زنا بالجبر جسے انگریزی اصطلاح میں ریپ کہا جاتا ہے دراصل کسی عورت کے ساتھ اُس کی اجازت کے بغیر جنسی عمل سرانجام دینے کو کہتے ہیں، میں نے یہاں جان بوجھ کر لفظ زبردستی استعمال نہیں کیا، کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر جنسی عمل جو عورت کی اجازت کے بغیر سرانجام دیا جائے ریپ ہی میں شمار ہو گا البتہ اس عمل کے لئے زبردستی سے پیش آنا الگ سے ایک جرم ہے، زنا بالرضا یا فارنیکیشن کے معاملے میں تو قرآن سے مستنبط قانون موجود ہے، جس کی تفسیر علمائے فقہ کرتے رہے ہیں لیکن زنا بالجبر کا معاملہ انتہائی پیچیدہ ہے نہ صرف پیچیدہ ہے، بلکہ قرآن اور احادیث ِ متواترہ میں اس کا کوئی واضح اور دو ٹوک قانون بھی موجود نہیں ہے، ریپ کے حوالے سے عموماً جو ایک دو روایات بیان کی جاتی ہیں ان کے درست ہونے پر کسی ثقہ محدث کی جرح و تعدیل میری نظر سے تو اب تک نہیں گزری، درسِ نظامی کے حصول کے دوران ہمیں اساتذہ نے حد ِ قذف کے متعلق تو تفصیل سے سمجھا دیا تھا لیکن زنا بالجبر کے حوالے سے اساتذہ کی خاموشی اور اس خاموشی کے پیچھے چھپی حکمت مجھے آج بھی یاد ہے، جو مَیں یہاں بیان کرنے کے لئے یہ مضمون لکھ رہا ہوں، دراصل اسلام میں زنا بالرضا یعنی فارنیکیشن اور زنا بالجبر یعنی ریپ کی سزا کا قانون صرف ایک ہی نوعیت کا ہے اس میں کوئی تخصیص موجود نہیں اور دونوں کو ثابت کرنے کے لئے وہی چار گواہ جنہوں نے اپنی آنکھوں سے فعل ہوتا ہوا دیکھا ہو درکار ہوتے ہیں، اب میں یہاں پر زنا بالجبر کے حوالے سے اْن انسانی مجبوریوں کا ذکر کروں گا، جن سے بہرطور کسی بھی صورت چھٹکارا ممکن نہیں، پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ زنا بالجبر یا ریپ کی شکار خاتون جب عدالت کے پاس اپنا مقدمہ لے کر جاتی ہے تو اُس کے پاس اپنی حقانیت ثابت کرنے کے لئے کیا دلائل اور ثبوت موجود ہوتے ہیں؟ یاد رکھیں کہ قانون کی بنیاد حکمت، دلیل اور ثبوت پر مبنی ہوتی ہے عدالت اگر لوگوں کے جذبات اور غوغا پر فیصلہ دینے لگے تو پھر عدالت قانون کی بجائے ایک جذباتی دھماچوکڑی کی پیروکار بن جائے گی، دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ عورت اپنی حقانیت ثابت کیسے کرے گی، جبکہ اس کے پاس شریعت کو مطلوب چار گواہ تو کسی صورت بھی نہیں ہوں گے کیونکہ چار لوگوں کی موجودگی میں تو یہ فعل ممکن ہی نہیں بلاشبہ پھر صورت زنا بالرضا ہی کی کیوں نہ ہو دنیا کا کوئی بھی اخلاقیات سے گیا گزرا مسلمان بھی چار لوگوں کی موجودگی میں یہ فعل سرانجام نہیں دے سکتا۔ لامحالہ اس کی پھر ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ فاعل خود عدالت کے سامنے پیش ہو کر اپنے فعل کا اقرار کر لے اور ایسا ہوا بھی ہے جیسا کہ بعض آثار (احادیث) سے ہمیں معلوم ہوتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ زنا بالجبر کا معاملہ تو زنا بالرضا سے بھی پیچیدہ ہے اور لوگ اس پر ایسے بحث کر رہے ہوتے ہیں کہ جیسے شریعت ِ اسلامی سے یہ مسئلہ کہیں چوک گیا ہو، ایسا بالکل بھی نہیں کہ اس مسئلے کی بابت فقہاء نے غور نہیں کیا یا اس مسئلہ کو قرآن و سنت میں اہمیت حاصل نہیں ہے یقینا ہے، لیکن اس مسئلے کی حساسیت اور پیچیدگی کے