جشن عید میلاد النبی ؐ

جشن عید میلاد النبی ؐ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آج 12 ربیع الاول ہے، عیدمیلادالنبیؐ ہے، جگہ جگہ جلوس نکالے جارہے ہیں، درود و سلام کی محفلیں سجی ہوئی ہیں، عاشقان رسولؐ مختلف طریقوں سے نبی آخر الزمانؐ سے اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کررہے ہیں۔ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ سنت نبویؐ کو اپنائے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارے۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے جہالت کے اندھیرے کو ختم کیا، ظلم و ناانصافی کے خلاف کھڑے ہونے کا درس دیا، انصاف کا بول بالا کیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے میں امن اور رواداری قائم کرنے کا پیغام دیا اورعلم کے فروغ پر زور دیا جبکہ عورتوں کی عزت و تکریم کو فرض قرار دیا،غرض حضور اکرمؐ نے دنیا کو مثالی، سماجی اور معاشی نظام دیا جو یقیناً سب کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ 

روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ جب 12 ربیع الاول کو رسول پاکؐ کی ولادت ہوئی توستاروں کی چمک اور آسمان کا رنگ نرالا ہی تھا،اُنؐ کی ولادت کے وقت کمرہ نور اور خوشبو سے بھر گیا، اُنؐ کے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ کا راج تھا۔جب ابو طالب کے ساتھ پہلی مرتبہ شام جانے والے قافلے کے ہمراہ گئے تو بادل کے ایک ٹکڑے نے پوری قافلے کو ہی اپنے سایے میں لے لیا، جو لوگ تجارت کی غرض سے قافلے کے ساتھ گئے تھے اُن سب نے نفع کمایا،کسی کو بھی نقصان نہیں ہوا۔وہ ”اُمّی“ تھے،پہلا لفظ انہیں حضرت جبرائیل نے پڑھایا اور قرآن کا پڑھایا۔وہ صادق و امین تھے، مخالف بھی اپنی امانتیں اُنؐ کے پاس رکھوانے سے نہیں ہچکچاتے تھے۔وہ خاتم النبین تھے، آخری نبیؐ تھے، اُنؐ کی حیات سراپا اسلام تھی۔

