میرے چند غیر ملکی مہربان!
جس ایک بات نے ایک طویل عرصے سے مجھے یہ سطور لکھنے پر آمادہ کیا ہوا ہے وہ میرے ان قارئینِ گرامی کی ہمت افزائی ہے جو مجھے بذریعہ فون، ای میل اور واٹس آپ ملتی رہتی ہے۔ جب ای میل اور واٹس آپ کی سہولتیں نہیں تھیں تو موبائل تو تھا اور اس سے بھی پہلے لینڈ لائن ٹیلی فون کا زمانہ تھا۔ اور میں تو گزشتہ 25برس سے دفاعی اور جیو سٹرٹیجک امور و موضوعات پر کالم آرائی کر رہا ہوں۔ کئی دوستوں نے اول اول میرے کالموں پر تنقید کے نشتر چلائے اور کئی ایک نے تحسین و آفرین کے ڈونگرے بھی برسائے۔ میں ان دونوں ’اقسام‘ کے احباب کا ممنون ہوں۔ ایک جغادری صحافی اور کالم نویس نے تو یہ تک کہا کہ آپ کالم نہیں لکھتے، مضمون لکھتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہی نہیں کہ کالم اور آرٹیکل میں کیا فرق ہے۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ مجھے چونکہ کسی صلے کی پرواہ نہیں اور نہ کسی ستائش کی تمنا ہے اس لئے سربگریباں ہو کر قلم گھسیٹتا رہتا ہوں۔ مجھے کالم نگاری کا سلیقہ ہو نہ ہو، مضمون نگاری کا تو کچھ نہ کچھ طریقہ ہے…… میرے لئے یہی کافی ہے۔
اب کئی برسوں سے تنقید و تنقیص کا سلسلہ تو بند ہے، البتہ خود ستائی نہ سمجھیں تو عرض کروں گا کہ مدح و آفریں جاری ہے۔اب پاکستانی قارئین کے علاوہ وہ غیر ملکی قارئین بھی اس آفریں طرازی میں شامل ہیں جو وہاں کی مقامی زبانوں میں کالموں کی اقسام کا از بس شعور رکھتے ہیں۔ ان کے پیغامات واٹس آپ پر آتے رہتے ہیں اور میرے لئے وجہِ تسکین بنتے ہیں۔ جن غیر ملکی پاکستانیوں کو میرے کالموں وغیرہ سے علاقہ رہتا ہے ان میں بہت دور دراز کے قارئین بھی شامل ہیں۔ گرین لینڈ، سپین اور پرتگال کے علاوہ سکنڈے نیوین ممالک کے محترم قارئین جن کو اردو زبان اور پاکستان سے محبت ہے، وہ ای میل کے ذریعے رابطے میں رہتے ہیں۔
اوسلو (ناروے) کوپن ہیگن (ڈنمارک) اور سٹاک ہوم (سویڈن) سے کئی کرم فرما مسلسل میرے کالموں پر فیڈ بیک دیتے ہیں۔ اوسلو سے ایک صاحب کا نام محمد اسلم ہے وہ چیلیانوالی کے رہنے والے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے کئی عزیز چیلیانوالی جنگ (لڑائی) میں مارے گئے تھے اور ان کی تین پشتیں اب پاکستان سے ہجرت کرکے ناروے کے کئی شہروں میں آباد ہیں اور وہ یہاں کے شہری ہیں۔ کاغذ سازی کے ایک کارخانے میں کام کرتے ہیں۔ میرا کالم (یا مضمون) اس لئے پڑھتے ہیں کہ اس میں جنگ و جدل کی وہ مبادیات بھی ہوتی ہیں جو کسی دوسرے پاکستانی اخبار میں نہیں ہوتیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ جب بھی پاکستان آتے ہیں اور لالہ موسیٰ سے ہو کر چیلیانوالی کی طرف جاتے ہیں تو راستے میں اپنے اجداد کی قبروں پر فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔ یہ لوگ شاید کسی ”سکھ وار“ میں مارے گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ جب بھی میرے کسی کالم کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس میں حدیثِ دفاع پر کوئی مواد ہوتا ہے تو وہ ان کے آباؤ اجداد کی تازہ کر جاتا ہے۔
