سفید پوش طبقہ کی حالت!

   سفید پوش طبقہ کی حالت!
   سفید پوش طبقہ کی حالت!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 دنیا کے مختلف ممالک میں جب عوام تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق سڑکوں پر نکلتے ہیں تو ایوانِ اقتدار لرز اٹھتے ہیں۔ طاقتور حکمران، بڑی بڑی حفاظتی حصار، اور مسلح دستے بھی عوامی سیلاب کو نہیں روک سکے۔ تاریخ گواہ ہے کہ عوام جب اپنے بنیادی مسائل کے لیے متحد ہو کر آواز بلند کرتے ہیں تو بڑے سے بڑا حکمران اور سب سے زیادہ مضبوط حکومت بھی زمین بوس ہو جاتی ہے۔ پہلے بنگلہ دیش اور اب نیپال کی مثالیں اس حقیقت کو ایک مرتبہ پھر دنیا کے سامنے لے آئیں۔بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد، جو کئی سال سے اقتدار پر قابض تھیں، عوامی غضب کا شکار ہوئیں۔ عوامی تحریک اتنی شدت اختیار کر گئی کہ آخرکار انہیں نہ صرف اقتدار بلکہ ملک چھوڑکر بھاگنا پڑا۔ دوسری طرف نیپال میں بھی حالات اس نہج پر پہنچے کہ وزیراعظم کو اپنی جان بچانے کے لیے ہیلی کاپٹر میں ملک سے راہ فرار اختیار کرنا پڑی۔ مشتعل عوام نے وزیراعظم ہاؤس تک کو آگ لگا دی۔ یہ سب منظر دنیا نے دیکھے اور ایک سبق حاصل کیا کہ جب عوام متحد ہو کر ظلم و زیادتی، کرپشن۔مہنگائی۔بے روزگاری ناانصافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تو کوئی قوت ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔

پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہاں بھی عوام برسہا برس سے مہنگائی، بے روزگاری، بجلی اور گیس کی گرانی، ناقص صحت  تعلیمی نظام، اور حکمرانوں کی کرپشن کا شکار ہیں۔ ایک عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا دن بدن مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ بجلی کے بل، گیس کے نرخ، دودھ، آٹا، سبزی، گوشت اور دیگر اشیائے ضرورت کی قیمتیں اس سطح تک پہنچ چکی ہیں کہ سفید پوش طبقہ کچلا جا رہا ہے۔پاکستان میں آج ایک مزدور، ایک استاد، ایک سرکاری ملازم، ایک ریٹائرڈ بزرگ پنشنر، سب ایک ہی سوال پوچھ رہے ہیں: ”یہ زندگی آخر کس طرح گزاری جائے؟“۔ بجلی کے بل اتنے بھاری ہیں کہ غریب کے گھر میں پنکھا چلانا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ گیس نایاب ہے اور جب آتی ہے تو نرخ اتنے زیادہ ہیں کہ خریدار کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔ دودھ، دہی، آٹا، چینی، سبزیاں، گوشت اور دالیں،  کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں جو عوام کی پہنچ میں ہو۔تعلیم کے اخراجات آسمان کو چھو رہے ہیں۔سرکاری سکولوں کو حکومت پرائیویٹ کررہی ہے اور پرائیویٹ اسکولوں اور کالجوں کی فیسیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہورہی ہیں۔ اسپتالوں میں علاج کے لیے بنیادی سہولتیں میسر نہیں، دوائیاں غائب ہیں، اور اگر موجود بھی ہوں تو قیمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ مریض کی زندگی بچانے کے بجائے جیب خالی ہو جاتی ہے۔ایسے کڑے وقت میں عوام یہ توقع رکھتے ہیں کہ حکمران ایثار کا مظاہرہ کریں گے، اپنے اخراجات کم کریں گے، اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے عملی اقدامات کریں گے۔ لیکن افسوس کہ پاکستان میں صورتحال بالکل برعکس ہے۔ ایوانوں کے بجٹ میں اضافہ ہوتا ہے، وزیروں مشیروں کی فوج مزید بھاری بوجھ بن جاتی ہے، سرکاری گاڑیوں کے قافلے بڑھتے ہیں، غیر ضروری غیر ملکی دورے جاری رہتے ہیں اور عوام سے کہا جاتا ہے کہ صبر کریں، مشکل وقت ہے۔