پیش ِ نظر اس پر وہی قانون لاگو کر دیا گیا جو زنا بالرضا کے ضمن میں واقع ہوا، قانون کی بات تبھی ہو سکتی ہے جب آپ ایک جرم کو ثابت کر لیتے ہیں پھر چاہے وہ معاملہ شریعت کا ہو یا پھر خالص سیکولر قوانین کا ہر دو صورتوں میں پہلے جرم کو ثابت کرنا لابدی ہے، اس ضمن میں قانون سازی کا مسئلہ اْس وقت تک لایعنی عمل ہے جب تک کہ جرم کو ثابت کرنے کا کوئی ٹھوس وسیلہ نہیں پیدا ہو جاتا، پرانے زمانے میں عموماً مخالفین ایک دوسرے کو سماجی اور اخلاقی طور پر زیر کرنے کے لئے عورت کا استعمال کیا کرتے جیسا کہ روایات میں درج ہے کہ حضرت موسیٰ پر ایک عورت نے زنا بالجبر کا الزام لگایا تھا یا جیسا کہ زلیخا نے حضرت یوسف کو مہتمم ٹھہرایا، چنانچہ یہ کوئی نئی بات نہیں اب اگر جدید طبی سہولیات میسر آ گئی ہیں تو ڈی این اے کا وسیلہ ثبوت کے طور پر استعمال کرنے میں یقینا کوئی شرعی قباحت نہیں ہے، لیکن اصل مسئلہ اب بھی جوں کا توں موجود ہے کہ عورت سچ بول رہی ہے یا جھوٹ یہ ثابت کیسے ہو گا؟ کیا ایسا ممکن نہیں کہ کوئی عورت کسی مرد کے ساتھ زنا بالرضا کرنے کے بعد عدالت کے پاس چلی جائے اور مذکورہ شخص پر مقدمہ درج کر دے کہ اِس نے میرے ساتھ زنا بالجبر کیا ہے اور پھر عدالت ڈی این اے کے ذریعہ سے فعل ثابت بھی کر دے چنانچہ فاعل پر جرم ثابت ہونے کے بعد جو زیادتی قانونی طور پر فاعل کے ساتھ ہو گی اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ یا آپ یہ کہہ دیں کہ مذکورہ بالا صورت تو کسی طور بھی ممکن نہیں، لیکن نہیں ایسی صورت بالکل ممکن ہے پس ایسی صورت کا میں خود چشم دید گواہ ہوں جو میرے ایک انتہائی قریبی دوست کے ساتھ پیش آئی،لیکن چونکہ بعد میں دوست نے اپنی مدعی خاتون کو کسی طور راضی کر لیا تھا اس لئے یہ معاملہ اْسی وقت رفع ہو گیا تھا ورنہ دوست کے تو صحیح معنوں میں اوسان خطا ہو گئے تھے، اب اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہر عورت اس طرح کی اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ کرتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ زنا بالجبر کے ضمن میں جرم کو ثابت کرنے کے لئے جو درکار وسائل ہیں وہ نہ صرف ناکافی ہیں،بلکہ ان میں زبردست فریب اور کذب بیانی کا بھی احتمال بدرجہ اتم موجود ہے پس بہت ضروری ہے کہ اس ضمن میں قانون سازی سے قبل تعیینِ جرم کے لئے درکار کافی ثبوت اور مدعی مفعولہ کے اخلاق اور کردار پر جرح کے وسائل پیدا کئے جائیں ورنہ پھر یہ کسی بھی مرد کی عزت سرعام نیلام کرنے کا ایک مستقل قانونی حربہ بن جائے گا، قوانین انسانی جذبات یا معاشرتی دباؤ کی بنیاد پر قائم نہیں کئے جاتے ہر قانون کے پیچھے ایک گہری حکمت کارفرما ہونی چاہئے تبھی وہ صحیح معنوں میں مفید ہو سکتا ہے ورنہ طاقت کی بنیاد پر قانون سازی انسانیت کے لئے کبھی فائدہ مند نہیں رہی، قانون جہاں ایک طرف مظلوم کو انصاف فراہم کرتا ہے تو وہاں دوسری طرف مجرم کو اس کے جرم کی معقول سزا بھی دیتا ہے، جبکہ اس کے بیچ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی یہ بھی ایک انتہائی اہم ذمہ داری ہوتی ہے کہ کوئی بھی شاطر قانون کا سہارا لے کر کسی بھی بے گناہ کے ساتھ زیادتی نہ کر لے۔