حضرت محمدﷺ کی ولادت با سعادت مکہ میں شعب بنی ہاشم کے اندر مورخہ 22۔اپریل 571ء بمطابق 9 یا 12 ربیع الاول سن ایک عام الفیل دوشنبہ (پیر) کے روز ہوئی۔ ابن سعدکی روایت کے مطابق حضور ﷺ کی والدہ محترمہ حضرت آمنہؓ آپ کی پیدائش کے متعلق فرماتی ہیں:”جب آپﷺ کی ولادت ہوئی تو میرے جسم سے ایک نور نکلا،جس سے ملک شام کے محل روشن ہو گئے“۔ بیہقی کی روایت کے مطابق: ”حضور ﷺ کی ولادت کے دن ایون کسرٰی کے چودہ کنگورے گر گئے۔مجوس کا آتش کدہ ٹھنڈا پڑ گیا،بحیرہ سادہ خشک ہو گیا اور اس کے گرجے منہدم ہو گئے“مورخہ21۔رمضان بمطابق 10۔اگست سن 610 ء کو آپ ﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ ﷺ کو منصب نبوت سے سرفراز کیا گیا۔نبوت کے پہلے 12 سال کا عرصہ آپ ﷺنے بڑے ہی مشکل حالات میں مکہ میں ہی گزارا۔سیرت ابن ہشام کے مطابق بالآخر آپﷺ نے اللہ کے حکم سے 27 صفر بمطابق 12 یا 13۔ستمبر 622ء کومکہ کو خیر باد کہا اور ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے اور ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی۔مدینہ میں ہی آپﷺ کو اللہ کی طرف سے ظالموں کے خلاف جنگ کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ تو پھر مسلمانوں کی غزوات اور سرویا کی صورت میں عسکری مہمات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
نبی ﷺکے غزوات، سرویااور فوجی مہمات پر ایک نظرڈالنے کے بعدکوئی بھی شخص جو جنگ کے ماحول، پس منظرو پیش منظراور آثار و نتائج کا علم رکھتا ہو یہ اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ کہ حضورﷺ دنیا کے سب سے عظیم اور باکمال فوجی کمانڈر تھے۔آپ ﷺ جس طرح نبوت و رسالت کے اوصاف میں سید المرسل اور اعظم الانبیاء تھے، اسی طرح فوجی قیادت کے وصف سے بھی آپ یگانہ روزگار تھے،کسی بھی معرکے میں حکمت عملی، لشکر کی ترتیب اور حساس مراکز پر اس کی تعیناتی، موزوں ترین مقام جنگ کے انتخاب اور جنگی پلاننگ وغیرہ میں آپ ﷺسے کبھی چوک نہیں ہوئی۔احد اور حنین میں جو کچھ پیش آیا اس کا سبب رسول اللہﷺ کی کسی حکمت عملی کی خامی نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے حنین میں لشکر کے کچھ افراد کی بعض کمزوریاں کار فرما تھیں اور احد میں آپﷺ کی نہایت اہم حکمت عملی اور لازمی ہدایات کو نہایت فیصلہ کن لمحات میں نظر انداز کر دیا گیا تھا۔
سیرت نبوی کی کتاب ”الرحیق المختوم“ کے مطابق حضور رﷺ نے ہجرت مدینہ کے بعد صرف سات سال کے قلیل عرصے میں کم و بیش 27 غزوات میں بنفس نفیس حصہ لیا اور تقریبا 35 سرویا بھیجے، جن میں نامور صحابہ کرام ؓکو امیرلشکرمقرر فرمایا۔ یعنی ہجرت کے بعد رسول اللہ ﷺ ایک دن بھی سکون سے نہیں بیٹھے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے کل کے مہاجرین اسلام کی برکت سے ایک مضبوط اور وسیع اسلامی ریاست کے حکمران بن گئے۔ اب ہم ایک نظر حضوررﷺ کی بطور سپہ سالار جنگی حکمت عملی پر ڈالتے ہیں۔سر دست اس بحث کو ابتدائی دو غزوات تک محدود رکھتے ہیں،غزوہ بدر میں جو 17۔ رمضان المبارک سن 2 ہجری میں لڑا گیا،اس میں مسلمانوں کی تعداد 313 اور کفار کی 1000 تھی۔ آپ ﷺ نے خود مسلمانوں کی صفیں درست کیں۔انھیں حکم دیا:” میرے حکم کے بغیر جنگ نہ شروع کی جائے، جب جنگ شروع ہو جائے تو جب تک مشرکین قریب نہ آ جائیں تیر نہ چلائیں، اپنے تیر بچا کر رکھیں، اس وقت تک تلوار نہ چلائی جائے جب تک دشمن تم پر چھا نہ جائے“۔جب کفار کو شکست فاش ہوئی اوروہ موقع سے دم دبا کر بھاگ گئے تو آؐپ جنگی حکمت عملی کے تحت تین دن تک وہاں ہی رکے رہے۔ فتح کے باوجود مدینہ کا رخ نہیں کیا۔
