یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان؟؟؟

 یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان؟؟؟
 یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان؟؟؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مصورِ پاکستان حضرت علامہ محمد اقبال ؒ نے اپنی کتاب ضرب کلیم میں ”مرد مسلمان“ کی تعریف کچھ ان الفاظ میں کی ہے۔”ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن۔ گُفتار میں کردار میں اللہ کی بُرہان۔ قہاری و غفاری و قدوسی و جبُروت۔ یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان“
انہوں نے مندرجہ بالا اشعار میں مردمسلمان کی بنیادی خصوصیات کا خلاصہ بیان کر دیا ہے۔ گفتار یعنی بات چیت، کردار کے معنی عمل کے ہیں جبکہ بُرہان سے مُراد دلیل و ثبوت وغیرہ ہیں۔ مومن کی یہ صفات ہیں کہ وہ ہر لمحہ ایک نئی شان، ایک نئے شکوہ اور ایک نئے اکرام کی صورت میں ہوتا ہے۔ وہ ایک جامد شے کی طرح منجمد نہیں ہوتا بلکہ ہر لمحہ ایک نئی شان کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔ اس کی گفتگو سُنیں یا اس کا عمل دیکھیں تودونوں چیزیں اللہ تعالی کی حجت، دلیل اور نشانی ہوتی ہیں، اسی طرح قہاری لفظ قہر سے نکلا ہے جس میں ایک ہیبت اور قوت ہواس سے دشمن لرز اٹھے اس کے ساتھ ساتھ مرد مسلمان کا غفاری ہونا بھی ضروری ہے جو لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور رحم کے ساتھ پیش آئے اور ان کی خطاؤں کو در گزر کرے حتی کہ جب وہ دشمن پر غلبہ پا لیتا ہے تو بھی اسے معاف کر دیتا ہے، قدوسی کا مطلب پاکیزگی اور جبروت سے مُراد عظمت و دبدبہ ہے  یعنی مرد مسلمان کی سیرت، عمل، گفتار اور حرکات و سکنات میں پاکیزگی ہوتی ہے۔ یہی وہ چار اجزائے ترکیبی ہیں جو ایک انسان میں یکجا ہو جائیں تو وہ مرد مسلمان کہلاتا ہے، حضرت اقبالؒ کے مطابق ایک شخص ایمان تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر لا سکتا ہے لیکن عملا وہ مسلمان اور مومن اس وقت بنتا ہے جب اس میں مذکورہ بالا چار عناصر جمع ہوں۔


تاہم پاکستانی سیاست میں ”مذہب کارڈ“کھیلنے والوں کے ہاں معاملہ بالکل مختلف ہے، پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان ان دنوں ایک بار پھر اس واردات میں پیش پیش ہیں جن کی گُفتار اور کردارتو مرد مسلمان کی بیان کردہ خصوصیات والا نہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے مذہب کو جنس بازار بنا کر اپنی ”ہٹی“ میں سجا لیا ہے۔ویسے تو مرد مسلمان والی چاروں خصوصیات کی معراج حاصل کرنا اتنا آسان کام بھی نہیں لیکن بندہ کم از کم بنیادی اخلاقی قدروں کو اپنانے کی کوشش تو کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اپنی ہی کہی ہوئی بات سے پھر جانا یاکہہ کر مُکر جانا کسی بھی مذہب یا معاشرے میں ایک نا پسندیدہ عمل ہے تاہم عمران خان کی پوری سیاست ہی ”یو ٹرن“ پر مبنی ہے جنہوں نے اپنی بات سے پھر جانا اپنا معمول بنا لیا ہے اب انہوں نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر ایک مرتبہ پھر یو ٹرن لے لیا ہے جنہیں مسلسل کئی ماہ تک پاکستان میں رجیم چینج کے میر جعفر، لوکل ہینڈلر اور نیوٹرلز وغیرہ کے القابات سے نوازا جاتا رہا جو بذات خود پرلے درجے کی بد اخلاقی تھی۔ علاوہ ازیں تقاریر اور گفتگو میں اوئے ڈیزل، اوئے مونچھل، اوئے فلانے جیسے تھڑے باز سٹائل متعارف کروائے، جن کے پیچھے لگ کر ملک کے نوجوانوں میں بھی ایک طوفان بد تمیزی پیدا ہوا اور سیاست نے غلاظت کی ایک نئی جہت اختیار کی۔تازہ ترین تقاریر میں عمران خان آئی جی، ڈی آئی جی شرم کرو اور خاتون جج زیبا چودھری آپ کے خلاف ہم ایکشن لیں گے جیسے الفاظ پر عدالت میں پیشیاں بھگت رہے ہیں جبکہ عدالت کے استفسار پر انہوں نے اقرار بھی کر لیا ہے کہ ہاں انہوں نے یہ الفاظ کہے ہیں لہٰذا یہاں بھی گفتار اور کردار میں اللہ کی برہان نظر نہیں آتی۔


