سی ایم پنجاب کر کے تو دیکھیں!
لاہور میں رہنا نہیں بسنا پڑتا ہے اور پھر لاہور آپ کے دل میں بس جاتا ہے اور ایسا بستا ہے کہ پھر کوئی اور اس دل میں بس نہیں سکتا۔
مشہور افسانہ نگار کرشن چندر نے لکھا کہ لاہور آدمی کو بوڑھا نہیں ہونے دیتا۔
سید احمد شاہ پطرس بخاری کا شمار بھی لاہور کے سچے عاشقوں میں ہوتا تھا۔وہ کہتے تھے، لاہور کے کاٹے کا علاج نہیں ہے۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ لاہور ایک کیف و مستی کا نام ہے، ایک نشہ ہے جو طاری ہوجائے تو اترنے کا نام نہیں لیتا، پیدا ہونے کے لئے لاہور کے درشن کرنا بھی ضروری ہیں۔
خاکسار بھی اپنے آبائی شہر رحیم یار خان سے سن 2001 میں لاہور آیا اور پھر لاہور کا ہی ہو کر رہ گیا ہے۔آج 23 سال کے بعد فرق یہ پڑا ہے،لاہور باغوں کا شہر نہیں رہا ہے،درختوں کے قتل عام نے لاہور کو گنجا کر دیا ہے۔لاہور کے اردگرد ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کے ہنگام نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے،لاہور میں جب بھی سخت گرمی پڑتی، چار دن بعد بارش ہو جاتی، موسم اچھا ہو جاتا تھا لیکن اب وہ سلسلہ نہیں رہا ہے صرف ساون اور مون سون کے موسم میں ہی لاہور کے کچھ علاقوں میں بارش ہوتی ہے اور کچھ علاقوں میں بارش کا ایک قطرہ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔
ماہرین اس کا سبب شہر لاہور میں بڑھتی ماحولیاتی آلودگی کو قرار دیتے ہیں،ہر سال دسمبر، جنوری کے مہینوں میں لاہور میں سموگ کی وجہ سے سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے، انتہائی برا ائیر کوالٹی انڈکس لاہور کو دنیا کے آلودہ شہروں میں پہلے نمبر پر لے آتا ہے۔سموگ کی بگڑتی صورتحال پر سنئیر وزیر مریم اورنگزیب اور دبنگ سیکریٹری ٹرانسپورٹ ڈاکٹر احمد جاوید قاضی کافی ایکٹو نظر آ رہے ہیں۔محکمہ کی طرف سے عوام کے لئے جلد بیرون ملک سے ماحول دوست بسوں کی آمد متوقع ہے۔دھواں چھوڑتی گاڑیوں کو پہلی بار دو ہزار پھر ہر بار چار ہزار جرمانے کے علاوہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں، اوورلوڈنگ اور زائد کرایہ لینے والوں کی نشاندہی کے لئے موبائل نمبر بھی عوام الناس کو دیا گیا ہے،بڑی خوش آئند بات ہے کہ متعلقہ ادارے سردی آنے سے پہلے سموگ کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں۔
خاکسار نے سموگ کے وار سے بچنے کے لئے اعلی حکام کو مخلصانہ مشورہ دیا تھا کہ شہر لاہور میں اودھم مچانے والے مکڑا نما لوڈر اور بنا فلٹر کے چلنے والی چنگ چی کو بند کر کے دیکھیں،فرق صاف ظاہر ہو جائے گا لیکن ایسا ابھی تک ہو نہیں سکا ہے،معلوم نہیں،کونسا نظریہ ضرورت آڑے آ جاتا ہے۔
میری ناقص رائے میں شہر لاہور کی نہ ختم ہونے والی اس نگوڑی آلودگی کو بڑھانے میں بے ہنگم ٹریفک بالخصوص شیطانی سواری موٹرسائیکل کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ہر گھر میں تین سے چار موٹرسائیکل ضرور ہیں،رجسٹرڈ موٹرسائیکلوں کی تعداد 42 لاکھ سے زائد ہے،باقی وہیکلز ملا کر یہ تعداد 62 لاکھ کے ہندسے کو عبور کر چکی ہے،اتنی تعداد میں لاہور شہر کی سڑکوں پر چلنے والی ٹریفک کو کنٹرول کرنا واقعی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