وہ ہمارے نبیؐ تھے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہم اُنؐ کی سُنت پر عمل پیرا ہیں، اسلام کے اصولوں کو تھامے ہوئے ہیں، اُنؐ کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں۔ اِن سوالات کا جواب ڈھونڈنے کے لئے اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکھیں تو جواب مل جائے گا، چاہے ہمارا دل و دماغ اِسے مانے یا نہ مانے۔ گزشتہ کئی سال سے پاکستان میں ریاست مدینہ قائم کرنے کا نعرہ بلند کیا جا رہا تھا، بار بار اِس ملک کو مدینہ کی مانند بنائے جانے کی بات کی جاتی رہی لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ صرف باتیں کرنے سے ریاست مدینہ عمل میں نہیں آ سکتی، اِس کے لئے عمل اور خلوصِ نیت کی بھی ضرورت ہے۔ریاستِ مدینہ میں تو سب برابر تھے، کوئی کسی سے برتر نہیں تھا، کسی عربی کو عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی گورے کو کالے پر یا کسی کالے کو گورے پر کسی قسم کی فوقیت حاصل نہیں تھی، ہر کوئی جواب دینے اور احتساب کا پابند تھا، کوئی بھی کسی سے سوال کر سکتا تھا، خلیفہ اپنے آپ کو عوام کے خادم تصور کرتے تھے، اپنے لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے دن رات کام کرتے تھے، وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ اگر اُن کی رعایا میں کوئی بھی ایک شخص بھوکا سویا، کسی کے ساتھ بھی ظلم و زیادتی ہوئی، نا انصافی ہوئی تو آخرت میں اُس کا حساب لیا جائے گا لیکن آج ایسا نہیں ہے، جن کے پاس طاقت ہے وہ دوسرے کو انسان ہی نہیں سمجھتے، انصاف خریدا جاتا ہے، یوں معلوم ہوتا ہے جیسے جس کی لاٹھی اُسی کی بھینس کا قانون رائج ہے، غریب انسان کی کوئی عزت ہے نہ سنوائی، عام شہری کو جائز کام کرانے کے لئے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑتا ہے، بے ایمانی،بدعنوانی عام ہے، ناپ تول میں کمی تو کوئی بڑی بات ہی نہیں ہے، ملاوٹ کے بغیر کسی چیز کا ملنا ناممکن معلوم ہوتا ہے، بے حیائی ہر طرف نظر آتی ہے، ایسے بہت سے کام ہو رہے ہیں جن کا اسلام میں دور دور تک کوئی تصور نہیں ہے بلکہ یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو کہ  یہاں تو تقریباً ہر وہ کام ہو رہا ہے جن کی وجہ سے دوسری قوموں پر عذاب نازل ہوئے لیکن ہمیں تو شاید اُمتِ محمدیؐ ہونے کا ثمر حاصل ہو رہاہے ہم اِسی کا فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ نبی کریم ؐ نے بہتان لگانے اور الزام تراشی سے منع فرمایا ہے لیکن یہاں ہر وقت ہی ایک دوسرے پر الزام لگائے جاتے ہیں، بہتان باندھے جاتے ہیں، جھوٹی سچی خبریں بغیر کسی تحقیق کے پھیلا کر کسی کی بھی عزت مٹی میں ملا دی جاتی ہے۔ یہ وہ روئیے ہیں جو اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہیں لیکن کسی کو اِس بات کا احساس ہی نہیں ہے،رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کر دی ہے، جہاں جھوٹ کا بازار گرم ہے لیکن افسوس ہے کہ وہی پسند کیا جا رہا ہے۔ اپنے ملک سے نکل کر اگر دنیا پر نظر دوڑائیں تو مسلم ممالک بھی متحد نظر نہیں آتے جس کا فائدہ اسلام مخالف قوتیں اٹھا رہی ہیں۔ اسرائیل نے فلسطین میں ظلم و بربریت کی ساری حدیں پار کر لی ہیں، غزہ کو کھنڈر بنا دیا ہے، فلسطینیوں کی نسل کشی جاری ہے، جس طرح اسرائیل نے فلسطین میں سکول، ہسپتالوں اور مسجدوں کو نشانہ بنایا ہے اُس کی مہذب تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔کشمیر کے مسلمان بھارتی تسلط کا شکار ہیں، انہیں آزادی کی فضا میں سانس لینے کا حق نہیں ہے، کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی انسانی جیل قرار دیا جاتا ہے لیکن کوئی کچھ نہیں کر پا رہا ہے۔اِس وقت مسلمان ممالک کو متحد ہونے کی ضرورت ہے، مسلم امہ کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوانے کی ضرورت ہے اور اِسے  نبی کریمؐ  کی تعلیمات سے سبق سیکھ کر ہی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ تبدیلی کے خواب تو دیکھے جاتے ہیں اور دکھائے بھی جاتے ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ اِسے حقیقت بنانے کے لئے اپنی زندگیوں کو حضور اکرمؐ کی سیرت طیبہ کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے، وہی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے جو خاتم النبینؐ کی زندگی کا محور تھی، اِس کے بغیر ملکی یا عالمی سطح پر تبدیلی کی اُمید کرنا عبث ہے۔عید میلادالنبیؐ کے موقع پر چراغاں کیا جاتا ہے، سجاوٹ کی جاتی ہے، پہاڑیاں بنائی جاتی ہیں لیکن دراصل اِس موقع پر اپنے اندر اُنؐ کی تعلیمات کا نُور پیدا کرنے پر غور کرنا چاہئے۔ 

مزید :

رائے -اداریہ -