سپورٹس مین سپرٹ
16 اکتوبر 1987ء کے دن قذافی سٹیڈیم لاہور تماشیو ں سے کھچا کھچ بھر ا تھا،سٹیڈیم کے باہر بھی ہزاروں لوگ موجود تھے جبکہ دنیا بھر میں کروڑوں کرکٹ شائقین ٹی وی کے سامنے بیٹھے پاکستان اور ویسٹ انڈیز کا میچ دیکھ رہے تھے۔ ویسٹ انڈیز نے پاکستان کو 216 رنز کا ٹارگٹ دیا تھا جسے پورا کرنے کے لئے آخری اوور کی آخری بال پر پاکستان کو جیتنے کے لئے دو رنز درکار تھے اور اس کا آخری کھلاڑی سلیم جعفر نان سٹرائیکر اینڈ پر موجود تھا جبکہ سٹرائیکر اینڈپر عبدالقادر موجود تھا۔ ویسٹ انڈیز کے لئے یہ میچ جیتنا بہت ضروری تھا،ہار کی صورت میں وہ سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہوجاتا اور کرکٹ ورلڈ کپ کی تاریخ میں اس سے قبل دو دفعہ کا چیمپئین ویسٹ انڈیز ہر بار ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک ضرور رسائی حاصل کر چکا تھا۔میچ کا آخری اوور لیجنڈ فاسٹ باؤلر کورٹنی والش کرا رہا تھا۔آخری بال کے لئے کورٹنی والش اپنے مخصوص انداز میں بال کرانے کیلئے بھاگا۔ سٹیڈیم میں پاکستانی تماشائیوں کا شور عروج پر تھا،اکثر لوگ پاکستان کی فتح کے لئے ہاتھ اٹھائے دعائیں مانگ رہے تھے یہی حال گھروں میں ٹی وی دیکھنے والوں کا تھا۔کورٹنی والش نے جونہی بال کرانے کے لئے ہاتھ اٹھایا تو فوراًدونوں ہاتھ نیچے کرکے کھڑا ہوگیا کیونکہ نان سٹرائیکر اینڈ پر سلیم جعفر اس دوران کریز سے باہرنکل کر رن لینے کے لئے بال کرانے سے پہلے کریز چھوڑ چکا تھا۔کورٹنی والش اسے آسانی سے رن آؤٹ کرکے یہ میچ جیت سکتا تھا لیکن کرکٹ کی روائت کے مطابق اس نے سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے وارننگ دیتے ہوئے کریز میں واپس آنے کا موقعہ دیا اور پھر دوبارہ بال کرانے کے لئے واپس مڑ گیا اور آخری بال کرائی جسے عبدالقادر نے ہٹ لگا کر پاکستان کو میچ جتوا دیا اور تاریخ میں پہلی بار ویسٹ انڈیز کرکٹ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل سے باہر ہوگیا۔
بظاہر یہ میچ ویسٹ انڈیز ہار گیا لیکن کورٹنی والش نے جس سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہر ہ کیا اس نے ویسٹ انڈیز کو کرکٹ شائقین کے دلوں میں فتح دلا دی۔آئی سی سی نے کورٹنی والش کے اس عظیم عمل کو سراہا پاکستان نے بھی کورٹنی والش کو سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرنے پر ایوارڈ دیا۔ تو کورٹنی والش نے کہا ”میں ایک کھلاڑی ہوں اور میں میدان میں کھیلے بغیر جیتنا پسند نہیں کرتا،میرے لئے جیت سے زیادہ کھیل کا وقار اہم ہے یہ ایک ایسا عمل ہے جس پر مجھے شرمندگی کی بجائے فخر ہے“
کورٹنی والش نے ایک اور انٹرویو میں کہا ”اس دن اگر میں ٹرکس سے سلیم جعفر کو آوٹ کردیتا تو ہم میچ جیت جاتے لیکن کھیل ہا ر جاتا۔میں اپنی ساری زندگی اس بوجھ تلے گزار دیتا کہ میں میدان میں کھیل کر جیتنے کی بجائے ٹرکس سے جیتا،میں نے سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ نہ کرکے ایک کھلاڑی ہونے کا ثبوت نہیں دیا۔ایک کھلاڑی کو کمزور انسان کے طور پر پیش کیا جو مقابلہ کرنے کی بجائے مخالف کو ٹیکنیکلی آؤٹ کرکے جیتا جو میرے نزدیک کسی بھی طرح مثبت عمل نہ تھا۔میں نے سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرکے کرکٹ کی تاریخ میں اپنے ملک کا نا م سر بلند کردیا۔کل کو جب بھی اس میچ کا تذکرہ ہوتا اس جیت پر میرے ملک کے لوگ فخر کرنے کی بجائے شرمندگی محسوس کرتے ویسٹ انڈیز کے نام یہ فتح اعزاز نہیں ایک داغ بن کر ہمیشہ میرے لئے ایک گالی بن جاتا۔میری اولاد یہ میچ دیکھتی تو وہ اپنے باپ کے اس ایکٹ پر ندامت محسوس کرتی آج میرے بچے فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا باپ ایک عظیم انسان ہے اور اس نے سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہر ہ کرکے ہمارے سر فخر سے بلند کردئیے“۔