انرجیٹک سی ٹی او لاہور عمارہ اطہر گاہے بگاہے مساجد، سکول، کالجز اور یونیورسٹیوں میں ٹریفک بارے آگاہی مہم چلاتی رہتی ہیں،بدقسمتی سے تمام تر ہیلتھ ایجوکیشن کے بعد بھی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی میں لاہوری سب سے آگے ہیں۔
خیر سے ہیلمٹ پہننے سے لاہوریوں کا سانس بند ہوتا ہے،ہیلمٹ یا تو موٹرسائیکل تیل کی ٹنکی پر رکھا ہو گا یا ہیلمٹ ہاتھ میں لٹکایا ہو گا اور بمعہ فیملی سڑک کے عین وسط میں 100 سے زائد سپیڈ پر موبائل فون دیکھتے ہوئے موٹرسائیکل چلانا لاہوری باشندوں کا شوق عظیم ہے۔
خاکسار جب بھی میڈیا گروپس میں 1122 کی ٹریفک رپورٹ پر نظر دوڑاتا ہے۔روزانہ شہر میں ہونے والے گیارہ سو حادثات میں ساڑھے نو سو حادثات موٹرسائیکل کے ہوتے ہیں۔نتیجے میں، بازو، ٹانگ ٹوٹنے اور ہیڈانجری کا ہونا معمول ہے۔
خاکسار ان موٹرسائیکل سواروں کو انتہائی بائیں لین میں بندے کے پتروں کی طرح موٹرسائیکل چلانے کے لئے ایک عدد ڈنڈا بردار فورس بنانے کی تجویز بھی پیش کر چکا ہے جو ان من چلوں کو والد محترم کے ہمراہ فوری گرفتار کرنے کے ساتھ ساتھ موٹرسائیکل بند کرنے کا سنہری کام سر انجام دیں۔
اس ناچیز نے ارباب اختیار کو یہ بھی لکھا کہ شہر لاہور میں چوک چوراہوں، یوٹرنز پر کھڑے چنگ چی رکشوں، مزدوں، فروٹ و کھوتی ریڑھیوں کو پانچ سو فٹ دور کھڑا کر کے ٹریفک کی روانی کو بہتر کیا جا سکتا ہے،اسی طرح ایک سروے کے ذریعے جہاں جہاں ٹریفک کا لوڈ زیادہ ہے، وہاں نئے انڈر پاسز یا اوورہیڈ برج بنانے کے لئے دیر نہ کی جائے جیسے سابق نگران وزیر اعلی محسن نقوی نے شاہدرہ سے بابو صابو تک ایلیویٹڈ ایکسپریس کوریڈور بنا کر لاہور سے جانے اور آنے والوں کی زندگی آسان کر دی ہے لیکن کیا ہی اچھا ہوتا، موجودہ پنجاب حکومت لوئر مال روڈ سے سی ٹی او آفس، اینمل سائنسز یونیورسٹی سڑک کے دونوں اطراف ٹریفک کے رش اور آؤٹ فال روڈ پر کارپوریشن چوک میں چاروں طرف سے آنے والی ٹریفک کے اژدہام کو کنٹرول کرنے کے لئے انڈرپاس بنا کر لاہوریوں کا یہ گلہ بھی اتار دے کہ صرف پوش علاقوں میں ہی انڈرپاس بنائے جاتے ہیں۔
بات سموگ کی چل رہی تو سموگ کے آسیب سے جان چھڑانے کے لئے اس نسخہ کیمیاء پر عمل کیا جائے تو جادوائی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
لاہور کے ٹیچنگ اسپتالوں میں پارکنگ پلازے تعمیر کئے جائیں۔شاہ عالم مارکیٹ، لوہاری،پرانی انار کلی، سول سیکرٹریٹ سے ملحقہ کچہری سمیت تجاوزات کے تمام گڑھ ختم کرنے میں کسی بھی قسم کا دباؤ خاطر میں نہ لایا جائے کیونکہ بدبخت تجاوزات کیوجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے جو سموگ کا باعث بنتی ہے اور لگے ہاتھوں لاہور کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کا پیچ ورک فوری مکمل کرنے کے احکامات صادر فرمائے جائیں۔
یہ کام پنجاب کی تقدیر بدلنے کی خواہاں محترمہ مریم نواز اور انکی سپر ٹیم کے لئے قطعی طور پر ناممکن یا مشکل نہیں ہے۔
ایک بار ایسا کر کے تو دیکھیں۔