انسداد دہشتگردی عدالت نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ 22 ستمبر تک موخر کردیا

انسداد دہشتگردی عدالت نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ 22 ستمبر تک موخر ...
انسداد دہشتگردی عدالت نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ 22 ستمبر تک موخر کردیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کراچی (ڈیلی پاکستان آن لائن)انسداد دہشتگردی عدالت نے بلدیہ کیس کا فیصلہ 22 ستمبر تک موخر کردیا،کیس کا فیصلہ اب 22 ستمبر کو سنایا جائے گا۔

 نجی ٹی وی سما نیوز کے مطابق انسداد دہشتگردی عدالت (اے ٹی سی )میں سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کی سماعت ہوئی ،رحمان بھولا اور زبیر چریا کو جیل سے عدالت میں پیش کیا گیا،رﺅف صدیقی ، عمر حسن قادری ، ڈاکٹر عبدالستار سمیت دیگر ملزم عدالت میں پیش ہوئے جبکہ بلدیہ فیکٹری کیس میں حماد صدیقی اور علی حسن قادری اشتہاری ہیں ،اس موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے ،غیر متعلقہ افراد کا داخلہ بند کردیاگیا تھا۔
ملزمان علی حسن ،ادیب اور ڈاکٹرعبدالستار کی جانب سے فیصلہ موخر کرنے کی درخواست دائر کی گئی ،ملزمان نے مالکان سے 5 کروڑ روپے وصول کرنے سے متعلق اصل ریکارڈ پیش کرنے کی مہلت طلب کرتے ہوئے فنانس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اصل ریکارڈ پیش کردیا،درخواست میں کہاگیا ہے کہ مالکان سے معاملہ نمٹانے کیلئے 5 کروڑ روپے لینے کاالزام ہے ، فیکٹری مالکان کیساتھ کاروباری معاملہ تھا، بینک کے ذریعے یہ رقم ہمیں منتقل کی گئی تھی ،انسداد دہشتگردی عدالت نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ 22 ستمبر تک موخر کردیا۔
نجی ٹی وی ہم نیوز کے مطابق فیکٹری مالکان نے آتشزدگی کا ذمہ دار ایم کیو ایم کو قرار دیا تھا۔ فروری2017 میں ایم کیو ایم رہنما روف صدیقی، رحمان بھولا، زبیر چریا اور دیگر پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ کیس میں ملزمان کے خلاف 400عینی شاہدین اور دیگر نے اپنے بیان ریکارڈ کرائے ہیں۔
ایم کیوایم کارکن زبیر چریا اوردیگر ملزمان گرفتار ہیں جبکہ روف صدیقی نے ضمانت پر ہیں۔ گیارہ ستمبر2012 کو ہونے والے سانحہ بلدیہ ٹاﺅن میں259افراد جل کر ہلاک ہوگئے تھے ۔سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کی پیروی رینجرز پراسیکیوشن نے کی ہے۔ تین تفتیشی افسران تبدیل ہوچکے۔ 4 سیشن ججزنے سماعت سے معذرت کرلی تھی جبکہ 6 سرکاری وکلا نے دھمکیوں کے باعث مقدمہ چھوڑ دیا تھا۔کراچی میں بلدیہ ٹاو¿ن میں ٹیکسٹائل فیکٹری سانحہ کو آٹھ سال بیت گئے ہیں۔ اس اندوہناک واقعہ میں دو سو انسٹھ افراد زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔
واقعے کا مقدمہ پہلے سائٹ بی تھانے میں فیکٹری مالکان، سائٹ لمیٹڈ اور سرکاری اداروں کےخلاف درج کیا گیا، مختلف تحقیقاتی کمیٹیاں بھی بنیں اور جوڈیشل کمیشن بھی قائم کیا گیا لیکن کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جاسکا۔2014 میں فیکٹری مالکان ارشد بھائیلہ، شاہد بھائیلہ اورعبدالعزیزعدالتی اجازت کے بعد دبئی چلے گئے۔6 فروری 2015 کو رینجرز نے عدالت میں رپورٹ جمع کرائی کہ کلفٹن سے ناجائز اسلحہ کیس میں گرفتار ملزم رضوان قریشی نے انکشاف کیا ہے کہ فیکٹری میں آگ لگی نہیں بلکہ لگائی گئی تھی۔
آگ لگانےکی اہم وجہ فیکٹری مالکان سے مانگا گیا 20کروڑ روپے کا بھتہ تھا۔ ملزم کی جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق حماد صدیقی نے بھتہ نہ دینے پر رحمان عرف بھولا کو آگ لگانے کا حکم دیا جس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر آگ لگائی۔ 2015 میں ڈی آئی جی سلطان خواجہ کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنائی گئی جس نے دبئی میں جاکر فیکٹری مالکان سے تفتیش کی جنہوں نے اقرار کیا کہ ان سے بھتہ مانگا گیا تھا۔
 2016 میں جے آئی ٹی پر چالان ہوا۔ اسی سال دسمبر میں رحمان بھولا کو بینکاک سے گرفتارکیا گیا۔ کیس کا مقدمہ پہلے سٹی کورٹ میں چلا اور پھر سپریم کورٹ کی ہدایات پرکیس کو انسداد دہشتگردی میں چلایا گیا۔جنوری 2019کو کیس کے مرکزی ملزم عبدالرحمان بھولا اور زبیر چریا فیکٹری میں آگ لگانے کے بیان سے مکرگئے تھے۔ دوستمبر2020 کو گواہان کے بیانات اوروکلا کے دلائل مکمل ہونے پردہشت گردی کی خصوصی عدالت نے مقدمہ کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