کوپن ہیگن سے ایک صاحب کا نام جواد ہے اور وہ لاہور کے رہنے والے ہیں۔ ان کی اہلیہ بھی پاکستانی ہیں اور وہ گزشتہ 20،25برسوں سے یہاں آباد ہیں۔ ان کو پاکستان کی سیاسیات سے کچھ غرض نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان کو سب سے پہلے اپنا دفاع مضبوط بنانا چاہیے۔ افواجِ پاکستان کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے اور زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ پاکستان اپنے والدین کو بھیجتے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ جس ملک کی اقتصادی حالت بہتر ہو گی وہی ترقی کرے گا اور اقتصادی ترقی کا راز سیاسی ترقی سے زیادہ دفاعی ترقی میں مضمر ہے۔ ڈنمارک اور سویڈن کی بہت سی دفاعی ایجادات کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور اکثر پریشان ہوتے ہیں کہ اگر سویڈن جیسا ملک سٹیٹ آف دی آرٹ دفاعی آلات بناتا اور برآمد کرتا ہے تو پاکستان کو بھی یہی کرنا چاہیے۔ صاب (SAAB) سویڈن کی ایک مشہور اسلحہ ساز کمپنی ہے۔ اس طیارہ ساز کمپنی نے دعویٰ کر رکھا ہے کہ اس کا گرپن (Gripen) طیارہ فرانس کے رافیل کے مقابلے کا ہے اور قیمت میں رافیل سے کہیں ارزاں ہے۔ جواد صاحب کا کہنا ہے کہ ان کے کئی پاکستانی دوست SAAB میں کام کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ایک رافیل کی قیمت میں 2گرپن فائٹر خریدے جا سکتے ہیں۔ وہ اکثر یہ سوال کیا کرتے ہیں کہ پاکستان کا کون سا ایسا اخبار یا میگزین ہے جس میں دفاعی ساز و سامان کے بارے میں ایسے مضامین چھپتے ہیں جیسے کوپن ہیگن کے اخباروں میں ایک تواتر سے شائع ہوتے اور لوگ ان کا بڑے شوق سے مطالعہ کرتے ہیں؟
ٹورنٹو (کینیڈا) سے میجر شاہد میر اکثر میرے کالموں کے بارے میں حسنِ ظن کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اردو تو تھی ہی فوج کی زبان۔ اس میں فوج سے متعلق معلومات کا نہ ہونا، ایک حیران کن امر ہے۔ یہ درست ہے کہ جدید فوج کی ہر چیز انگریزی بولنے والوں نے بنائی لیکن انہوں نے یہ پابندی کبھی نہیں لگائی تھی کہ اردو کا پاک فوج میں داخلہ بند کر دیا جائے۔شاہد میر کا خیال ہے کہ انگریز افسر ہندوستان کی کسی بھی چھوٹی بڑی لڑائی میں اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں کر سکتے تھے جب تک نچلے رینکس کی سپاہ ان کے ساتھ نہ ہوتی۔ آج ہم جن ہندوستانی ٹروپس کو جنگ کا چارہ قرار دیتے ہیں تو اس میں سو فیصد حقیقت ہے۔ چارے کے بغیر جس طرح کوئی مال مویشی زندہ نہیں رہ سکتا اس طرح کوئی فوج ’چارے‘ کے بغیر میدان جنگ میں نہیں اتر سکتی۔ اگر کسی کسان کو چارہ بنانا نہیں آتا تو وہ کب تک کھیتی باڑی کر سکتا ہے؟…… آج اگر کسی کسان کے باڑے میں بیل، گائے، بھینس، بکریاں اور بھیڑیں نہیں اور اسے سبز چارے کی ضرورت نہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جو کام پہلے مال مویشی کرتے تھے وہ اب مشینیں کر رہی ہیں۔
