افغانستان اور عالمی برادری

 افغانستان اور عالمی برادری
 افغانستان اور عالمی برادری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد امریکی فوجیوں اور مختلف ممالک کے حکام اور اہلکاروں کو کابل سے نکال کر لانے اور انہیں بحفاظت ان کے وطنوں کی طرف رخصت کرنے کے نتیجے میں پاکستان کے لئے عالمی سطح پر ایک خیر سگالی کی فضا پیدا ہوئی ہے۔ متعلقہ تقریباً سبھی ممالک کی حکومتوں‘ وزرائے اعظم‘ وزرائے خارجہ اور دوسرے حکام حتیٰ کہ اقوام متحدہ کی جانب سے بھی اس معاملے میں پاکستان کے کردار کی تعریف کی جا رہی ہے اور حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک قابل ستائش کارنامہ ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کی مدد سے دنیا کے تقریباً 38 ممالک سے تعلق رکھنے والے کم و بیش 12 ہزار افراد کو افغانستان سے نکالا گیا اور دفترِ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی انخلا کے لیے فراہم کردہ سہولت کو عالمی رہنماؤں اور بین الاقوامی تنظیموں کے سربراہوں نے تسلیم کیا ہے۔ انگریزی زبان کے ایک موقر اخبار نے لکھا ہے کہ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سے پاکستان عالمی برادری کے ساتھ گہرے روابط قائم کیے ہوئے ہے اور دنیا کے متعدد عالمی رہنما وزیر اعظم عمران خان یا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے اس حوالے سے گفتگو کر چکے ہیں۔

وزیر خارجہ نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ دنیا افغانستان کے مشکل وقت میں پاکستان کے کردار کی معترف ہے۔ گزشتہ دنوں  ڈومینک راب نے پاکستان کا دور کیا اور وزیر خارجہ سمیت پاکستان کے اعلیٰ حکام کے ساتھ افغانستان میں پیدا ہونے والی صورتحال سمیت متعدد اہم امور پر تبادلہ خیالات کیا۔ علاوہ ازیں قطرکے امیر اور سعودی عرب اور ابوظہبی کے ولی عہدوں نے وزیر اعظم عمران خان سے رابطہ کیا ہے۔ وزیر اعظم نے مشرق وسطیٰ کے ان رہنماؤں سے کہا کہ پائیدار امن کا موقع مل رہا ہے‘ عالمی برادری افغان عوام کے ساتھ کھڑی ہو اور معاشی معاملات اور تعمیرِ نو میں ان کی مدد کرے۔ علاوہ ازیں پاکستان کی میزبانی میں اسلام آباد میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے خصوصی نمائندوں اور سفیروں کا ایک ورچوئل اجلاس ہوا‘ جس میں چین‘ ایران‘ تاجکستان‘ ترکمانستان اور ازبکستان کے نمائندے شریک ہوئے۔ اجلاس میں طے پایا کہ پُرامن افغانستان خطے کے لئے ضروری ہے۔ اجلاس میں شریک ممالک نے قریبی رابطے برقرار رکھنے پر بھی اتفاق کیا۔ اس موقع پر وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے انکشاف کیا کہ اس خطے میں ایک نیا بلاک بھی بن سکتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو اس میں ہم اہم کردار ادا کریں گے۔


یہ ساری تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ افغانستان کے حالات کے پیش نظر پوری دنیا میں ایک ہلچل سی مچی ہوئی ہے اور عالمی افق پر تبدیلی کے واضح آثارنظر آ رہے ہیں۔ اس صورتحال کو بنیاد بنا کر ہمیں بھی اپنے کچھ معاملات پر توجہ دے کر ان میں بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ بھارت کے خفیہ میڈیا اور پروپیگنڈا ہتھکنڈوں نے پاکستان کو کتنا نقصان پہنچایا ہے اور ہمارے ملک کی ساکھ کو کس قدر تباہ کیا ہے‘ تو افغانستان کی صورتحال کے تناظر میں پاکستان کے لیے جو گڈوِل (goodwill) پیدا ہوئی ہے‘ اسے عالمی برادری کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کے لئے استعمال کرنا کتنا سود مند ہو سکتا ہے۔ افغانستان کے اس سارے ایپی سوڈ میں ہم نے جس غیر جانب داری کا مظاہرہ کیا اور وہاں سے غیر ملکی لوگوں کو بحفاظت نکال لانے کے حوالے سے جو اقدامات کیے اس سے بین الاقوامی سطح پر یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار اور امن پسند ملک ہے۔ اس سلسلے کو اجاگر کرنے‘ آگے بڑھانے اور فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اس گُڈ وِل کو پاکستان کی برآمدات بڑھانے کے لئے بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ افغانستان کو خوراک اور دوسری اشیا کی ضرورت ہے۔ ایک زمانہ تھا جب پاکستان کی افغانستان کے ساتھ کافی تجارت ہوتی تھی‘ جو اب کم ہو چکی ہے۔ اسے پھر سے بڑھایا جا سکتا ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔


ایک اور فوری توجہ کا حامل معاملہ افغانستان میں خوراک اور طبی سامان کی قلت اور بڑے پیمانے پر معاشی تباہی کا خطرہ ہے۔ اقوام متحدہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ افغانستان میں غذائی اشیا کا ذخیرہ چند روز میں ختم ہو سکتا ہے جبکہ ملکی آبادی کا ایک تہائی حصہ غذائی قلت کا شکار ہے اور آبادی انسانی امداد کی محتاج بن گئی ہے۔ اگر افغانستان میں انسانی تباہی کو روکنا ہے تو امداد کا سلسلہ جاری رکھنا ہو گا۔ اگرچہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس (António Guterres) نے اس سلسلے میں پاکستان کے ساتھ رابطہ کیا ہے‘ لیکن خود خوراک کے بحران سے دوچار ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے بہت سے علاقوں میں جاری تنازعات، کووڈ19 کی عالمی وبا، انتہائی قسم کی ماحولیاتی تبدیلی، ٹڈیوں کا فصلوں کو تباہ و برباد کر دینا بھوک میں اضافے کی اہم وجوہات میں سے ہیں۔ افغانستان ایک جنگ زدہ ملک ہے۔ افغانوں کا ملک چالیس سال تک غیر ملکی فوجوں کے خلاف لڑتا رہا ہے اور پھر خانہ جنگیاں بھی وہاں کم نہیں ہوئیں‘ چنانچہ امن و امان کی صورتحال تو وہاں ممکن ہے جلد ٹھیک ہو جائے لیکن افغانستان کو خوراک میں خود کفیل بننے میں کافی عرصہ لگ سکتا ہے۔ اس لئے عالمی برادری کو افغان عوام کی خوراک اور ادویات کی ضروریات پر فوری توجہ دینا ہو گی تاکہ وہاں کوئی انسانی المیہ جنم نہ لے۔ 


ایک اور اہم معاملہ دہشت گردی ہے۔ طالبان نے تو وعدہ کیا اور یقین دلایا ہے کہ وہ تحریک طالبان پاکستان سمیت کسی بھی گروہ کو پاکستان اور کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے‘ لیکن اس خدشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جب تک عبوری دور ختم نہیں ہو جاتا اور طالبان افغانستان میں کوئی مشترکہ یا متحدہ حکومت نہیں بنا لیتے تب تک دہشت گرد گروپوں کی جانب سے کوئی شرارت کی جا سکتی ہے اس لیے ان ممالک کو زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے جن کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ ملتی ہیں۔ 

مزید :

رائے -کالم -