زندگی کا کوئی میدان ہو جو اصولوں پر قائم رہ کر کھیل گیا وہی فاتح کہلایا اور عزتوں کے تاج اسی کو نصیب ہوئے۔کربلا کا درس کیا ہے یہی کہ اصولوں پر قائم رہنا لازم ہے چاہے اس کے لئے کتنی بڑی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ وزیراعظم عمران خان کے اصول ہی تھے جن کی وجہ سے عوام ان کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔خان صاحب ہمیشہ سیاسی مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمات کی مذمت کرتے رہے اور اس کے لئے برطانوی جمہوریت کی مثالیں پیش کرتے رہے۔وہ خود کو ایک کھلاڑٰی کے طور پر پیش کرتے رہے اور میدان میں لڑکر فتح کا عہد بار بار دہراتے رہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ہم نے دیکھا کہ خان صاحب کے عہد میں حنیف عباسی،خواجہ سعد رفیق اور رانا ثنا ء اللہ جیسے سیاسی کارکنوں پر ایسے مقدمات گھڑے گئے جنہیں خود ان کے اپنے کارکن بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔اب احسن اقبال کی باری ہے،جس نے بھی زبان کھولی اس کو اندر ڈال دیا۔احسن اقبال اگر کرپٹ ہے تو خان صاحب ہر ضلع میں ایسا کرپٹ بندہ لگا دیں جونارووال جیسے پسماندہ علاقہ کو سترسال سے نظر انداز رکھنے کا ازالہ کردے اور محرومیوں کو ختم کرکے اسے مثالی ضلع بنا دے اور سڑکوں،تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کا جال بچھا دے۔خان صاحب ایسے بیس پچیس کرپٹ لوگ ڈھونڈیں اور انہیں پاکستان کے تمام پسماندہ اضلاع میں لگا دیں یقین جانیں اگلے پانچ سال بعد یہ اضلاع لاہور اور راولپنڈی کے برابر سہولیات کے حامل ہوں گے۔
وزیراعظم صاحب اگر کوئی کرپٹ ہے تو ہم سب آپ کے ساتھ ہیں اس کا پیٹ پھاڑیں، اسے الٹا لٹکائیں،اسے گھسیٹیں اور جس بھی طرح ہو اس سے لوٹی دولت نکلوائیں لیکن مخالف سیاسی ورکروں کی زبان بندی کے لئے اس طرح کے کمزور مقدمے نہ بنائیں جن کا عدالتوں میں مذاق بنے اور احتساب کا عمل ایک نوٹنکی بن کر رہ جائے۔ اصل چور بھی معصوم لگنے لگیں۔اس طرح ہو سکتا ہے آپ پانچ سال حکومت کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور اپنے کچھ گول بھی اچیو کرلیں لیکن مخالفین کو کھیلنے کا موقعہ نہ دے کر آپ سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے جیت کر بھی ہار جائیں گے۔تاریخ جھوٹے مقدمات اور جیل کاٹنے والے کارکنوں کو ہیرو لکھے گی اور آپ کے عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہے گا۔حکمران حریفوں کو اپنی کارکردگی سے ہراتے ہیں جو مہنگائی میں کمی،عوامی فلاح کے کاموں کا آغاز،گڈگورنس،اپنے دعووں پر عمل،کروڑوں نوکریوں اور لاکھوں گھروں کی تکمیل ہے۔کنٹینر اور وزیراعظم کی کرسی میں فرق ہے۔کنٹینر پر آپ حریفوں پر الزامات لگا سکتے ہیں لیکن کرسی پر بیٹھ کر اپنی کارکردگی گنوانی پڑتی ہے، اپوزیشن لیڈر بن کر دوسروں کی کردارکشی ہو سکتی ہے لیکن حاکم بن کر اپنا اعلٰی کردار پیش کرنا پڑتا ہے۔