لیکن مشینوں کو چلاتا کون ہے؟…… وہی کسان آج ڈرائیور، مستری، مکینک اور سپیئرپارٹس فروش بنا ہوا ہے اور سبز چارے کی جگہ سفید مائع چارے نے لے لی ہے جسے پٹرول اور ڈیزل کہا جاتا ہے۔ چنانچہ آج کا سپاہی ڈرائیور اور مکینک کی شکل میں جنگ کا چارہ ہے۔ اس چارے کے بارے میں انگریزی زبان کے الفاظ تو موجود ہیں لیکن ہمارے ڈرائیوروں اور مستریوں کی زبان پھر بھی انگریزی نہیں، اردو ہے۔ آپ انگریزی زبان کی Terms کو اردو میں استعمال کرکے کام نکالتے ہیں۔ لیکن اس ”کاروبار“ کی سوچ سمجھ بھی تو کسی زبان میں ہونی چاہیے اور اس زبان کی ایک تحریری شکل بھی ہونی چاہیے۔
میں جناب شاہد میر کے تجزیئے سے اتفاق کرتا ہوں۔ اس لئے جنگ و جدل کی اساسیات کو اس زبان میں منتقل کرکے استعمال کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں جو پاکستانی افواج کے سپاہیوں کی زبان ہے۔
میجر جنرل (ر) ظہور ملک کا تعلق روات ضلع راولپنڈی سے ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ آج کل سکاٹ لینڈ میں اپنے بچوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ان کی ای میل اور پیغام وغیرہ مسلسل آتے رہتے ہیں۔ راقم السطور کو دورانِ ملازمت ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ اس وقت معلوم نہ تھا کہ وہ اردو اور فارسی عربی کے بھی رسیا ہیں۔ میرا کالم پڑھنے کے بعد ان کا تبصرہ ادب آمیز بھی ہوتا ہے اور ادب آموز بھی…… ان کا خیال ہے کہ پاکستان کے سینئر افسروں کو پروفیشنل موضوعات پر بولنا بھی چاہیے اور لکھنا بھی…… میں نے ان کو گزشتہ ماہ درخواست کی تھی کہ وہ اپنی سوانحِ حیات لکھ کر کتابی صورت میں شائع کریں اور ایک باب میں اس بات پر بھی زور دیں کہ پاک آرمی میں دفاعی موضوعات کو اردو میں کیسے بیان اور تحریر کیا جائے…… کچھ دیر کی بحث و تمحیص کے بعد انہوں نے حامی بھر لی۔ پچھلے دنوں ان کی سوانح کا پہلا باب مجھے موصول ہوا اور جس کا عنوان تھا: ”گزری ہوئی دلچسپیاں“…… یہ تحریر اب کمپوزنگ کے مرحلے میں ہے اور انشاء اللہ جلد اسی اخبار کے سنڈے ایڈیشن میں قارئین کی نظروں سے گزرے گی۔
اَپ سالا (Uppsala) میں ایک دوست عبدالقیوم بھی ہیں۔ یہ سویڈن کا ایک خوبصورت شہرہے اور دارالحکومت سٹاک ہوم سے جنوب کی جانب 70کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ ان کو میری تحریروں کے بارے میں بہت خوش گمانیاں ہیں۔ کئی بار طول طویل مدح سرائی کرکے ’شرمندگی‘ کا موقع دیتے ہیں۔ حال ہی میں ایک بھارت نژاد ہندو پروفیسر ڈاکٹر اشوک سوین (Ashok Swain) کا ایک انٹرویو اَپ سالا یونیورسٹی میں کسی مقامی صحافی نے کیا ہے جو انگریزی زبان میں ہے۔ پروفیسر صاحب کو شائد BJP سے کوئی ”چِڑ“ ہے پیدا تو وہ پوری (ضلع اڑیسہ) میں ہوئے لیکن ایک طویل عرصے سے سویڈن اپ سالا یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں اور یونیسکو (Unesco) کی طرف سے پیس اینڈ کانفلکٹ ریسرچ (Peace and Conflict Research)کی کرسی (Chair) سنبھال رکھی ہے۔ ان کے خیال میں لداخ مودی کا ”ڈراؤنا خواب“ بننے جا رہا ہے۔ اس انٹرویو کے بعض حصے انشاء اللہ اگلے کسی کالم میں عرض کروں گا…… فی الحال جناب عبدالقیوم کو ٹاسک کر دیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں مجھے مزید معلومات مہیا کریں۔