تازہ صورت حال یہ ہے کہ ریاست مدینہ اور تسبیح سے شروع ہونیوالی بات بڑھتے بڑھتے تھرکتے ہوئے میوزیکل جلسوں میں پہنچ چکی ہے جہاں رسول اکرمﷺ کی حیات طیبہ کے مختلف پہلوؤں کے تذکرے کے بغیر اب بات مکمل نہیں ہوتی۔مذہبی اجتماع اور سیاسی اجتماع میں بہت فرق ہے اور ہمارے ہاں اصل بگاڑ ہی یہی پیدا ہوا ہے کہ عالم دین سیاست کر رہے ہیں جبکہ سیاستدان جنہیں دین کی الف ب نہیں پتہ وہ ”مذہب کارڈ“ کھیل رہے ہیں جو کہ انتہائی حساس معاملہ ہے اور جہاں ایک زیر یا زبر کی غلطی سے بات شرک اور کفر تک پہنچ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب زدہ عمران خان کی زبان پر عربی کے الفاظ بھی بمشکل چڑھتے ہیں اور انہیں کئی بار ”سلپ آف ٹنگ“ کا سامنا ہوا ہے، مذہب کے معاملے میں زبان کی یہ ”پھسلن“انہیں کسی وقت مہنگی بھی پڑ سکتی ہے، لہٰذا انہیں مذہب کے حساس معاملے پر احتیاط برتنی چاہیے۔
 گُفتار اور کردار کی عدم موجودگی میں قومی رہنماء کا تمام تر انحصار سوشل میڈیا کے ”کوچہ ئ رنگ و بُو“ پر ہے جہاں مقبولیت حاصل کرنے کے لئے نت نئے ”سٹنٹ“ کھیلے جا رہے ہیں۔ یو ٹیوب، فیس بک، ٹک ٹاک وغیرہ نے نئی نسل سے بڑے ”سٹار“ پیدا کئے ہیں جنہوں نے ان پلیٹ فارمز کا سہارا لے کر دولت اور شہرت حاصل کی تاہم عمران خان ان میں سب سے زیادہ کامیاب ”سوشل میڈیا الفلوئنسر“ ہیں جنہوں نے ان پلیٹ فارمز کا بھرپور استعمال کر کے وزارتِ عظمیٰ تک حاصل کر لی۔ حال ہی میں انہوں نے ایک ٹرک ہوٹل پر بیٹھ کر کھانا کھانے کا ”سٹنٹ“ کھیلا ہے جس کی ویڈیو وائرل کی گئی، حالانکہ ”مذہب کارڈ“ کی طرح ”عوام میں گھل مل گئے“ کا سٹنٹ بھی بہت پرانا ہے۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹونے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران اسی طرح ایک چھپر ہوٹل سے کھانا کھایا تھا، وہ بذریعہ سڑک غالباً ملتان جا رہے تھے تو ساہیوال کے قریب سڑک کے کنارے ایک بڑھیا کا ساگ اور مکئی کی روٹی کا ڈھابہ تھا جسے دیکھ کر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے وہیں گاڑی رکوا کرتناول ماحضر فرمایا۔ وزیراعظم کے سیکورٹی سکواڈ کی درجنوں گاڑیاں بھی اس دوران سڑک پر رکی رہیں، تاہم اس واقع کے کئی برس بعد کسی واقف حال نے اپنی کتاب میں لکھا کہ وہ ڈھابہ طے شدہ پلان کے مطابق وہاں عارضی طور پر لگوایا گیا تھا،وہ بڑھیا کسی سرکاری ادارے کی ملازم تھی اوراس کا کھانا باقاعدہ لیبارٹری سے تصدیق شدہ تھا لیکن یہ ”سٹنٹ“ کھیلنے کی ضرورت صرف اس لئے پیش آئی تا کہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ بھٹو ایک عوامی لیڈر ہیں اور عوام میں ”گھُل مل“ جاتے ہیں۔سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو ”انفلوئنس“ کرنے کی موجودہ وارداتوں کے بعد یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ۔”فیس بُک، ٹویٹر، یو ٹیوب، انسٹا گرام، یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے عمران خان“۔

مزید :

رائے -کالم -