی طرح یہ کام بھی ہے۔ کوئی پوچھے کہ بھائی یہ طاقتور ترین شخصیات کیسے ہو گئیں تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔ اسی فہرست میں اپنے پیارے معروف مبلغ مولانا طارق جمیل کا نام بھی شامل ہے۔ چلیں جی مان لیتے ہیں کہ وہ بہت طاقتور ہیں، مگر وہ بھی کشمیریوں کے معاملے میں اپنی طاقتوری کا کوئی جوہر نہیں دکھا رہے۔ اب وہ کہیں گے کہ میں تو تبلیغ کرتا ہوں، سیاست نہیں، یا میرا کام تو امن و سلامتی کا درس دینا ہے، جنگ و قتال کا نہیں، لیکن کشمیریوں کو جو صورتِ حال درپیش ہے، کیا انہیں یہ بات سمجھ آ سکتی ہے۔ کیا حضور اکرمﷺ نے مظلوم کی مدد کرنے کا حکم نہیں دیا، کیا ایسے حالات میں جہاد فرض نہیں ہو جاتا۔
چلیں آپ تلوار سے جہاد نہ کریں،زبان سے تو کر سکتے ہیں، پھر آپ تو ایک بہت بڑے عالم دین ہیں، جن کی زبان میں قدرت نے حد درجہ شیرینی اور اثر بھر دیا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے علماء نے ابھی تک کشمیریوں کے لئے کوئی ریلی نہیں نکالی۔ جن مدرسوں کے طلبہ کو مولانا فضل الرحمن حکومت کے خلاف دھرنے کے لئے سڑکوں پر لانا چاہتے ہیں، انہیں کشمیریوں کے حق اور بھارتی جارحیت کے خلاف میدان میں کیوں نہیں لائے؟ ہاں اس فہرست میں طیب اردوان کی شخضیت صحیح معنوں میں طاقتور مسلمان کے معیار پر پورا اترتی ہے۔ وہ دامے، درمے، سخنے جہاں بھی مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے، نہ صرف آواز بلند کرتے ہیں، بلکہ خم ٹھونک کر میدان میں بھی آ جاتے ہیں۔ کشمیریوں کے حق میں بھی انہوں نے آواز اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس فہرست میں پانچ سو شخصیات کی موجودگی دیکھ کر حیرانی بھی ہوتی ہے اور مایوسی بھی۔ یہ طاقتور اور بااثر مسلمان شخصیات دنیا کے ہر ملک میں موجود ہیں۔ اگر یہ اپنے اپنے دائرے میں کشمیریوں کے لئے آواز اٹھانے کے مشن کو اپنا مقصد بنا لیں تو پوری دنیا میں ایک ہلچل مچ سکتی ہے۔ یہ پانچ سو شخصیات درحقیقت ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو متحرک کر سکتی ہیں۔
ایک مودی آج پوری دنیا میں دندناتا پھر رہا ہے۔ وہ اپنے ہندو ازم کی بنیاد پر نہ صرف بھارت میں مسلمانوں کا قتلِ عام کر رہا ہے، بلکہ اس نے کشمیر میں عملاً لاکھوں کشمیریوں کو قید کر رکھا ہے۔ کیا یہ پانچ سو شخصیات اس اکیلے نریندی مودی کے گلے میں پٹہ نہیں ڈال سکتیں؟... ڈال سکتی ہیں، بشرطیکہ اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات، جغرافیائی شناخت اور فرقوں و مسالک سے بلند ہو کر صرف مسلمان بن کر سوچیں۔ویسے بھی یہ بات بڑی مضحکہ خیز لگتی ہے کہ ایک طرف 80 ہزار کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہوں، ان کا کوئی پرسان حال نہ ہو اور دوسری طرف ہم پانچ سو طاقتور مسلمانوں کی فہرست جاری کریں۔ یہ کیسی طاقتوری ہے جو اپنے مسلمان کشمیری بھائیوں کے حق میں آواز تک بلند کرنے سے قاصر ہے۔