غزوہ احد میں خاتم الانبیاء ﷺ1000 مجاہدین کا قافلہ لے کر مدینہ سے چلے، راستے میں عبداللہ بن ابی منافق اسلامی لشکر میں مایوسی پھیلانے کی غرض سے اپنے 300 افراد کو لے کر لشکر سے علیٰحدہ ہو گیا۔ لیکن حضور ﷺ نے ایک منجھے ہوئے جرنیل کی طرح لشکر میں مایوسی نہ پھیلنے دی،سفر جہاد جاری رکھا، کفار کی تعداد3000 تھی، وہ اپنی 1500 عورتیں بھی ساتھ لے کر آئے تھے۔حضورﷺ نے جنگی حکمت عملی کے تحت بلند جگہ کا انتخاب فرمایا،دشمن کو نشیبی مقام پر رکنے پر مجبور کیا۔ اسلامی لشکر کو اس طرح ترتیب دیا کہ پیچھے پہاڑ، درمیان میں دشمن اور سامنے مدینہ تھا،جو مقام دفاعی لحاظ سے کمزور تھا وہاں پر 50 تیر اندازوں کو کھڑا کر کے انھیں حکم دیا کہ وہ کسی بھی صورت میں اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔ اسلامی لشکر کو حکم دیا:”جب تک میں نہ کہوں، جنگ شروع نہ کی جائے“۔آپﷺنے دو زرہیں پہن رکھی تھیں، مسلمانوں میں جذبہ جہاد ابھارنے کے لیے ایک تیز دھار تلوار میان سے نکالی اور پوچھا:”اس کا حق کون ادا کرے گا“؟ صحابہؓ نے پوچھا:”اس کا حق کیا ہے“؟ آپ ﷺ نے فرمایا:”اس کا حق یہ ہے کہ اسے دشمن کے چہرے کو اتنا مارو کہ یہ ٹیڑھی ہو جائے“۔ حضرت ابو دجانہ ؓ آگے بڑھے، تلوار تھامی، مشرکین کی صفوں میں گھس کر تلوار کا حق ادا کر دیا۔جب تیر اندازوں نے حضور ﷺ کے حکم کے برعکس اپنی جگہ چھوڑ دی۔ خالد بن ولید اپنے دستے کے ساتھ حضورﷺ پر حملہ آور ہوئے،توآپ ﷺ نے ایک بے مثل شجاعت کا مظاہرہ کیا، موقع پر ڈٹے رہے، بھاگے نہیں، حتیٰ کہ صحابہ ؓ کو بلند آواز سے پکارا۔ بزدلوں کی طرح اپنے آپ کو چھپایا بھی نہیں۔حضور ﷺ کے ساتھ صرف نو مجاہدین تھے، سات شہید ہو گئے۔ صرف دو باقی بچے، آپ پھر بھی نہیں گھبرائے، دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے اسلامی کیمپ کی طرف نکل گئے۔دشمن اسے اپنی فتح سمجھتے ہوئے مکہ کی طرف روانہ ہو گیا، لیکن حضور ﷺ نے ایک کہنہ مشق جرنیل کی طرح حضرت علیؓ کوان کے تعاقب میں روانہ کیا، پھر احد کے دوسرے دن خود ایک دستہ لے کر قریش کے تعاقب میں نکلے اور حمرا ء الاسد تک گئے، وہاں تین دن قیام کرکے مدینہ واپس آئے۔
رسول اللہ ﷺ نے دنیا کے دیگر سپہ سالاروں کے برعکس جنگ کے لیے شریفانہ قواعد و ضوابط بھی مقرر فرمائے۔مسلم شریف میں حضرت سلمان بن بریدہ ؓکا بیا ن ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی صحابی ؓ کو کسی لشکر یا سرویہ کا امیر مقرر فرماتے تو اسے فرماتے:”اللہ کے نام سے اللہ کی راہ میں غزوہ کرنا، خیانت نہ کرنا، بدعہدی نہ کرنا، ناک کان وغیرہ نہ کاٹنا اور کسی بچے کو قتل نہ کرنا“۔ آپ ﷺ نے کسی کو آگ میں جلانے، باندھ کر قتل کرنے، عورتوں کو مارنے اور انھیں قتل کرنے، لوٹ مار کرنے، کھیتی باڑی کو تباہ کرنے، جانور ہلاک کرنے، درخت کاٹنے سے بھی منع فرمایا۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ نے یہ بھی فرمایا:”کسی زخمی پر حملہ نہ کرنا، کسی بھاگنے والے کا پیچھا نہ کرنا، کسی قیدی کو قتل نہ کرنا“۔ آؐپ نے یہ سنت بھی جاری فرمائی کہ سفیروں اورمعاہدین کو قتل نہ کیا جائے، اس طرح کے بلند پایہ قواعد و ضوابط کی بدولت جنگ کا عمل جہالت کی گندگیوں سے نکل کر مقدس جہاد میں تبدیل ہو گیا۔
دنیا کی عسکری تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں ایک بھی سپہ سالار ایسا نہیں نظر آتا جو حضور ﷺ جتنا مستعد، ذہین، محنتی، شجاع،دلیر،بروقت فیصلے کرنے والا اور سخت جان ہو۔ جنگ کے جو قواعد و ضوابط ٓپ ﷺ نے مقرر فرمائے، تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصرہے۔ امام الانبیاء ﷺ اور ان کے پیروکاروں نے ہمیشہ اپنے مفتوحہ علاقوں میں لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا۔دنیاوی جرنیل تو جہاں سے بھی گزرے اپنے مخالفین کی نسلیں تک ختم کرتے چلے گئے۔آج کی نام نہاد مہذب دنیا کے ٹھیکیداروں نے 1945 میں جاپان کے ساتھ کیا سلوک کیاوہ سب کے سامنے ہے؟ دو بڑی سپر پاورزنے باری باری افغانستان پر قبضہ کرنے کے لیے ظلم وبربریت کی وہ انتہا کی کہ ہلاکوخان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ایک سپر پاورنے عراق، شام اور مصر میں جو کچھ کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں گذشتہ ستتر برسوں سے جو ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے، وہ کسی کی آنکھوں سے اوجھل نہیں، اسرائیل نہتے فلسطینیوں کی جو نسل کشی کر رہا ہے اس پر نام نہاد مہذب دنیا نے اپنی آنکھیں موند لی ہوئی ہیں اور پھر بھی اپنے آپ کو مہذب کہتی ہے۔