*اشک پینے کیلئے،خاک اڑانے کیلئے* 

   *اشک پینے کیلئے،خاک اڑانے کیلئے* 
   *اشک پینے کیلئے،خاک اڑانے کیلئے* 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قومی خزانہ میں اضافہ کا تصور نیا نہیں۔ہر حکمران کی خواہش رہی ہے کہ اس کے دور میں قومی خزانہ یا بیت المال بھرا رہے اور اس پر باز پرس بھی  نہ ہو یا دوسرے الفاظ میں قوم کا خزانہ ایسی سلیمانی چادر سے ڈھانپ دیا جائے جو کسی کو نظر نہ آ سکے۔ایسے میں بھک منگے عوام کی نظر لگ گئی اور کھل کھیلنے کا موقع ضائع ہو گیا تو؟ اور پھر یہ عوام جو ذرا سی مہنگائی پر طوفان اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بے صبری قوم!!! حکمرانوں کی باری میں وقفہ ممکن نہیں۔خزانے پہ سانپ بھی مقرر ہیں اور بلی بھی دودھ کی رکھوالی پہ بیٹھی ہے۔ بیسیوں کمیٹیاں سوچ بچار میں دن رات غرق ہیں لیکن عوام کے مسائل کا انبار تو گویا محمد حسین آزاد کے الفاظ میں گناہوں کی گٹھڑی کی طرح بڑھتے چلے جا رہا ہے۔ حکومت کی خواہش ہے قوم ایثار کی طرح ڈالے اور اپنی ایک ایک روٹی کم کر کے قومی خزانہ میں جمع کروایا کرے۔ اب صورت حال کچھ یوں ہے کہ ضدی عوام کی بھوک پسلیوں میں اور خواص کی بھوک آنکھوں میں اتر آئی ہے چنانچہ فیصلہ صادر کیا گیا ہے کہ عوام کے اعضا پر  بھی ٹیکس واجب کیا جائے اور سرکاری مشینری پسلیاں گنتے گنتے گردے اور پھیپڑے بھی پسلیوں میں شمار کرنے لگے ہیں تاکہ زیادہ ٹیکس وصولا جا سکے۔خزانہ وہ زنبیل ہے جو بھرتا ہی نہیں ہر بادشاہ نے تو یہ مثال نہیں سنی ہو گی جو دانا وزیر نے ٹیکس کی وضاحت کے لیے بادشاہ کی تشویش پر اسے سمجھائی تھی۔وزیر نے برف کا ٹکڑا سب سے آخر میں بیٹھے عہدہ دار کے ہاتھ میں دیا اور باری باری سب کے ہاتھوں سے ہوتا ہوا برف کا ٹکڑا  بادشاہ تک ایک قطرہ پانی کی صورت میں ہی پہنچ سکا۔سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ جب سے جلتا شہر بچانے کے لیے آنکھ کے آنسو کی تمثیل استمعال کی گئی ہے۔ارباب اختیار نے آنسوؤں کو بھی فائر بریگیڈ کا ذیلی محکمہ گردانتے ہوئے ان پر ٹیکس کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ عرصہ دراز سے بندر بانٹ کی کہانی اور بلیوں کی محرومی کہانی بھی ہے اور حقیقت بھی۔کہانی ہمیشہ دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک خواص کی کہانی جسے حقیقت نہیں ثابت کیا جا سکتا اور ایک عام کہانی جو صدیوں سے کردار تبدیل کرتی ہے لیکن اس کہانی کا سفر جاری ہے۔ بلی کے سات گھر بدلنے کی روایت جیسی کہانی۔بلی بھلے شیر کی خالہ کہلائے لیکن بندر بانٹ میں مات کھا جاتی ہے۔بالکل اسی طرح جیسے سرکاری ملازمت کے لیے کبھی عمر کی حد طے کی جاتی ہے،کبھی تعلیم کی قید اور کہیں  سفارش کے پہیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔لیکن سرکار چلانے کے لیے کوئی شرط نہیں۔حد تو یہ ہے کہ پانچ سال کے لیے  آنے والے زندگی بھرکے لیے سہولیات کا بل پاس کروا کے جاتے ہیں اور عمر بھرکے لیے سر جھکا کر سرکار کی بیگار بھگتنے والوں کے لیے لاٹری کے ٹکٹ جیتنے والے ہنوز طے کر رہے ہیں کہ ان کی خدمات کا صلہ دیا جائے یا روک لیا جائے یعنی مار دیا جائے یا چھوڑ دیا جائے اور یہ پوچھنا بھی گوارا نہیں کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔مختصر مدت کے لیے منتخب ارکان کو یہ اجازت کون دیتا ہے کہ وہ بنیاد ہلا کر چلے جائیں۔ عوام کا پیسہ حکومت کے پاس امانت ہے۔ اس کا درست استعمال مغربی ممالک میں نظر آتا ہے۔ جیسا کہ سویڈن میں عوام سے ٹیکس کی شرح دنیا کی بلند ترین شرحوں میں شمار ہوتی ہے لیکن وہاں کے لوگ خوشی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ رقم تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ اور سماجی فلاح پر خرچ ہوگی۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہاں ہر شہری کو مفت تعلیم، عالمی معیار کی طبی سہولیات اور بے روزگاری کی صورت میں حکومتی وظیفہ ملتا ہے۔