یہ وہ طرزِ عمل ہے جو عوام کو مزید غصے اور مایوسی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ جب حکمران اپنی زندگیوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور عوام کو قربانی دینے کا درس دیتے ہیں تو یہ دوہرے معیار لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرتے ہیں۔بنگلہ دیش اور نیپال کی حالیہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ وہاں عوام نے برداشت کی حد پار ہونے پر حکمرانوں کو اقتدار سے محروم کر دیا۔ یہی سبق ہمیں عرب دنیا کے "عرب بہار" کے واقعات سے بھی ملتا ہے جہاں تیونس سے لے کر مصر اور لیبیا تک عوامی تحریکوں نے دہائیوں سے قابض آمر حکمرانوں کو گھر بھیج دیا۔پاکستان کے عوام نے بھی ماضی میں بڑے بڑے آمر حکمرانوں کے خلاف تحریکیں چلائی ہیں۔ ایوب خان کے دور میں طلبہ اور عوامی احتجاج نے پورے نظام کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ جنرل ضیاء  الحق اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف بھی عوامی دباؤ آخرکار فیصلہ کن ثابت ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے عوام بھی اگر چاہیں تو تبدیلی کی طاقت رکھتے ہیں۔

آج پاکستان کا ہر شہری اپنے مسائل کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ ایک طرف بے روزگاری ہے، تو دوسری طرف بڑھتی ہوئی قیمتیں۔ چھوٹے کاروباری حضرات پریشان ہیں کہ کاروبار کس طرح چلائیں۔ کسان تنگ ہیں کہ کھاد، بیج اور بجلی کے بل اتنے زیادہ ہیں کہ کھیت سے منافع کے بجائے خسارہ نکلتا ہے۔ مزدور طبقہ روزانہ کی دہاڑی سے گھر کا خرچ پورا کرنے سے قاصر ہے۔یہ صورتحال کسی دھماکے سے پہلے کے سکوت کی مانند ہے۔ عوام کے دل میں غصہ اور نفرت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ غصہ ایک دن سڑکوں پر نکل آیا تو پھر کیا ہوگا۔ کیا حکمرانوں کے محلات اور ایوان عوامی سیلاب کے سامنے قائم رہ سکیں گے؟ تاریخ کا جواب نفی میں ہے۔

پاکستان کے مسائل کا حل کسی شارٹ کٹ میں نہیں بلکہ ایک جامع پالیسی اور عملی اقدامات میں ہے۔ سب سے پہلے ضروری ہے کہ حکمران اپنی زندگیاں سادہ کریں اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے عملی طور پر قربانی دیں۔ بجلی اور گیس کے نرخ کم کیے جائیں، غیر ضروری ٹیکس ختم کیے جائیں، بنیادی اشیائے ضرورت پر سبسڈی دی جائے۔دوسرا اہم نکتہ کرپشن کے خاتمے کا ہے۔ جب تک وسائل چند ہاتھوں میں بندھے رہیں گے اور دولت صرف اشرافیہ کی جیبوں میں جائے گی، تب تک عام آدمی کی زندگی بہتر نہیں ہو سکتی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ قرض ہے جو ہمارے حکمران دنیا سے لے کر روم کی راہوں میں پہاڑ مسائل کھڑے کررہے ہیں۔ شفاف احتساب اور میرٹ کا نظام قائم کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔تیسرا قدم تعلیم اور صحت پر توجہ دینا ہے۔ اگر عوام کو مفت یا سستی تعلیم اور علاج کی سہولت میسر ہو تو ان کی زندگی کے نصف مسائل خود بخود کم ہو جائیں گے۔ اسی طرح روزگار کے مواقع پیدا کرنا بھی ناگزیر ہے تاکہ نوجوان اپنی صلاحیتوں کو مثبت سمت میں لگا سکیں۔دنیا کے واقعات پاکستانی حکومت کے لیے آئینہ ہیں۔ اگر حکمرانوں نے بروقت عوام کے مسائل حل نہ کیے، مہنگائی کو کم نہ کیا اور انصاف فراہم نہ کیا تو یہ غصہ ایک دن ایوانوں کی دیواریں ہلا دے گا۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ حکمران اپنی روش بدلیں اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے عملی اقدامات کریں۔بنگلہ دیش اور نیپال کی مثالیں ہمیں یہی بتا رہی ہیں کہ اقتدار کا دوام صرف عوام کی خوشنودی میں ہے۔ جو حکمران عوامی توقعات پر پورے نہیں اترتے، ان کے لیے اقتدار کے محلات بھی قید خانہ بن جاتے ہیں اور انہیں ہیلی کاپٹر یا خفیہ راستوں سے فرار ہونا پڑتا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں سیاستدانوں کو آج ہی سوچ لینا چاہیے کہ کل کا دن کس طرح محفوظ بنایا جائے۔

مزید :

رائے -کالم -