جرمنی کی حکومت قومی خزانے کو صنعتی ترقی اور عوامی سہولیات پر خرچ کرتی ہے۔ اس ملک نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد تباہی سے دوبارہ کھڑے ہونے کے لیے قومی خزانے کا زیادہ تر حصہ تعلیم، تحقیق اور ٹیکنالوجی پر لگایا۔ آج جرمنی دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں شامل ہے اور عوام کو بہترین سہولیات میسر ہیں۔

برطانیہ میں نیشنل ہیلتھ سروس (NHS) عوام کو مفت طبی سہولیات فراہم کرتی ہے۔ یہ تمام سہولتیں عوام کے ٹیکس سے چلتی ہیں۔ دوسری طرف ہمارے یہاں تنخواہ دار طبقہ میں بے محکمہ جات شامل ہیں۔ وہ بھی جو نوٹ خود ہی چھاپ لیتے ہیں اور وہ بھی جو محنت مشقت اور زندگی داؤ پر لگا کر بھی حلال کمائی کی تصدیق کے منتظر ہیں۔وہ بھی جو اپنی سو صد انکریمنٹ پر خود ہی مہر لگا لیتے ہیں اور وہ بھی جو بلیوں کی طرح اپنی روٹی بھی گنوا رہے ہیں۔ بندر بانٹ کی کہانی سچ ہے،سو فی صد اور کڑوا سچ۔ قومی خزانے کی تقسیم کے معاملات کو ہمیشہ عوام کی نظروں سے اوجھل رکھا گیا ہے.ہم صرف کہانیاں سننے والے ہیں۔

 ایک جزیرہ اس کے آگے پیچھے سات سمندر

سات سمندر پار سنا ہے ایک خزانہ ہے تنخواہ دار طبقہ اس مرتبہ بھی حکومت کی جانب دیکھ رہا ہے لیکن واپسی پر جواب نفی میں ہی ہو گا. استاد سیاست کی نذر ہو رہے ہیں۔بھلے سے وہ نسل کی تربیت کریں لیکن سیاست میں بندر بانٹ ہی چلتی ہے اور چلتی رہے گی۔افتخار عارف کے اشعار میں۔   

کن زمینوں پہ اتارو گے اب امداد کا قہر

کون سا شہر اجاڑو گے بسانے کے لیے 

نفرتیں بیچنے والوں کی بھی مجبوری ہے

مال تو چاہئے دوکان چلانے کے لیے

مزید :

رائے -کالم -